قحط سالی اور عورتیں

تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے ایک سو تیس سے زائد بچوں کی ہلاکت کی خبر نے پاکستان کے شہریوں کو ہلا کے رکھ دیا


Mahnaz Rehman March 12, 2014

تھرپارکر میں غذائی قلت کی وجہ سے ایک سو تیس سے زائد بچوں کی ہلاکت کی خبر نے پاکستان کے شہریوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ لیکن کیا یہ ہلاکتیں واقعی قحط کا نتیجہ ہیں؟ نوبل انعام یافتہ امرتیا سین کی تحقیق کے مطابق قحط پڑنے کی اصل وجہ غذائی قلت یا خشک سالی نہیں بلکہ اس سے بھی اہم وجہ وہ سماجی نظام ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ معاشرے میں خوراک کی تقسیم کس طرح ہو گی۔ لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی غذا والی صورت حال شاذ و نادر ہی پیدا ہوتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ غذا تو موجود ہوتی ہے لیکن غریبوں اور ناداروں تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ بچپن میں نصابی کتب میں پڑھا تھا کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی ضرورت سے زیادہ اناج پیدا ہوتا ہے اور وہ اس فاضل اناج کو سمندر میں بہا دیتے ہیں اور میں سوچا کرتی تھی کہ وہ یہ اناج غریب ممالک کو کیوں نہیں دے دیتے؟ آج یہ سوال ایک بار پھر میرے سامنے آ کھڑا ہوا ہے کہ پاکستان کے صاحبان اقتدار، تاجر حضرات اور افسر شاہی اناج کو گوداموں میں بند رکھنے کی بجائے غریبوں میں کیوں تقسیم نہیں کر دیتے؟ مسئلہ غذا کی مادی موجودگی سے زیادہ بھوکے لوگوں کا اس پر حق ہے۔ امرتیا سین کے بقول ہمیں اپنی توجہ غذا کی موجودگی سے زیادہ اس کی تقسیم پر دینی چاہیے۔ ایک عام آدمی کی زبان میں سین یہ کہنا چاہ رہا ہے ''ساڈا حق۔۔۔۔ ایتھے رکھ''۔

غریب اور قحط کے حوالے سے سین غذائی حق کو چار درجوں میں تقسیم کرتا ہے (1)پیداواری حق یعنی اناج اگانا (2) تجارتی حق یعنی اناج خریدنا (3) محنت کرنے کا حق یا اناج کے حصول کے لیے کام کرنا اور (4) وراثت اور تبادلے کا حق یا دوسروں کا آپ کو غذا فراہم کرنا۔ اگر زندہ رہنے کے لیے خاطرخواہ خوراک نہ ملے تو انسان فاقہ کشی کا شکار ہو جاتا ہے اور جب ایک علاقے میں بہت سارے لوگوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو اسے قحط کہا جاتا ہے۔ مالتھس جیسے پرانے ماہرین اقتصادیات کا کہنا تھا کہ لوگ زیادہ ہیں، اس لیے اناج کم پڑتا ہے لیکن سین کا کہنا ہے کہ اناج موجود ہے مگر لوگ اسے حاصل نہیں کر پاتے یعنی اگر اناج کی فراہمی خاطر خواہ ہو، منڈیاں بھی صحیح طرح سے کام کر رہی ہوں، تب بھی قحط ایسی صورت حال رونما ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ تھرپارکر میں ہوا، گندم گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔

ان سطور کے قلم بند ہونے تک ایشین ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق ''گزشتہ تین ماہ میں 193 بچے فاقہ کشی کے نتیجے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ گو حکومت کی جانب سے ان اموات کو مختلف بیماریوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اموات کا سبب بھوک، پانی کی مستقل قلت، انتہائی غربت اور طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ خود وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں 60 بچوں کی اموات ہوئی ہیں لیکن انھوں نے اس کا ذمے دار سردی اور ماں بچوں کی صحت کی صورت حال کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا حکم بھی جاری کیا لیکن ابھی تک صرف دو ہزار بوریاں تقسیم کی گئی ہیں'' ظاہر ہے اس کے لیے بیوروکریسی اور سیاست دانوں دونوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔

قحط کی صورت حال کی وجہ سے جہاں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے، وہیں عورتوں اور بچیوں پر تشدد کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ تھرپارکر میں ویسے بھی گزشتہ چند ماہ میں عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عورتوں پر تشدد اور قحط کی موجودہ صورتحال دونوں کا تعلق غربت سے ہے۔ اگر سندھ اور وفاق تھرپارکر اور ملک بھر سے بھی غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو:

٭ زراعت میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
٭ ملازمتوں کے مواقعے پیدا کریں۔
٭سوشل سیفٹی نیٹس میں توسیع کریں۔
٭دو سال سے کم عمر بچوں کو ہدف بنانے والے غذائی پروگراموں کو پھیلایا جائے۔
٭تعلیم کو عام کیا جائے۔
٭صنفی مساوات کو فروغ دیا جائے۔
٭کمزور اورغریب علاقوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

اخبارات میں شایع ہونے والی تھرپارکر کے دم توڑتے بچوں کی تصویریں سب کا دل دہلا دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں گزشتہ دو تین عشروں میں قحط کی پیش بندی کرنے اور فاقہ کشوں کو غذا فراہم کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن تھرپارکر میں ایسی کوششیں یا تو کی نہیں گئیں یا وہ فاقہ کشی کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں اور اموات کو روکنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ قدرت کی طرف سے سیلاب اور خشک سالی تو آتی رہتی ہے لیکن زیادہ تر معاشروں اور حکومتوں نے متاثرین کے لیے بروقت غذا کی فراہمی کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں لیکن جب ان طریقوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں تو انسانی حماقتوں کے نتیجے میں قحط کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ امرتیا سین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں صحیح معنوں میں جمہوری حکومت اور آزاد پریس ہو تو وہاں سنگین قسم کی قحط سالی آ ہی نہیں سکتی۔ پریس ایک وارننگ سسٹم کے طور پر کام کرتا ہے اور جمہوریت کا دباؤ حکمرانوں کو قحط پیدا کرنے والی پالیسیاں بنانے سے باز رکھتا ہے۔

ماہرین کی تحقیق کے مطابق جو انھوں نے تھرپارکر جیسی صورتحال میں دنیا کے دیگر ممالک میں کی ہے، عورتیں اور بچیاں اس صورت حال سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ پانی کی کمی حفظان صحت پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ جو تھوڑا بہت پانی میسر ہوتا ہے وہ پینے اور کھانا پکانے کے کام آتا ہے۔ عورتیں اور لڑکیاں طویل فاصلہ طے کر کے پانی بھر کے لاتی ہیں۔ اسی لیے بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے بھی نہیں ملتے کیونکہ مائیں پانی کی تلاش میں نکل جاتی ہیں اور بچیاں گھروں میں چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ مرد اپنے مویشیوں کے ساتھ چارے اور پانی کی تلاش میں نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ عورتیں گھروں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہ جاتی ہیں اور چھوٹے موٹے کام کر کے گزارا چلاتی ہیں۔

غربت کے نسائی چہرے کا تصور بھی اسی لیے سامنے آیا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عورتیں غربت کا بوجھ زیادہ اٹھاتی ہیں۔ ایسا نہ صرف کم آمدنی کے نتیجے میں ہوتا ہے بلکہ معاشرے اور حکومت دونوں کے صنفی تعصبات کی وجہ سے عورتوں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقعے نہ ملنے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ عورتوں کی کم آمدنی ان کی غربت کا بنیادی سبب ہے۔ ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے عورتوں کی توانائی کو کیسے استعمال کیا جائے، اس کے لیے امرتیا سین بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہیں کیونکہ بہت سے سماجی اشاریوں کے لحاظ سے بنگلہ دیش آگے نکل چکا ہے کیونکہ وہاں عورتوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ چین کی مثال بھی قابل تقلید ہے جہاں اقتصادی ترقی میں حکومت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چینی حکمت عملی یہ ہے ''اگر آپ کو ایک کامیاب مارکیٹ اکنامی درکار ہے تو حکومت کو تعلیم اور طبی سہولتوں کے ذریعے انسانی استعداد کو بڑھانے کا فریضہ ادا کرنے دو۔''

چینیوں نے یہی کیا گوکہ 1979ء کی اقتصادی اصلاحات کے بعد کچھ عرصے کے لیے انھوں نے میڈیکل انشورنس کی نجکاری کی لیکن دو عشروں کے بعد انھیں اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا اور انھوں نے اپنی اصلاح کر لی۔ ان کی بے مثال ترقی نے ثابت کیا ہے کہ انسانی استعداد کو بڑھانے کے لیے حکومت کو مارکیٹ کا پارٹنر /ساتھی بننا ہو گا۔ پاکستانی حکومت کو بھی اسی حکمت عملی کو اپنانا چاہیے۔

اب پاکستان میں جمہوری عمل رواں ہو چکا ہے اور امرتیا سین کے بقول ''جمہوریت کی چند نمایاں خصوصیات ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ شدید تکلیف یا ناانصافی کی شکل میں اگر لوگ اٹھ کھڑے ہونے کو تیار ہوں تو اس مسئلے کو توجہ مل سکتی ہے۔ تھرپارکر جیسی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش اس کی ایک مثال ہے۔

ظاہر ہے پاکستانی جمہوریت میں کافی خامیاں ہیں ورنہ تھرپارکر میں اتنے بچوں کی اموات جیسے واقعات سامنے نہیں آتے اس کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا مشکل ہوگیا ہے۔ پولیو ورکرز کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے اور بہت سی ورکرز کو مارا جاچکا ہے۔ بہت سے علاقوں میں نہ اسکول ہیں نہ اسپتال، گاؤں میں گھروں میں بیت الخلا تک نہیں ہیں۔ عدم مساوات اور ناانصافی کے مسائل پر عوامی گفتگو اور مباحثے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

امرتیا سین کے بقول جمہوری حکومت کی خامیوں کو دور کرنے کا ایک طریقہ انفارمیشن بھی ہے۔ شہریوں کو حکومت سے معلومات حاصل کرنے کا حق ہے اور اس کے لیے معلومات تک رسائی کے قانون پر بھرپور عمل درآمد ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔