جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے۔۔۔
اُس کے بال برف سے سفید تھے۔ چہرے پر پڑی جھریوں میں سکون کا دریا بہتا تھا۔
اُس کے بال برف سے سفید تھے۔ چہرے پر پڑی جھریوں میں سکون کا دریا بہتا تھا۔ شفقت سے لبریز آنکھیں ایک پھول پر ٹکی تھیں، جو سرما کی نرم دھوپ میں مسکرا رہا تھا۔
میں اُس روشن روح کے پہلو میں دست بستہ کھڑا تھا۔ سر احترام سے جھکا ہوا۔ آنکھوں میں مسرت کی نمی کہ اُس حسین دوپہر میں ایک ایسی عورت کے روبرو تھا، جو ایک وسیلہ تھی۔ قدرت کے عظیم منصوبے کا حصہ، جس نے کوڑھیوں کے زخموں پر محبت کا مرہم رکھا۔ دھتکارے ہوئے انسانوں کو شفقت کی دوا دی۔ خوف کے ناسور کو شکست دے کر انسانیت کو بحال کیا۔ وہ ایسی پاکیزہ ہستی تھی، جس سے مل لیے، جو سمجھیں کہ زندگی سے عشق ہو گیا۔
پیشہ میرا صحافت ہے۔ بنیادی وظیفہ؛ انٹرویو نگاری۔ اوائل عمری میں مطالعے کا چسکا پڑا۔ جیب خرچ سے پیسے بچا کر کتابیں خریدنی شروع کیں۔ یہی کتابیں ایک روز چپکے سے، تخلیقی میدان میں لے آئیں۔ کہانیاں لکھنی شروع کیں۔ صحافت میں آنے کے بعد لکھنے کی مشق میں تسلسل آ گیا۔ تھوڑی بہت پختگی آئی، قلم کچھ سنبھلنے لگا، تو افسانوں کی بنت شروع ہو گئی۔ وقت نے اِس عمل کو مہمیز کیا۔ اب یہ حال ہے کہ الفاظ محور زندگی ہیں۔ روح اُن کے گرد گردش کرتی ہے۔ دن خیالات کو الفاظ کا ملبوس عطا کرنے میں گزرتے ہیں، اور اچھے گزرتے ہیں۔ مطالعے کی رسم ادا کیے بغیر نیند نہیں آتی۔ سفر میں کتاب ہم سفر ہوتی ہے۔ادب کا ذوق اوروں کو بھی ہو گا، اور زیادہ پختہ ہو گا، مطالعے کے شایق بھی کئی ہیں، مگر خوش بختی یہ رہی کہ انٹرویو نگار کی حیثیت سے کئی اُجلے انسانوں سے مکالمے کا موقع ملا۔ اُن کی نکھری باتیں سننے، اُن کی بلند فکر قلم بند کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسوں کی صحبت نے المیوں کے شکار اِس ماحول میں جینے کا حوصلہ دیا۔ اُن کے چہروں پر سجے آگاہی کے سکون نے کچھ امید پیدا کی۔
قہر کے زمانوں میں تازہ ہوا کا ایک دریچہ کھل گیا ان کے طفیل۔یوں تو سیکڑوں دانش مندوں، نیک طینت انسانوں سے ملاقات ہوئی، مگر کچھ ایسے تھے، جنھوں نے زندگی کو چاہنے کی، اُس سے بغل گیر ہونے کی تحریک دی۔ اور ایسی ہی ایک ہستی ہیں، ڈاکٹر روتھ فاؤ۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ سماجی کارکن، جنھوں نے پہاڑوں صحراؤں میں، پاکستان کے دور دراز علاقوں میں، جذام جیسے موذی مرض کا تعاقب کیا۔ جذام، جسے کبھی عذاب خدا تصور کیا جاتا تھا، مریض کو گناہ گار کہہ کر معاشرے سے الگ کر دیا جاتا، اِس باہمت اور نیک فطرت عورت کے آگے نہیں ٹھہر سکا۔ اُس کے چھوتے ہی کوڑھی اچھے ہونے لگے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی کہانی طویل ہے۔ آبائی وطن جرمنی۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ یہ تجربہ مذہب کی جانب لے آیا۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ہندوستان جانے کی خواہش تھی، مگر قدرت اُنھیں پاکستان لے آئی۔ یہاں سسٹر برنس وارگس نامی ایک نیک عورت سے ملاقات ہوئی، جو اُنھیں کراچی میں واقع کوڑھیوں کی بستی لے گئی۔ وہاں کے مناظر نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دہلا کر رکھ دیا۔ ایک عظیم مقصد آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا۔ اِس ملک کو انھوں نے مسکن بنا لیا۔ کوڑھیوں کی فلاح و بہبود کے لیے جٹ گئیں۔ میری ایڈلیڈ لپروسی سینٹر (MALC)قائم کیا، جو ہزاروں کوڑھیوں کا علاج کر چکا ہے۔ 60 ہزار مریض رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اب تک۔ کام یابی کی شرح 98 فی صد رہی۔ اُس نیک فطرت عورت سے ہونے والی ملاقات آج بھی یادوں کی راہ داریوں میں مہک بن کر رقص کرتی ہے۔
بات اُجلے انسانوں کی ہو، تو خط نستعلیق کو کمپیوٹر سے ہم آہنگ کر کے کتابت و طباعت کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اردو کے محسن، احمد مرزا جمیل کا تذکرہ لازم ہے، جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل پر چھری سی چل جاتی ہے۔ کیسی خاموشی سے رخصت ہوئے۔ یقین نہیں آتا۔ نو عشروں پر محیط زندگی میں جمیل صاحب حرکت میں برکت کے مقولے پر عمل پیرا رہے۔ جمود کو موت خیال کرتے تھے۔ اُن کی ایجاد ''نوری نستعلیق'' سے اِس حسین خط کی دائمی حفاظت ہو گئی۔ جب کسی لکھاری کی انگلیاں ''کی بورڈ'' پر حرکت کرتی ہیں، الفاظ خط نستعلیق میں، جسے اردو کا چہرہ قرار دیا جاتا ہے، کمپیوٹر اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں، اُس کا دل احساس تشکر سے بھر جاتا ہے۔ جمیل صاحب ہمارے محسن ہیں۔ اُنھوں نے کاتبوں اور وقت کے محتاج اِس خط کو مشین پر منتقل کر دیا۔ اِس موجد سے آخری دنوں میں چند ملاقات ہوئیں، اور ہر ملاقات کے بعد زندگی کچھ اور بھلی لگنے لگی۔
فکشن کی پُراسرار دنیا سے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد فکشن نگاروں کا تعاقب مجھ پر لازم ٹھہرا۔ اِس تعاقب کا نتیجہ بڑا ہی حسین رہا۔ اسد محمد خاں جیسے عظیم افسانہ نگار سے ملاقات ہو گئی، جن کے طلسماتی قلم نے قارئین ادب کے لیے ایک حیران کن دنیا تخلیق کی۔ انوکھے کردار تراشے۔ پڑھنے والوں کو گرویدہ بنا لیا۔ جادوئی شبدوں سے جو کتھائیں بُنیں، ذکر آج اُن کا یوں ہوتا ہے، جسے کسی اساطیر کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ ''باسودے کی مریم'' اور ''مئی دادا'' اگر آپ نے پڑھ لیے، تو سمجھیے کہ آپ اسد محمد خاں کے ہو گئے۔ تخلیق کار تو بے مثال ہیں ہی، انسان بھی باکمال ہیں۔ انتہائی شفیق۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے۔ اجنبیوں سے بھی یوں ملتے ہیں، جسے برسوں سے جانتے ہوں۔ کوئی ان کے جادوئی قلم کو سراہے، تو عاجزی سے سر جھکا لیتے ہیں۔ زندگی کی علامت ہیں وہ۔ قابل تقلید انسانوں کی فہرست میں اور بھی چند نام ہیں۔ لازوال ناول لکھنے والے مستنصر حسین تارڑ ۔ روشن معاشرے کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر شاہ محمد مری ۔ اپنی بین الاقوامی شہرت سے لاتعلق نظر آنے والے محمد حنیف۔ خواتین صحافیوں کے لیے منارۂ امید، شاہدہ قاضی۔ ادب برائے تبدیلی کے لیے خود کو وقف کر چکے احسن سلیم ۔ ماہر تعلیم اور میرے بزرگ، پروفیسر یاسین شیخ ہیں۔ میدان صحافت میں بھی خوش قسمتی سایہ فگن رہی۔ سینئر صحافیوں کی راہ نمائی میسر آئی۔تو صاحبو، حالات بے شک کٹھن ہیں۔ المیوں کی فراوانی ہے۔ ہر طرف آگ اور خون، مایوسی۔ مگر یاسیت کے اِسی کہرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جن کی موجودگی میں غم کچھ کم ہو جاتا ہے۔ گریے کی خواہش کم زور پڑتی ہے۔ زندگی کچھ بھلی لگنے لگتی ہے۔ اور اُس پل تو جیون مسرت سے چہک اٹھتا ہے، جب میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر کی بالکونی میں کھڑی ڈاکٹر روتھ فاؤ تازہ گلاب کی اُور دیکھتی ہیں۔ گلاب اُن کی توجہ پا کر خوشی سے لہراتا ہے۔ اور میں خود کو دست بستہ، اُن کے پہلو میں کھڑا پاتا ہوں۔ اُس پل ہر سو روشنی ہوتی ہے۔