پرویز الٰہی اور عمران خان ایک ہو جائیں
ججز کے ریمارکس سے بھی سب کو پتہ چل چکا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا
سیاست میں انتظار ہضم نہیں ہوتا لیکن حالیہ سالوں میں عوام اور سیاست دان دونوں کو اس قدر انتظار کرنا پڑا ہے کہ سیاسی ماہرین بھی خاصے شش و پنج میں مبتلا نظر آئے۔ پہلے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا انتظار، پھر عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا انتظار، پھر اتحاد حکومت لانے کا انتظار اور اب اسے گھر بھیجنے کا انتظار، کبھی پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کا انتظار، کبھی ضمنی الیکشن کے نتائج کا انتظار، کبھی کورٹ آرڈرز کا انتظار، کسی کو عوام، صوبے یا ملک کی پرواہ نہیں ہے۔
صورتحال کچھ یوں بن گئی ہے، ''ایک صاحب کی راہ چلتے ایک ٹانگ کیچڑ والے گڑھے میں پھنس گئی، سوچ رہے تھے کہ کیا کروں، اتنے میں ان کے ایک مخالف پاس سے گزرے۔ اس صاحب نے دیکھا تو طنز کیا، ارے صاحب! یہ کیا گیا، کیچڑ میں ٹانگ پھنسالی، اب جلدی اس سے باہر نکلیں۔ گڑھے میں ٹانگ پھنسانے والے صاحب کو سخت غصہ آیا اور کہا، میں اور تمہاری بات مان لوں؟ جاؤ اپنا کام کرو، مجھے تو مزہ آ رہا ہے، یہ لو، میں دوسری ٹانگ بھی کیچڑ میں پھنسا رہا ہوں۔ موجودہ حکومت نے تین ماہ پہلے، بڑے شوق سے اپنی ٹانگ کیچڑ میں پھنسائی۔
خیر بات ہو رہی تھی انتظار کی تو انتظار اُس وقت ختم ہوا، جب اعصاب شکن لمحات کے بعد منگل کی شام سپریم کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔ مذکورہ فیصلے نے شاذ ہی کسی شخص کو حیران کیا ہوگا کیونکہ فل کورٹ بنائے جانے کی استدعا رد ہوجانے کے بعد ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا۔ ججز کے ریمارکس سے بھی سب کو پتہ چل چکا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔
یہی وجہ ہے تحریک انصاف کے چند رہنما اور کارکن سپریم کورٹ کے احاطے میں بڑے جوش اور خوشی کے ساتھ جمع ہونا شروع ہوئے تھے۔ اتحادی حکومت اور اس کے وکلاء کو بھی ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی۔ اگر توقع نہ ہوتی تو کبھی بھی پیر اور منگل کو بار بار پی ڈی ایم والے پریس کانفرنس کرنے نہ آتے، نہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے۔
بہرحال چوہدری پرویز الٰہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں لیکن اُن پر ذمے داریوں کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ اُن کا پچھلا دور بہت آسان لگتا ہے۔ آج سب سے بڑا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں رکھنے والے پرویز الٰہی صوبے کے حالات میں کوئی حقیقی بہتری لانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ عوام بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں کمی چاہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے پرویز الٰہی کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہوں گے۔
انھیں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیوروکریسی میں جس طرح تبادلے اور تقرریاں ہونے جا رہی ہیں، کیا بیوروکریسی ماضی کی طرح ہی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ تعاون کرے گی؟ یہ بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی چاہیں گے کہ ان کی حکومت آئینی مدت پورے کرے جب کہ عمران خان جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پرویز الٰہی کس طرح عمران خان کو اپنے موقف پر قائل کرتے ہیں؟
پنجاب میں پرویز الٰہی کا ساتھ دینے والی ق لیگ کے پاس صرف دس نشستیں ہیں، باقی نشستیں پی ٹی آئی کی ہیں، پی ٹی آئی کے رہنما اچھی وزارتیں، اچھے عہدے، اچھی مراعات اور صوبے پر اپنا موثر کنٹرول چاہیں گے لیکن چوہدری پرویز الٰہی صوبے پر اپنی گرفت رکھنا چاہیں گے۔ ایسی صورت میں دونوں اتحادی پارٹیوں میں اختلافات پیدا نہ ہونے دینا بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ اور پھر سب سے اہم یہ کہ صوبائی حکومت کو کئی امور میں وفاقی حکومت کی منظوری اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی ایک کشیدہ ماحول میں وفاقی حکومت کے ساتھ کیسے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے، یہ بھی آ سان کام نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک ضمنی انتخابات میں کی جانے والی بلند بانگ دعوؤں پر مبنی تقاریر نے عوامی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے، اب پرویز الٰہی کو اپنی کارکردگی سے عوام کے مسائل میں کمی کے لیے ڈلیور کرنا ہوگا، ان کے لیے یہ بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
یہ سب چیلنجز ایک طرف مگر اس وقت اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے تجربے کی بل بوتے پر ان بحرانوں سے نکل جائیں گے، وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا جانتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے انھوں نے عمران خان کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا تو ایک منٹ نہیں لگاؤں گا پنجاب اسمبلی توڑ دوں گا۔ یقینا اتحادی ایسے ہی ہونے چاہیے، کیوں کہ اگر مقصد ایک ہو تو کوئی چیز دور نہیں ہوتی، اور پھر ایک اکیلا اور 2گیارہ ہوتے ہیں۔
ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کے لیے میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ممبرز کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ہماری یہ خواہش ہے کہ پرویز الٰہی تحریک انصاف میں ضم ہو جائے، میرے خیال میں اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوگئیں تو عوام کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں، اور پھر یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں جوش ہے، جذبہ ہے، قیادت ہے، نظریاتی جماعت ہے، موروثی جماعت نہیں، اس جماعت میں پارٹی ڈسپلن ہے، اس لیے مستقبل کی سیاست کے لیے پرویزالٰہی، مونس الٰہی، وجاہت حسین اور ان کے صاحبزادوں کو تحریک انصاف میں ضم ہوجانا چاہیے۔ عمران خان اور پرویز الٰہی ایک ہوجائیں تو مستقبل میں کامیاب حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔
صورتحال کچھ یوں بن گئی ہے، ''ایک صاحب کی راہ چلتے ایک ٹانگ کیچڑ والے گڑھے میں پھنس گئی، سوچ رہے تھے کہ کیا کروں، اتنے میں ان کے ایک مخالف پاس سے گزرے۔ اس صاحب نے دیکھا تو طنز کیا، ارے صاحب! یہ کیا گیا، کیچڑ میں ٹانگ پھنسالی، اب جلدی اس سے باہر نکلیں۔ گڑھے میں ٹانگ پھنسانے والے صاحب کو سخت غصہ آیا اور کہا، میں اور تمہاری بات مان لوں؟ جاؤ اپنا کام کرو، مجھے تو مزہ آ رہا ہے، یہ لو، میں دوسری ٹانگ بھی کیچڑ میں پھنسا رہا ہوں۔ موجودہ حکومت نے تین ماہ پہلے، بڑے شوق سے اپنی ٹانگ کیچڑ میں پھنسائی۔
خیر بات ہو رہی تھی انتظار کی تو انتظار اُس وقت ختم ہوا، جب اعصاب شکن لمحات کے بعد منگل کی شام سپریم کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔ مذکورہ فیصلے نے شاذ ہی کسی شخص کو حیران کیا ہوگا کیونکہ فل کورٹ بنائے جانے کی استدعا رد ہوجانے کے بعد ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا۔ ججز کے ریمارکس سے بھی سب کو پتہ چل چکا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔
یہی وجہ ہے تحریک انصاف کے چند رہنما اور کارکن سپریم کورٹ کے احاطے میں بڑے جوش اور خوشی کے ساتھ جمع ہونا شروع ہوئے تھے۔ اتحادی حکومت اور اس کے وکلاء کو بھی ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی۔ اگر توقع نہ ہوتی تو کبھی بھی پیر اور منگل کو بار بار پی ڈی ایم والے پریس کانفرنس کرنے نہ آتے، نہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے۔
بہرحال چوہدری پرویز الٰہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں لیکن اُن پر ذمے داریوں کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ اُن کا پچھلا دور بہت آسان لگتا ہے۔ آج سب سے بڑا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں رکھنے والے پرویز الٰہی صوبے کے حالات میں کوئی حقیقی بہتری لانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ عوام بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں کمی چاہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے پرویز الٰہی کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہوں گے۔
انھیں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیوروکریسی میں جس طرح تبادلے اور تقرریاں ہونے جا رہی ہیں، کیا بیوروکریسی ماضی کی طرح ہی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ تعاون کرے گی؟ یہ بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی چاہیں گے کہ ان کی حکومت آئینی مدت پورے کرے جب کہ عمران خان جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پرویز الٰہی کس طرح عمران خان کو اپنے موقف پر قائل کرتے ہیں؟
پنجاب میں پرویز الٰہی کا ساتھ دینے والی ق لیگ کے پاس صرف دس نشستیں ہیں، باقی نشستیں پی ٹی آئی کی ہیں، پی ٹی آئی کے رہنما اچھی وزارتیں، اچھے عہدے، اچھی مراعات اور صوبے پر اپنا موثر کنٹرول چاہیں گے لیکن چوہدری پرویز الٰہی صوبے پر اپنی گرفت رکھنا چاہیں گے۔ ایسی صورت میں دونوں اتحادی پارٹیوں میں اختلافات پیدا نہ ہونے دینا بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ اور پھر سب سے اہم یہ کہ صوبائی حکومت کو کئی امور میں وفاقی حکومت کی منظوری اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی ایک کشیدہ ماحول میں وفاقی حکومت کے ساتھ کیسے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے، یہ بھی آ سان کام نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک ضمنی انتخابات میں کی جانے والی بلند بانگ دعوؤں پر مبنی تقاریر نے عوامی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے، اب پرویز الٰہی کو اپنی کارکردگی سے عوام کے مسائل میں کمی کے لیے ڈلیور کرنا ہوگا، ان کے لیے یہ بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
یہ سب چیلنجز ایک طرف مگر اس وقت اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے تجربے کی بل بوتے پر ان بحرانوں سے نکل جائیں گے، وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا جانتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے انھوں نے عمران خان کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا تو ایک منٹ نہیں لگاؤں گا پنجاب اسمبلی توڑ دوں گا۔ یقینا اتحادی ایسے ہی ہونے چاہیے، کیوں کہ اگر مقصد ایک ہو تو کوئی چیز دور نہیں ہوتی، اور پھر ایک اکیلا اور 2گیارہ ہوتے ہیں۔
ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کے لیے میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ممبرز کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ہماری یہ خواہش ہے کہ پرویز الٰہی تحریک انصاف میں ضم ہو جائے، میرے خیال میں اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوگئیں تو عوام کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں، اور پھر یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں جوش ہے، جذبہ ہے، قیادت ہے، نظریاتی جماعت ہے، موروثی جماعت نہیں، اس جماعت میں پارٹی ڈسپلن ہے، اس لیے مستقبل کی سیاست کے لیے پرویزالٰہی، مونس الٰہی، وجاہت حسین اور ان کے صاحبزادوں کو تحریک انصاف میں ضم ہوجانا چاہیے۔ عمران خان اور پرویز الٰہی ایک ہوجائیں تو مستقبل میں کامیاب حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔