بیرونی تجارت شدید عدم توازن کا شکار
برآمدات سے کہیں زیادہ تجارتی خسارہ ہو چکا ہے جوکہ اپنے گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 کی نسبت 55.70 فیصد زائد ہے
QUETTA:
گزشتہ 75 سالوں کے دوران پاکستان کی بیرونی تجارت سوائے چند برسوں کے عدم توازن کا شکار رہی ہے، جس میں بڑھتی ہوئی درآمدات کا اہم کردار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چند عشرے ایسے گزرے ہیں جن میں اشیائے سرمایہ کی درآمدات کی مالیت زیادہ تھی اور اشیائے صرف کی مالیت کم تھی۔
کسی ملک کی ترقی کے لیے اشیائے سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ملکی صنعتی ترقی کی خاطر کیپٹل گڈز کی درآمدات لازماً کی جاتی ہیں، لیکن ایک زرعی ملک کے اشیائے خوراک کی ضرورت کے لیے درآمدات میں اضافہ ہونے پر ترجیحاً توجہ دے کر اس کا حل نکالا جانا چاہیے تھا۔ مثلاً ملکی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے زرعی منصوبہ بندی وغیرہ کی ضرورت تھی۔
یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ابتدائی چند سال ایسے تھے جب اشیائے صرف کی ضرورت کے لیے دوسرے ملکوں کے محتاج تھے اور ان کی درآمد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں ملک کی صنعتی ترقی کی خاطر صنعتی سرمایہ کاری اسکیم شروع کی گئی تھی جس میں بعض درآمدی اشیا پر ڈیوٹی کم کر دی گئی تھی یا بعض پر ختم بھی کردی گئی تھی جس سے صنعتی شعبے کی ترقی، اس کے لیے مشینریوں کی خریداری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس طرح کی درآمدی مالیت میں اضافے کا یہ فائدہ ہوا کہ ملک میں صنعتی ترقی کو فروغ حاصل ہوا جس کے نتیجے میں بہت زیادہ روزگار کے مواقع بھی بڑھے اور ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکا تھا۔
پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایشیائی ملکوں میں آگے بڑھ رہا تھا کہ ستمبر 1965 کی جنگ برپا ہوگئی۔ اس کے بعد بیرونی تجارت کا شعبہ عدم توازن کا شکار ہوکر رہ گیا، لیکن پھر بھی وہ دور نہ آیا تھا کہ درآمدات میں لگژری گاڑیاں، اشیائے تعیشات، مہنگے فوڈ آئٹمز اور دیگر غیر ضروری درآمدات اپنی جگہ بنا لیتے۔ 80 کی دہائی میں ملک میں کلاشنکوف کلچر، درآمدی فرنیچر، تعمیراتی شعبے کے لیے کئی اقسام کی درآمدی اشیا، بھاری بھرکم قیمتی مالیت کی گاڑیوں کی درآمدات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جہاں تک بسوں کی درآمدات کا تعلق ہے تو ملکی ٹرانسپورٹ کے لیے اس کی شدید ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر اس جانب تھوڑی توجہ دی جائے تو روس اور دیگر کئی ملکوں سے سستی بسیں خرید سکتے تھے۔ روسی بسوں کا اس لیے ذکر کیا کہ یہ آزمائی ہوئی ہیں، پاکستان اسٹیل مل میں کئی دہائیوں سے یہ بسیں زیر استعمال رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں دیگر درآمد شدہ بسوں کا برا حال تھا کہ چند ہی سالوں میں یہ بسیں ڈپو میں لا کر کھڑی کردی جاتیں اور کچھ ہی عرصے میں انھیں اپاہج بنا دیا جاتا ان کے پرزے وغیرہ غائب ہو جاتے یوں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ جاتا، جس کے بارے میں کسی قسم کی باز پرس ہی نہیں ہوتی۔
اس پون صدی کے دوران پاکستان پر برسہا برس ایسے گزرتے رہے ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات میں بگاڑ پیدا ہوتا رہا اور اس بگاڑ کے نتیجے میں ملک کی صنعتی ترقی کی رفتار بار بار مدھم ہوتی رہی۔ روزگار کے مواقع گھٹتے رہے ، ملک کی صنعتیں زوال پذیر ہوتی رہیں، بہت سی صنعتیں بند ہوگئیں، بہت سے صنعتکار ملک سے ہی شفٹ کرگئے۔
ان میں بہت سے صنعتکار ایسے بھی تھے جو سقوط ڈھاکا سے قبل سابقہ مشرقی پاکستان میں کاروبار کر رہے تھے، صنعتیں چلا رہے تھے۔ انھوں نے وہاں جا کر صنعتی یونٹس لگا لیے خصوصاً ٹیکسٹائل کے شعبے میں۔ ان صنعتکاروں کا جن کا برسہا برس کا طویل خاندانی تجربہ تھا انھوں نے بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی برآمدات کو رنگ دیا، خاندانی تجربہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں کئی گروپس ایسے ہیں جوکہ کئی صدیوں سے برصغیر کے مختلف شہروں خصوصاً کلکتہ میں اپنے کاروبار یا صنعتیں جم کر چلا رہے تھے۔
اس دوران کسی حکومت نے اس بات کا نوٹس نہ لیا کہ ملک میں ہی ان کو تمام سہولیات مہیا کر دی جاتیں۔ اس طرح پاکستان کے ٹیکسٹائل گروپ کی ترقی کو قدغن لگا اور دیگر ایشیائی ممالک ٹیکسٹائل اور کئی شعبوں میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
اب پاکستان کی بیرونی تجارت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ مالی سال 2021-22 کے دوران صرف 31ارب 79 کروڑ18 لاکھ 4 ہزار ڈالرز کی برآمدات ہوئیں جس کے بارے میں پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ مالی سال 2020-21 کے مقابلے میں 25.64 فیصد زائد ہے، اگرچہ یہ بات انتہائی خوش آیند ہے لیکن معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس دوران ملکی درآمدات کی مالیت 80 ارب 17 کروڑ 65 لاکھ 11 ہزار ڈالرز ہونے کے باعث ملکی برآمدات سے تقریباً 17 ارب ڈالرز زائد یعنی تجارتی خسارہ 48 ارب 38 کروڑ50 لاکھ ڈالر کا رہا۔
یعنی برآمدات سے کہیں زیادہ تجارتی خسارہ ہو چکا ہے جوکہ اپنے گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 کی نسبت 55.70 فیصد زائد ہے۔ جس کی تفصیل پی بی ایس رپورٹ کے مطابق اس طرح ہے کہ مالی سال 2020-21 کی برآمدات 25 ارب 30 کروڑ44 ہزار ڈالرز اور درآمدات 56 ارب 37 کروڑ98 لاکھ 90 ہزار ڈالرز کے باعث تجارتی خسارہ 31 ارب 7 کروڑ60 لاکھ ڈالرز رہا۔ اس طرح اب بیرونی تجارت میں شدید عدم توازن اور دیگر باتوں نے ڈالر کو مزید اونچا اڑا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
گزشتہ 75 سالوں کے دوران پاکستان کی بیرونی تجارت سوائے چند برسوں کے عدم توازن کا شکار رہی ہے، جس میں بڑھتی ہوئی درآمدات کا اہم کردار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چند عشرے ایسے گزرے ہیں جن میں اشیائے سرمایہ کی درآمدات کی مالیت زیادہ تھی اور اشیائے صرف کی مالیت کم تھی۔
کسی ملک کی ترقی کے لیے اشیائے سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ملکی صنعتی ترقی کی خاطر کیپٹل گڈز کی درآمدات لازماً کی جاتی ہیں، لیکن ایک زرعی ملک کے اشیائے خوراک کی ضرورت کے لیے درآمدات میں اضافہ ہونے پر ترجیحاً توجہ دے کر اس کا حل نکالا جانا چاہیے تھا۔ مثلاً ملکی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے زرعی منصوبہ بندی وغیرہ کی ضرورت تھی۔
یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ابتدائی چند سال ایسے تھے جب اشیائے صرف کی ضرورت کے لیے دوسرے ملکوں کے محتاج تھے اور ان کی درآمد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں ملک کی صنعتی ترقی کی خاطر صنعتی سرمایہ کاری اسکیم شروع کی گئی تھی جس میں بعض درآمدی اشیا پر ڈیوٹی کم کر دی گئی تھی یا بعض پر ختم بھی کردی گئی تھی جس سے صنعتی شعبے کی ترقی، اس کے لیے مشینریوں کی خریداری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس طرح کی درآمدی مالیت میں اضافے کا یہ فائدہ ہوا کہ ملک میں صنعتی ترقی کو فروغ حاصل ہوا جس کے نتیجے میں بہت زیادہ روزگار کے مواقع بھی بڑھے اور ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکا تھا۔
پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایشیائی ملکوں میں آگے بڑھ رہا تھا کہ ستمبر 1965 کی جنگ برپا ہوگئی۔ اس کے بعد بیرونی تجارت کا شعبہ عدم توازن کا شکار ہوکر رہ گیا، لیکن پھر بھی وہ دور نہ آیا تھا کہ درآمدات میں لگژری گاڑیاں، اشیائے تعیشات، مہنگے فوڈ آئٹمز اور دیگر غیر ضروری درآمدات اپنی جگہ بنا لیتے۔ 80 کی دہائی میں ملک میں کلاشنکوف کلچر، درآمدی فرنیچر، تعمیراتی شعبے کے لیے کئی اقسام کی درآمدی اشیا، بھاری بھرکم قیمتی مالیت کی گاڑیوں کی درآمدات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جہاں تک بسوں کی درآمدات کا تعلق ہے تو ملکی ٹرانسپورٹ کے لیے اس کی شدید ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر اس جانب تھوڑی توجہ دی جائے تو روس اور دیگر کئی ملکوں سے سستی بسیں خرید سکتے تھے۔ روسی بسوں کا اس لیے ذکر کیا کہ یہ آزمائی ہوئی ہیں، پاکستان اسٹیل مل میں کئی دہائیوں سے یہ بسیں زیر استعمال رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں دیگر درآمد شدہ بسوں کا برا حال تھا کہ چند ہی سالوں میں یہ بسیں ڈپو میں لا کر کھڑی کردی جاتیں اور کچھ ہی عرصے میں انھیں اپاہج بنا دیا جاتا ان کے پرزے وغیرہ غائب ہو جاتے یوں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ جاتا، جس کے بارے میں کسی قسم کی باز پرس ہی نہیں ہوتی۔
اس پون صدی کے دوران پاکستان پر برسہا برس ایسے گزرتے رہے ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات میں بگاڑ پیدا ہوتا رہا اور اس بگاڑ کے نتیجے میں ملک کی صنعتی ترقی کی رفتار بار بار مدھم ہوتی رہی۔ روزگار کے مواقع گھٹتے رہے ، ملک کی صنعتیں زوال پذیر ہوتی رہیں، بہت سی صنعتیں بند ہوگئیں، بہت سے صنعتکار ملک سے ہی شفٹ کرگئے۔
ان میں بہت سے صنعتکار ایسے بھی تھے جو سقوط ڈھاکا سے قبل سابقہ مشرقی پاکستان میں کاروبار کر رہے تھے، صنعتیں چلا رہے تھے۔ انھوں نے وہاں جا کر صنعتی یونٹس لگا لیے خصوصاً ٹیکسٹائل کے شعبے میں۔ ان صنعتکاروں کا جن کا برسہا برس کا طویل خاندانی تجربہ تھا انھوں نے بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی برآمدات کو رنگ دیا، خاندانی تجربہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں کئی گروپس ایسے ہیں جوکہ کئی صدیوں سے برصغیر کے مختلف شہروں خصوصاً کلکتہ میں اپنے کاروبار یا صنعتیں جم کر چلا رہے تھے۔
اس دوران کسی حکومت نے اس بات کا نوٹس نہ لیا کہ ملک میں ہی ان کو تمام سہولیات مہیا کر دی جاتیں۔ اس طرح پاکستان کے ٹیکسٹائل گروپ کی ترقی کو قدغن لگا اور دیگر ایشیائی ممالک ٹیکسٹائل اور کئی شعبوں میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
اب پاکستان کی بیرونی تجارت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ مالی سال 2021-22 کے دوران صرف 31ارب 79 کروڑ18 لاکھ 4 ہزار ڈالرز کی برآمدات ہوئیں جس کے بارے میں پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ مالی سال 2020-21 کے مقابلے میں 25.64 فیصد زائد ہے، اگرچہ یہ بات انتہائی خوش آیند ہے لیکن معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس دوران ملکی درآمدات کی مالیت 80 ارب 17 کروڑ 65 لاکھ 11 ہزار ڈالرز ہونے کے باعث ملکی برآمدات سے تقریباً 17 ارب ڈالرز زائد یعنی تجارتی خسارہ 48 ارب 38 کروڑ50 لاکھ ڈالر کا رہا۔
یعنی برآمدات سے کہیں زیادہ تجارتی خسارہ ہو چکا ہے جوکہ اپنے گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 کی نسبت 55.70 فیصد زائد ہے۔ جس کی تفصیل پی بی ایس رپورٹ کے مطابق اس طرح ہے کہ مالی سال 2020-21 کی برآمدات 25 ارب 30 کروڑ44 ہزار ڈالرز اور درآمدات 56 ارب 37 کروڑ98 لاکھ 90 ہزار ڈالرز کے باعث تجارتی خسارہ 31 ارب 7 کروڑ60 لاکھ ڈالرز رہا۔ اس طرح اب بیرونی تجارت میں شدید عدم توازن اور دیگر باتوں نے ڈالر کو مزید اونچا اڑا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔