ن لیگ کو شکست پر شکست
چیمہ صاحب کا عمل قابلِ ستائش تھا نہ بلیغ الرحمن صاحب کا قابلِ تحسین
26 اور 27جولائی 2022 کی درمیانی شب صوبائی اسمبلی میں 10سیٹوں والے ق لیگی لیڈر چوہدری پرویز الٰہی نے اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اُٹھا لیا۔ مبارکاں۔ جس طرح ن لیگی لیڈر، حمزہ شہباز، سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف لینے کے لیے پی ٹی آئی کے گورنر، عمر سرفراز چیمہ، نے صاف انکار کر دیا تھا، اِسی راستے پر عمل کرتے ہُوئے نون لیگی گورنر پنجاب، بلیغ الرحمن، نے چوہدری پرویز الٰہی سے حلف لینے سے معذرت کر لی۔
چیمہ صاحب کا عمل قابلِ ستائش تھا نہ بلیغ الرحمن صاحب کا قابلِ تحسین۔ نون لیگ کی تازہ عدالتی شکست پر لندن میں بیٹھے الطاف حسین نے بھی گانا گا کر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے اور کینیڈا میں تشریف فرما علامہ طاہر القادری بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک مدت بعد طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب میں دوبارہ رابطہ ہُوا ہے ۔
ایک دوسرے کو سیاسی اعتبار سے نیچا دکھانے کی آرزُو اور کوشش میں، فریقین کب تک نا مطلوب کھیل کھیلتے رہیں گے؟ دونوں دھڑوں نے اس معاملے میں عوام کو یکساں مایوس کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، حمزہ شہباز، کے حلف کے لیے تو کسی عدالت نے کوئی واضح اور خصوصی فیصلہ صادر نہیں فرمایا تھا لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے خصوصی اور غیر مبہم احکامات جاری کیے ہیں۔
حلف کے حکم میں وقت تک مقرر کر تے ہُوئے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر گورنر پنجاب، چوہدری پرویز الٰہی سے 26جولائی کی شب ساڑھے گیارہ بجے تک حلف نہ لے سکیں تو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، حلف لیں۔ محبتوں کی یہ نظیر پہلی بار ہماری عدلیہ اور سیاست کی تاریخ میں رقم کی گئی ہے ۔ تازہ عدالتی فیصلے نے شہباز شریف کی حکومت کو اسلام آباد کے جزیرے تک محدود کر دیا ہے ۔ شہباز شریف کے اطمینان میں مگر کوئی فرق نہیں آیا ۔
جس روز عدالتِ عظمیٰ نے حمزہ شہباز شریف کو ''ٹرسٹی وزیر اعلیٰ'' بناکر سب کو حیران کر دیا تھا، اُسی روز واضح ہو گیا تھا کہ حمزہ صاحب کا مستقبل کیا ہے۔ یہ دراصل نون لیگ اور حمزہ شہباز کی عدالتی شکست تھی۔ اِس سے قبل جب 17جولائی کو پنجاب میں 20سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کو نہائت بُری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا، اس نے بھی یہ بات روشن کر دی تھی کہ حمزہ شہباز وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر اب زیادہ دنوں تک براجمان نہیں رہ سکیں گے، ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔
شہباز شریف کی شکل میں اتحادی حکومت نے وزیر اعظم بن کر ملک میں مہنگائی اور گرانی کے جو نئے'' سنگِ میل'' قائم کیے ہیں، ان کے نتائج یہی نکلنے تھے کہ نون لیگ ضمنی انتخابات میں بھاری مارجن سے شکست کھا جائے۔ یہ شکستِ فاش دراصل شہباز شریف کی شکست تھی۔ عدالتوں میں بھی نون لیگ کو پسپائی اور شکستوں کا، پے در پے، سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
اِس نے درحقیقت نون لیگ کے صدر کی شخصیت اور حکومت کو سخت گزند پہنچایا ہے ۔ یہ بھی ثابت ہُوا ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جو کامیابیاں حاصل کرتے رہے ہیں، وہ اس لیے حاصل کرتے رہے ہیں کہ اُن کی پُشت پر محمد نواز شریف بطور طاقتور وزیر اعظم اور مقبول ترین عوامی لیڈر کی حیثیت میں کھڑے تھے۔
اب شہباز شریف کو تنہا ہی یہ سیاسی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے تو مسلسل ناکامیاں، ندامتیں اور شکستیں نون لیگ کا مقدر بن گئی ہیں ۔ یہ شکستیں اس لیے بھی مقدر بن رہی ہیں کہ نون لیگ اور شہباز شریف کے پاس کوئی واضح اور پُر کشش عوامی بیانیہ ہے نہ طاقتوروں کے مقابل کوئی طاقت اور جرأت۔ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف نے پاکستان میں جو کامیابیاں اور عوامی مقبولتیں سمیٹی تھیں، نون لیگ اور شہباز شریف نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور مرکز کی وزارتِ عظمیٰ لے کر سب کامیابیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
نون لیگ کی سیاسی و عدالتی شکستوں کے بعد چوہدری پرویز الٰہی صاحب ڈنکے کی چوٹ پر وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں تو یہ درحقیقت عمران خان کی شخصیت اور بیانیے کی فتح بھی ہے۔ یہ فتح نون لیگ کے ہر بیانیے کو سیلاب کی طرح بہا کر لے گئی ہے۔ پنجاب میں نون لیگ کی مبینہ مقبولیت کے قلعے کی دیواروں میں، بوجوہ، غیر مقبولیت کے گہرے شگاف پڑ چکے ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آج نون لیگ نا مقبولیت اور عوامی ناپسندیدگی کے تُند خُو دھارے میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ نون لیگ کی تازہ ترین شکستوں سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے کہ نوا شریف کا لندن میں آرام سے براجمان رہنا اور شہباز شریف کا چاؤ سے وزیر اعظم بننا نون لیگ کی سنگین غلطیاں ہیں ۔
نون لیگ کی تازہ ترین عدالتی شکست پر لندن کی جانفزا فضاؤں میں بیٹھے جناب نواز شریف نے یوں ٹویٹ کیا: ''پاکستان کو تماشہ بنا دیا۔ تینوں ججوں کو سلام۔'' اِس ٹویٹ میں شکست خوردگی بھی ہے، طنز بھی اور مایوسی بھی۔ نواز شریف اور اُن کے حواری و حلیف مگر ٹھنڈے دل سے یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد نون لیگ کو جو بار بار عوامی اور عدالتی شکستیں مل رہی ہیں، ان میں محوری قصور ان کا اپنا ہے۔ برقت اور درست نہج میں جرأتمندانہ فیصلہ نہ کرنے کی عادت نے بھی نون لیگ کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں۔
مرکز ی حکومت میں شامل درجن بھر اتحادی جماعتوں کو تو کوئی نقصان اور گزند نہیں پہنچ رہا۔ مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے تو صرف اور صرف نون لیگ کو۔ نواز شریف اور شہباز شریف خسارے کی اِس توپ کے دہانے پر لٹکے ہُوئے ہیں ۔ شہباز شریف کی حکومت جو معاشی فیصلے کررہی ہے، عوام ان فیصلوں پر سخت ناراض اور نالاں ہیں۔
اِدھر عدالت سے حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ صادر ہورہا تھا اور اُدھر نون لیگی وفاقی وزیر قوم کو بجلی مزید مہنگی ہونے کی ''نوید'' سنا رہے تھے۔ عوام خان صاحب کے عوام دشمن معاشی فیصلوں اور اقدامات کو بھول بھال گئے ہیں۔ اب یہ طوق شہباز شریف اور نون لیگ کے گلے میںپڑ چکا ہے۔ یوں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ نون لیگ نا مقبولیت کی ڈھلوان پر کھڑی ہے اور ہر لمحہ اس کے پاؤں کھائی کی جانب پھسلتے جا رہے ہیں ۔
تازہ عدالتی فیصلے کے بعدشہباز شریف نے قومی اسمبلی میںاور عمران خان نے عوام سے خطاب کیا ہے ۔شہباز شریف کا جذباتی خطاب شکست خوردگی اور شکووں سے معمور تھا جب کہ عمران خان کا طویل خطاب فتح اور خوشیوں سے سرشار ۔ پے در پے شکستوں کے بعد اب وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس لینے اور بینچ تشکیل دینے کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔تازہ عدالتی فیصلے پر مگر کوئی نون لیگی ورکر اور قائد احتجاج میں باہر بھی نہیں نکلا جب کہ پی ٹی آئی کے ورکروں نے فتح کا جشن منایا ہے۔
سب سے حیرت جناب آصف علی زرداری پر ہے ۔ جب اسلام آباد میں ڈپریشن اور واضح شکست کے سیاہ بادل نون لیگ اور اتحادی حکومت پر چھا رہے تھے، زرداری صاحب چپکے سے دبئی روانہ ہو گئے ۔ مبینہ طور پر بظاہر انھوں نے دبئی میں اپنی67ویں سالگرہ بھی منا ئی ہے اور اپنے ایک سالہ نواسے کی سالگرہ میں بھی شرکت کی ہے۔ملک و قوم کی نبضیں ڈُوب رہی ہیں اور ہمارے دولت مند سیاستدانوں کے اپنے اللے تللے کم نہیں ہو رہے ۔
چیمہ صاحب کا عمل قابلِ ستائش تھا نہ بلیغ الرحمن صاحب کا قابلِ تحسین۔ نون لیگ کی تازہ عدالتی شکست پر لندن میں بیٹھے الطاف حسین نے بھی گانا گا کر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے اور کینیڈا میں تشریف فرما علامہ طاہر القادری بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک مدت بعد طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب میں دوبارہ رابطہ ہُوا ہے ۔
ایک دوسرے کو سیاسی اعتبار سے نیچا دکھانے کی آرزُو اور کوشش میں، فریقین کب تک نا مطلوب کھیل کھیلتے رہیں گے؟ دونوں دھڑوں نے اس معاملے میں عوام کو یکساں مایوس کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، حمزہ شہباز، کے حلف کے لیے تو کسی عدالت نے کوئی واضح اور خصوصی فیصلہ صادر نہیں فرمایا تھا لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے خصوصی اور غیر مبہم احکامات جاری کیے ہیں۔
حلف کے حکم میں وقت تک مقرر کر تے ہُوئے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر گورنر پنجاب، چوہدری پرویز الٰہی سے 26جولائی کی شب ساڑھے گیارہ بجے تک حلف نہ لے سکیں تو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، حلف لیں۔ محبتوں کی یہ نظیر پہلی بار ہماری عدلیہ اور سیاست کی تاریخ میں رقم کی گئی ہے ۔ تازہ عدالتی فیصلے نے شہباز شریف کی حکومت کو اسلام آباد کے جزیرے تک محدود کر دیا ہے ۔ شہباز شریف کے اطمینان میں مگر کوئی فرق نہیں آیا ۔
جس روز عدالتِ عظمیٰ نے حمزہ شہباز شریف کو ''ٹرسٹی وزیر اعلیٰ'' بناکر سب کو حیران کر دیا تھا، اُسی روز واضح ہو گیا تھا کہ حمزہ صاحب کا مستقبل کیا ہے۔ یہ دراصل نون لیگ اور حمزہ شہباز کی عدالتی شکست تھی۔ اِس سے قبل جب 17جولائی کو پنجاب میں 20سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کو نہائت بُری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا، اس نے بھی یہ بات روشن کر دی تھی کہ حمزہ شہباز وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر اب زیادہ دنوں تک براجمان نہیں رہ سکیں گے، ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔
شہباز شریف کی شکل میں اتحادی حکومت نے وزیر اعظم بن کر ملک میں مہنگائی اور گرانی کے جو نئے'' سنگِ میل'' قائم کیے ہیں، ان کے نتائج یہی نکلنے تھے کہ نون لیگ ضمنی انتخابات میں بھاری مارجن سے شکست کھا جائے۔ یہ شکستِ فاش دراصل شہباز شریف کی شکست تھی۔ عدالتوں میں بھی نون لیگ کو پسپائی اور شکستوں کا، پے در پے، سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
اِس نے درحقیقت نون لیگ کے صدر کی شخصیت اور حکومت کو سخت گزند پہنچایا ہے ۔ یہ بھی ثابت ہُوا ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جو کامیابیاں حاصل کرتے رہے ہیں، وہ اس لیے حاصل کرتے رہے ہیں کہ اُن کی پُشت پر محمد نواز شریف بطور طاقتور وزیر اعظم اور مقبول ترین عوامی لیڈر کی حیثیت میں کھڑے تھے۔
اب شہباز شریف کو تنہا ہی یہ سیاسی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے تو مسلسل ناکامیاں، ندامتیں اور شکستیں نون لیگ کا مقدر بن گئی ہیں ۔ یہ شکستیں اس لیے بھی مقدر بن رہی ہیں کہ نون لیگ اور شہباز شریف کے پاس کوئی واضح اور پُر کشش عوامی بیانیہ ہے نہ طاقتوروں کے مقابل کوئی طاقت اور جرأت۔ لندن میں بیٹھ کر نواز شریف نے پاکستان میں جو کامیابیاں اور عوامی مقبولتیں سمیٹی تھیں، نون لیگ اور شہباز شریف نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور مرکز کی وزارتِ عظمیٰ لے کر سب کامیابیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
نون لیگ کی سیاسی و عدالتی شکستوں کے بعد چوہدری پرویز الٰہی صاحب ڈنکے کی چوٹ پر وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں تو یہ درحقیقت عمران خان کی شخصیت اور بیانیے کی فتح بھی ہے۔ یہ فتح نون لیگ کے ہر بیانیے کو سیلاب کی طرح بہا کر لے گئی ہے۔ پنجاب میں نون لیگ کی مبینہ مقبولیت کے قلعے کی دیواروں میں، بوجوہ، غیر مقبولیت کے گہرے شگاف پڑ چکے ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آج نون لیگ نا مقبولیت اور عوامی ناپسندیدگی کے تُند خُو دھارے میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ نون لیگ کی تازہ ترین شکستوں سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے کہ نوا شریف کا لندن میں آرام سے براجمان رہنا اور شہباز شریف کا چاؤ سے وزیر اعظم بننا نون لیگ کی سنگین غلطیاں ہیں ۔
نون لیگ کی تازہ ترین عدالتی شکست پر لندن کی جانفزا فضاؤں میں بیٹھے جناب نواز شریف نے یوں ٹویٹ کیا: ''پاکستان کو تماشہ بنا دیا۔ تینوں ججوں کو سلام۔'' اِس ٹویٹ میں شکست خوردگی بھی ہے، طنز بھی اور مایوسی بھی۔ نواز شریف اور اُن کے حواری و حلیف مگر ٹھنڈے دل سے یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں کہ عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد نون لیگ کو جو بار بار عوامی اور عدالتی شکستیں مل رہی ہیں، ان میں محوری قصور ان کا اپنا ہے۔ برقت اور درست نہج میں جرأتمندانہ فیصلہ نہ کرنے کی عادت نے بھی نون لیگ کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں۔
مرکز ی حکومت میں شامل درجن بھر اتحادی جماعتوں کو تو کوئی نقصان اور گزند نہیں پہنچ رہا۔ مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے تو صرف اور صرف نون لیگ کو۔ نواز شریف اور شہباز شریف خسارے کی اِس توپ کے دہانے پر لٹکے ہُوئے ہیں ۔ شہباز شریف کی حکومت جو معاشی فیصلے کررہی ہے، عوام ان فیصلوں پر سخت ناراض اور نالاں ہیں۔
اِدھر عدالت سے حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ صادر ہورہا تھا اور اُدھر نون لیگی وفاقی وزیر قوم کو بجلی مزید مہنگی ہونے کی ''نوید'' سنا رہے تھے۔ عوام خان صاحب کے عوام دشمن معاشی فیصلوں اور اقدامات کو بھول بھال گئے ہیں۔ اب یہ طوق شہباز شریف اور نون لیگ کے گلے میںپڑ چکا ہے۔ یوں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ نون لیگ نا مقبولیت کی ڈھلوان پر کھڑی ہے اور ہر لمحہ اس کے پاؤں کھائی کی جانب پھسلتے جا رہے ہیں ۔
تازہ عدالتی فیصلے کے بعدشہباز شریف نے قومی اسمبلی میںاور عمران خان نے عوام سے خطاب کیا ہے ۔شہباز شریف کا جذباتی خطاب شکست خوردگی اور شکووں سے معمور تھا جب کہ عمران خان کا طویل خطاب فتح اور خوشیوں سے سرشار ۔ پے در پے شکستوں کے بعد اب وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس لینے اور بینچ تشکیل دینے کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔تازہ عدالتی فیصلے پر مگر کوئی نون لیگی ورکر اور قائد احتجاج میں باہر بھی نہیں نکلا جب کہ پی ٹی آئی کے ورکروں نے فتح کا جشن منایا ہے۔
سب سے حیرت جناب آصف علی زرداری پر ہے ۔ جب اسلام آباد میں ڈپریشن اور واضح شکست کے سیاہ بادل نون لیگ اور اتحادی حکومت پر چھا رہے تھے، زرداری صاحب چپکے سے دبئی روانہ ہو گئے ۔ مبینہ طور پر بظاہر انھوں نے دبئی میں اپنی67ویں سالگرہ بھی منا ئی ہے اور اپنے ایک سالہ نواسے کی سالگرہ میں بھی شرکت کی ہے۔ملک و قوم کی نبضیں ڈُوب رہی ہیں اور ہمارے دولت مند سیاستدانوں کے اپنے اللے تللے کم نہیں ہو رہے ۔