کیا تحریک انصاف کی کشتی پار لگ گئی
تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے اور پرویزالہٰی کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے تک اس سارے کھیل میں فائدہ کسے ہوا؟
ISLAMABAD:
اس وقت ملک میں سیاسی طوفان اپنے جوبن پر ہے اور ہر گزرتے لحمے کے ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ اگر ماضی کے دریچوں سے جھانکا جائے تو 2013 کے عام انتخابات میں وفاقی سطح پر مسلم لیگ نواز کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے دھرنوں کی سیاست کا آغاز کیا تھا۔
تحریک انصاف نے جو رویہ مخالف جماعتوں کے ساتھ اپنایا، 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد مخالف جماعتیں وہی رویہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ 2013 سے شروع ہونے والا احتجاجی سیاست کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تحریک انصاف اور مخالف جماعتوں کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مہنگائی کی جو لہر شروع ہوئی وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی لوگ مہنگائی سے پریشان تھے اور اب بھی ڈالر کی روزانہ اونچی اڑان، پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے لوگوں کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے قائدین خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف گررہا تھا۔ دوسری طرف مخالف جماعتیں عمران خان حکومت کو گرانے کےلیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھیں۔ اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف پارٹی قیادت اور پی ڈی ایم کو کئی بار یہی تجویز دیتے رہے کہ حکومت گرانے کی ضرورت نہیں یہ حکومت اپنی موت خود مر جائے گی۔
لیکن حکومت مخالف جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کھیل مکمل کرلیا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آخری گیند تک لڑتے رہے لیکن اپنی حکومت کو نہ بچا سکے۔ مخالف جماعتوں کا یہ خیال تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوام تحریک انصاف کے بیانیے کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن تحریک عدم اعتماد سے قبل اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے یہ ظاہر ہونے لگا کہ عمران خان کی عوام میں قبولیت کم نہیں ہوئی اور جب اسی جلسے میں عمران خان نے امریکا کی جانب سے موصول ہونے والے مبینہ خط کا پتہ پھینکا تو امریکا مخالف بیانیے نے کام کر دکھایا اور عوام نے عمران خان کے بیانیے کو تسلیم کرلیا، جس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے جلسوں میں عمران خان کی مقبولیت کسی صورت کم نہیں ہوئی۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل 25 مئی کے اسلام آباد مارچ تک یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف سے شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ عمران خان کے حکومت مخالف جلسے اگرچہ ناکام نہیں تھے لیکن حکومت کےلیے مشکلات کا باعث بن رہے تھے۔ تحریک انصاف سے پنجاب حکومت بھی چھیننا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت بنانے کا جو کھیل کھیلا گیا اس سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ یہ سب کچھ آشیرباد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے چیئرمین تحریک انصاف بار بار یہی مطالبہ کررہے تھے کہ نیوٹرلز کو مداخلت کرنی چاہیے، پی ڈی ایم کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس سارے کھیل میں تحریک انصاف پر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کا ٹھپہ بھی ہٹ گیا اور تحریک انصاف پر سلیکٹڈ کا جو لیبل لگا ہوا تھا اسے بھی دھونے کی کسی حد تک کوشش کی گئی۔ اسی مرحلے میں بڑی غلطی پی ڈی ایم جماعتوں سے یہ ہوئی جب تحریک انصاف حکومت کو بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ناکام قرار دیتے ہوئے ختم کیا گیا تو حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت سازی کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے اور پرویزالہٰی کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے تک اس سارے کھیل میں فائدہ کسے ہوا؟ اور نقصان کس نے اٹھایا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ بظاہر تحریک انصاف کو وفاقی حکومت کے جانے کا بڑا نقصان ہوا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں تھی لیکن حکومت سے جانا عمران خان کےلیے نیک شگون ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت پٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر اقدامات اٹھانا ضروری تھا اور یہ کام تحریک انصاف کےلیے انتہائی نقصان دہ ہونا تھا۔ اس لیے حکومت کی تبدیلی کا انتظار کیا گیا اور اس حوالے سے بھی فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن بھی ٹیسٹ کیس تھا کیوں کہ ان انتخابات کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں عوام کا موڈ دیکھ لیا گیا ہے، جس سے بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔
ابھی جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں اس کے مطابق آئندہ عام انتخابات کےلیے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کےلیے انتخابات واحد حل ہے، اسی لیے اب عام انتخابات کی جانب جانا چاہیے۔ جب کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ ہمیں استعمال کرکے تحریک انصاف کو دوبارہ مقبولیت دلا دی گئی ہے۔ اس سارے کھیل میں نقصان پی ڈی ایم جماعتوں کا ہی ہوا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں 15 جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف کو شکست نہ دے سکیں، اس کے بعد ایک عام شخص کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے کیا نتائج ہوں گے؟
آئندہ عام انتخانات کے حوالے سے جو منظرنامہ دکھائی دے رہا ہے اس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، جب کہ سندھ سے بھی تحریک انصاف پہلے کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
واقفان حال کے مطابق تحریک عدم اعتماد سے قبل ملک میں صدارتی نظام کو جو بات کی جارہی تھی وہ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کے باعث ممکن نہ تھی۔ اسی لیے کوشش کی جارہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک عام انتخابات کا انعقاد کیا جاسکے، کیوں کہ اگلے سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں تو سینیٹ میں بھی تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوجائے گی اور صدارتی نظام کےلیے قانون سازی آسان ہوگی اور ملک میں صدارتی نظام کےلیے راہ ہموار ہوجائے گی۔
ملک میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی، وہ اسکرپٹ کے عین مطابق تھی اور اسی اسکرپٹ کے تحت اب ملک کے آئندہ وزیراعظم ایک بار پھر عمران خان ہوسکتے ہیں اور آگے چل کر صدارتی نظام کا پہلا صدر بھی کپتان ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کےلیے ہمیں مزید انتظار کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس وقت ملک میں سیاسی طوفان اپنے جوبن پر ہے اور ہر گزرتے لحمے کے ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ اگر ماضی کے دریچوں سے جھانکا جائے تو 2013 کے عام انتخابات میں وفاقی سطح پر مسلم لیگ نواز کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے دھرنوں کی سیاست کا آغاز کیا تھا۔
تحریک انصاف نے جو رویہ مخالف جماعتوں کے ساتھ اپنایا، 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد مخالف جماعتیں وہی رویہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ 2013 سے شروع ہونے والا احتجاجی سیاست کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تحریک انصاف اور مخالف جماعتوں کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مہنگائی کی جو لہر شروع ہوئی وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی لوگ مہنگائی سے پریشان تھے اور اب بھی ڈالر کی روزانہ اونچی اڑان، پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے لوگوں کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے قائدین خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف گررہا تھا۔ دوسری طرف مخالف جماعتیں عمران خان حکومت کو گرانے کےلیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھیں۔ اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف پارٹی قیادت اور پی ڈی ایم کو کئی بار یہی تجویز دیتے رہے کہ حکومت گرانے کی ضرورت نہیں یہ حکومت اپنی موت خود مر جائے گی۔
لیکن حکومت مخالف جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کھیل مکمل کرلیا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آخری گیند تک لڑتے رہے لیکن اپنی حکومت کو نہ بچا سکے۔ مخالف جماعتوں کا یہ خیال تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوام تحریک انصاف کے بیانیے کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن تحریک عدم اعتماد سے قبل اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے یہ ظاہر ہونے لگا کہ عمران خان کی عوام میں قبولیت کم نہیں ہوئی اور جب اسی جلسے میں عمران خان نے امریکا کی جانب سے موصول ہونے والے مبینہ خط کا پتہ پھینکا تو امریکا مخالف بیانیے نے کام کر دکھایا اور عوام نے عمران خان کے بیانیے کو تسلیم کرلیا، جس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے جلسوں میں عمران خان کی مقبولیت کسی صورت کم نہیں ہوئی۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل 25 مئی کے اسلام آباد مارچ تک یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف سے شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ عمران خان کے حکومت مخالف جلسے اگرچہ ناکام نہیں تھے لیکن حکومت کےلیے مشکلات کا باعث بن رہے تھے۔ تحریک انصاف سے پنجاب حکومت بھی چھیننا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت بنانے کا جو کھیل کھیلا گیا اس سے یہی ظاہر ہورہا تھا کہ یہ سب کچھ آشیرباد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے چیئرمین تحریک انصاف بار بار یہی مطالبہ کررہے تھے کہ نیوٹرلز کو مداخلت کرنی چاہیے، پی ڈی ایم کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس سارے کھیل میں تحریک انصاف پر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کا ٹھپہ بھی ہٹ گیا اور تحریک انصاف پر سلیکٹڈ کا جو لیبل لگا ہوا تھا اسے بھی دھونے کی کسی حد تک کوشش کی گئی۔ اسی مرحلے میں بڑی غلطی پی ڈی ایم جماعتوں سے یہ ہوئی جب تحریک انصاف حکومت کو بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ناکام قرار دیتے ہوئے ختم کیا گیا تو حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت سازی کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے اور پرویزالہٰی کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے تک اس سارے کھیل میں فائدہ کسے ہوا؟ اور نقصان کس نے اٹھایا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ بظاہر تحریک انصاف کو وفاقی حکومت کے جانے کا بڑا نقصان ہوا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں تھی لیکن حکومت سے جانا عمران خان کےلیے نیک شگون ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت پٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر اقدامات اٹھانا ضروری تھا اور یہ کام تحریک انصاف کےلیے انتہائی نقصان دہ ہونا تھا۔ اس لیے حکومت کی تبدیلی کا انتظار کیا گیا اور اس حوالے سے بھی فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن بھی ٹیسٹ کیس تھا کیوں کہ ان انتخابات کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں عوام کا موڈ دیکھ لیا گیا ہے، جس سے بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ عوام کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔
ابھی جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں اس کے مطابق آئندہ عام انتخابات کےلیے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کےلیے انتخابات واحد حل ہے، اسی لیے اب عام انتخابات کی جانب جانا چاہیے۔ جب کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ ہمیں استعمال کرکے تحریک انصاف کو دوبارہ مقبولیت دلا دی گئی ہے۔ اس سارے کھیل میں نقصان پی ڈی ایم جماعتوں کا ہی ہوا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں 15 جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف کو شکست نہ دے سکیں، اس کے بعد ایک عام شخص کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے کیا نتائج ہوں گے؟
آئندہ عام انتخانات کے حوالے سے جو منظرنامہ دکھائی دے رہا ہے اس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، جب کہ سندھ سے بھی تحریک انصاف پہلے کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
واقفان حال کے مطابق تحریک عدم اعتماد سے قبل ملک میں صدارتی نظام کو جو بات کی جارہی تھی وہ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کے باعث ممکن نہ تھی۔ اسی لیے کوشش کی جارہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک عام انتخابات کا انعقاد کیا جاسکے، کیوں کہ اگلے سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں تو سینیٹ میں بھی تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوجائے گی اور صدارتی نظام کےلیے قانون سازی آسان ہوگی اور ملک میں صدارتی نظام کےلیے راہ ہموار ہوجائے گی۔
ملک میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی، وہ اسکرپٹ کے عین مطابق تھی اور اسی اسکرپٹ کے تحت اب ملک کے آئندہ وزیراعظم ایک بار پھر عمران خان ہوسکتے ہیں اور آگے چل کر صدارتی نظام کا پہلا صدر بھی کپتان ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کےلیے ہمیں مزید انتظار کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔