موسیقی فروغِ تعلیم میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے نعیم گل

معروف، موسیقار اور گلوکار، نعیم گل سے ایک ملاقات


Iqbal Khursheed March 12, 2014
معروف، موسیقار اور گلوکار، نعیم گل سے ایک ملاقات۔ فوٹو : فائل

''اگر میری زندگی سے موسیقی نکال دی جائے، تو میں گلیوں میں گھومنے والا وہی توتلا لڑکا ہوں، جسے اپنے ساتھیوں کے طنز کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔

اُن حالات میں موسیقی نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔'' یہ خیالات ہیں باصلاحیت موسیقار، نعیم گِل کے۔ شناخت کا بنیادی حوالہ مسیحی دعائیہ گیت ہیں، چار البمز مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک انوکھا منصوبہ اُنھوں نے مکمل کیا۔ بچوں کے لیے "My School Songs" نامی البم تیار کیا، جو اردو اور انگریزی زبان کی اُن 25 نظموں پر مشتمل ہے، ہمارے ہاں جو ابتدائی درجات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں،''دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے۔ محققین متفق ہیں کہ موسیقی فروغِ تعلیم میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے، مگر ہمارے ہاں گذشتہ چند عشروں میں اِس میدان میں نمایاں کام نہیں ہوا۔ موسیقی سے پیغام کی رسائی بڑھ جاتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ اسکول میں پڑھائی جانے والی نظمیں کچھ عرصے بعد بچوں کے ذہن سے اتر جاتی ہیں۔ میں نے اُنھیں البم کی شکل دے دی، تاکہ وہ اُن کی یادداشت کا حصہ بن جائیں۔ اِس کے علاوہ وہ بچے، جو اسکول نہیں جاسکتے، اِس البم کے ذریعے اِن نظموں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔''

رواں برس جنوری میں یہ البم مارکیٹ میں آیا۔ بہت اچھا رسپانس ملا۔ کئی درس گاہوں نے اِسے خریدا۔ میڈیا نے بھی سراہا۔ البم دو سی ڈیز پر مشتمل ہے۔ ایک ویڈیو سی ڈی، دوسری آڈیو سی ڈی۔ سرمایہ کاری خود ہی کی۔ استاد غلام خسرو کا البم ''پیا بن چین نہ آئے'' بھی وہ کمپوز کر چکے ہیں۔ کمرشل بنیادوں پر بھی خاصا کام کیا۔ حب الوطنی کا جذبہ اُن میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ پاکستان سے متعلق بات کرتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں۔

نعیم مارچ 1970 میں کراچی میں مقیم صادق گِل کے گھر پیدا ہوئے۔ بچپن میں ایک حادثے کی وجہ سے زبان میں لکنت آگئی تھی۔ دیگر بچوں سے الگ تھلگ رہنے لگے۔ موسیقی کی جانب آنے کے بعد یہ مسئلہ جاتا رہا۔ شدید معاشی مصائب جھیلے، مگر تعلیم سے ناتا نہیں ٹوٹا۔ وفاقی اردو کالج سے گریجویشن کیا۔ اِس عرصے میں ملازمتیں بھی کرتے رہے۔

میوزک نے ابتدا ہی میں گرفت میں لے لیا۔ چرچ میں دعائیہ گیت گایا کرتے تھے۔ وہاں تعینات موسیقی کے استاد سے ابتدائی تربیت حاصل کی۔ پھر الکرم اسکوائر کا رخ کیا، جو میوزیکل بینڈز کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ Puma نامی ایک بینڈ سے منسلک ہوگئے۔ ''کی بورڈ'' پر خوف مشق کی۔ مختلف بینڈز کے ساتھ پرفارم کرتے رہے۔ ''ون مین شوز'' بھی کیے۔ چند سال ایک اسکول میں بہ طور میوزک انسٹرکٹر کام کیا۔ پھر ایک نجی چینل سے بہ حیثیت میوزک ڈائریکٹر وابستہ ہوگئے۔ تین برس بعد ''کیریٹومیڈیا'' کے نام سے اپنا اسٹوڈیو شروع کیا۔ نجی چینلز، پروڈکشن ہاؤسز اور مختلف گروپس کے لیے کام کرنے لگے۔ ڈاکومینٹری فلمیں بھی بناتے رہے ہیں۔

پہلا دعائیہ البم ''فاصلہ'' 95ء میں ریلیز ہوا۔ اگلا البم ''عہد کریں'' تھا۔ پھر ''چمکا ہے آکاش پہ تارا'' اور ''میری پہچان بن کر آیا ہے'' ریلیز ہوئے۔ اِن البمز نے مسیحی برادری میں ریکارڈ کام یابی حاصل کی، ہندوستان میں بھی پزیرائی ملی۔ گو کوئی خاص مالی فائدہ نہیں ہوا، مگر اِس بات کا قلق نہیں کہ یہ البمز مالی فائدے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد عوام کو متحرک کرنے کے لیے ایک نغمہ ''آواز پاکستان'' کمپوز کیا تھا، جس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

87ء میں شادی ہوئی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ غالب کے وہ مداح ہیں۔ جگجیت کی گائیکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان کی میوزک انڈسٹری کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ فلمی صنعت کے استحکام کی خواہش ہے۔ فنون لطیفہ کی زبوں حالی افسردہ کر دیتی ہے۔ ''یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ آج اچھا گانے والے کئی باصلاحیت فن کار رکشا چلانے پر مجبور ہیں، اور ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں