مٹیالہ پانی تیرتی لاشیں اور سیاسی جہاز

پورا ملک سیلابی صورتحال کا شکار ہے اور عوامی نمائندے سیاسی چالبازیوں میں مصروف ہیں


سیلاب، مٹیالے پانی میں تیرتی لاشیں سیاستدانوں کی ترجیح میں شامل نہیں۔ (فوٹو: فائل)

BALAKOT: گزشتہ چند دنوں سے کچھ تلخ مناظر مجھے رات کو سونے نہیں دیتے۔ جنہوں نے مجھے بے چین کر رکھا ہے۔ ایک منظر نوشہرہ کی حدود میں دریا کنارے اوندھے منہ پڑی سارا کی لاش کا ہے۔ ایک منظر بلوچستان میں ایک خاندان جس میں خواتین اور نوعمر بچے بھی شامل ہیں، اپنی جھگی کی چھت پر بیٹھا ہے اور خاندان کے سربراہ قرآن مجید اٹھائے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان، اتھل، جھل مگسی، لسبيلہ میں مدد کو پکارتے اہل وطن کی بے بسی کی مناظر مجھے پلکیں تک جھپکانے نہیں دے رہے۔ مجھے جھل مگسی کی بوڑھی ماں کی چیخ و پکار بے چین کر رہی ہے۔ ایک اور منظر کراچی میں چلتے چلتے بجلی کے کھمبے سے ٹکرا کر بھسم ہونے والے چار برس کے بچے کا ہے۔

اور ایک منظر تالیاں بجاتے، ڈھلتے سورج کے نظارے کرتے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے عوامی نمائندوں کا ہے۔ لاہور کے لبرٹی چوک میں تحریک انصاف اور ن لیگ کی رقص و سرود اور نعرے بازی کی محفلیں بھی دماغ میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہیں۔ یقین جانیے رات کروٹ بدلنے میں گزر جاتی ہے، یہ مناظر ہیں کہ دماغ کی اسکرین سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

گلگت سے گوادر اور چترال سے کراچی، پورا ملک اس وقت شدید سیلابی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ مگر عوامی نمائندے ہیں کہ بیانیوں کی بے ڈور پتنگ کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔ آئین، جو کہ ریاست کو ماں کا درجہ دیتا ہے، سیاسی قیادت رعایا کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجائے آئین کی من پسند تشریح کےلیے کوشاں ہیں۔ پشاور کے علاقے حسن گڑھی کی دو برس کی سارا کی اوندھے منہ پانی پر تیرتی لاش عوامی نمائندوں سے سوال کر رہی ہے کہ کیا آپ کی کرسی میری میت سے زیادہ اہم ہے؟ کیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا دورہ بنی گالہ میرے کفن سے زیادہ ضروری تھا؟ دور دور تک مٹیالے سیلابی پانی میں صرف ننھی سارا کی لاش ہی نہیں بلکہ ہمارا نظام تیر رہا تھا۔ جس کے گرد سیاسی مفادات اور الزامات کا کیچڑ ہے۔ جو نفرتوں کی دلدل میں پوری طرح دھنس چکا ہے۔

یہ سیلاب، مٹیالے پانی میں تیرتی لاشیں، قرآن اٹھائے مدد کو پکارتے انسان، کرنٹ سے جھلستے انسان، صرف سیاست دانوں ہی کی نہیں بلکہ میڈیا کی ترجیح میں بھی نہیں ہیں۔ جب یونان پہنچنے کی کوشش میں ڈوب کر ساحل پر مردہ حالت میں پڑا ایک چھوٹا شامی بچہ پاکستان میں خبروں کی زینت بن سکتا ہے تو پاکستان ہی کی ننھی سارا خبر کیوں نہیں بن سکتی؟ جب ممبئی اور بنگلہ دیش کے سیلاب متاثرین پرائم ٹائم کی خبر بن سکتے ہیں تو جھل مگسی، نوشہرہ اور ڈی جی خان کے بے بس عوام پر بلیٹن کیوں نہیں ہوسکتا؟

اس کا جواب بھی موجودہ ریٹنگ کی دوڑ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں کوئی ریٹنگ میٹر نہیں تو ان بے بس عوام کی خبریں کیوں چلائی جائیں؟ ڈی جی خان اور نوشہرہ میں بھی میٹر کا نام و نشان نہیں ہے، اس لیے یہاں کی بے گوروکفن لاشیں بھی نیوز بلیٹن کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ ان جھونپڑیوں کے مکینوں کا قصور یہ ہے کہ یہ غریب ہیں، ان کی کوئی نہیں سنے گا، چاہے ملبے تلے دب جائیں یا پانی میں بہہ جائیں، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی بے بسی، مجبوری اور لاچاری پر بھی راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

اس وقت اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کراچی میں سیاسی دیگ کو بیانات، الزامات اور نعروں کی آنچ پر پکایا جارہا ہے۔ دیگ کو دم کب لگے گا تاحال اس کی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی، مگر دیس کے باسی، رعایا یعنی عوام کا دم ضرور گھٹ رہا ہے۔ سیاسی جلسوں سے اٹھنے والا تعفن عوام کےلیے ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ عوام کو دکھائی دے رہا ہے صرف ایک جہاز، جس کی نشستوں پر سوار افراد کے صرف نام بدلے ہیں مگر کہانی بالکل وہی پرانی ہے۔ اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ ہی پروڈکشن کا انداز تبدیل کیا گیا ہے۔ پرویزالہٰی وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے مگر انہوں نے پہلا حکم نامہ احتساب کرنے والے افسران کی تبدیلی کا جاری کیا۔ وہ تونسہ اور ڈی جی خان کے عوام کو یکسر بھول گئے، حالانکہ گزشتہ چار برس میں صوبے کا سب سے زیادہ بجٹ اسی ڈویژن پر لگایا گیا تھا۔

اس وقت ہزاروں شہری بے گھر ہوچکے ہیں، سیکڑوں خاندان اجڑ گئے ہیں، عمر بھر کی جمع پونجی کیچڑ اور سیلاب کی نذر ہوچکی ہے۔ درجنوں قیمتی جانوں کو پانی تنکوں کی مانند بہا کر لے گیا۔ بے یار و مددگار اہل وطن حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ وہی حکومت جس میں جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ مگر ایک ایسے وقت میں جب شہروں، دیہاتوں کو سیلاب بہا کر لے جارہا ہے، میدان عمل میں پاک فوج کے جوان اور جماعت اسلامی کے کارکنان ہی نظر آرہے ہیں۔

جس وقت میں یہ سطور تحریر کررہا ہوں وزیراعظم پاکستان کا ایک ٹوئٹ بھی آگیا ہے، جس میں سیلاب کو موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دے کر خادم پاکستان اپنی جاں خلاصی کر رہے ہیں۔ یہ ماضی کی حکومتوں کا وہی وتیرہ ہے جس کے تحت سیلاب کا سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر ارباب اختیار ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے تھے۔ حالانکہ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کئی دریا دو سے تین بار بھارت میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں اور پھر پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کیا بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کےلیے ایسی غلطی کرسکتا ہے؟

اے صاحبانِ اقتدار ارباب اختیار! جان کی امان پاؤں تو گزارش ہے کہ اگر اپنے اقتدار اور کرسی کے خوابوں سے فرصت مل گئی ہو تو ان مٹیالی موجوں اور تباہ حال علاقوں کے قسمت کے مارے لوگوں کا حال جان لیں، جہاں سیلاب نے ایسی تباہی پھیلائی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن کیا کرسی کا لالچ کبھی ختم ہوگا؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور صاحبان اقتدار کے اس لالچ اور عوام کی گریہ و زاری پر میر تقی میر کا یہ شعر صادق آتا ہے

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں