بنگلہ دیش کاکمال
لکڑہارا اناج لاتا تو ملکہ اس میں سے آدھا پیس کرآدھا بچالیتی تھی
RAWALPINDI:
حیرت ہے، وہ نکمے نکھٹوہروقت سیلاب زدہ، مصیبت زدہ ،چاول زدہ، مچھلی زدہ اورچھونپڑی زدہ خطہ جو کبھی مشرقی پاکستان کہلاتاتھاجسے کاٹ کر سڑے ہوئے انگ کی طرح الگ کر دیا گیا تھا اور اس کمال پر ہمارے ایک دانا دانشورنے کہاتھا، شکر ہے پاکستان بچ گیا اوردوسرے کئی دانادانشوربھی کہتے اورلکھتے تھے، وہ ایک مرد بیمارتھا، سڑاہوا وجودتھا، سراسر زیاں تھا نہ کہ سود تھا۔
ہم مغربی پاکستان کے محب وطن جیالوں کو اسے پالنے پر ساری کمائی صرف کرناپڑتی تھی، پانیوں اوردلدلوں،نکمے، بیکار لوگوں اورآفتوں کی اس مصیبت سے چھٹکارامل گیا۔لیکن پھر نہ جانے کیاہواہمارایہ خیال بھی غلط ثابت ہوگیا کہ بھارت اسے غلام بناکرچھٹی کادودھ اورہماری یاد دلادے گا ۔ایک پشتوٹپہ ہے۔
بازمے کارغا نوسرہ لاڑو
مردارے غوخے بہ ئے خوراک شی مڑبہ شینہ
یعنی میرا''باز''کوؤں کے ساتھ چلاگیا، مردار گوشت کھا کھا کر مرجائے گا۔
لیکن یہ کیا۔بنگلہ دیش دنیاکے لیے اقتصادی رول ماڈل بن گیاہے، اتنی تباہی کے بعد اس نے بہت کم عرصے میں اتنی معاشی اوراقتصادی ترقی کرلی ہے کہ دنیا اسے دیکھ کرحیران وپریشان، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدنداں ہوگئی ہے۔
ایں کا راز تو آئدومردان چنیں کنند
اس معاملے میں کہنے کوتو بہت کچھ ہے لیکن نظریہ پاکستان اورسایہ خدائے ذوالجلال سے ڈرلگتاہے کیوں کہ سب کچھ سن سکتے ہیں لیکن سچ بالکل نہیں سن سکتے۔ اوپرکے فارسی شعرمیں ''مردان''پر یادآیاکہ یہ گل قدآور دبنگ اورنجات دہندہ تائب کے مردوں نے نہیںبلکہ دو چھوٹی چھوٹی ''خواتین'' نے کھلایا ،گویاجسے سمجھے تھے عورت وہ انناس نکلی، اس تمام عرصے میں یہی دوخواتین حسینہ واجد اورخالدہ ضیاء ہی زیادہ تربرسراقتداررہیں حالانکہ ہمارے ہاںاس عرصے میں بہت بڑے بڑے یودھا،ہیرو،فخریہ اوروہ آتے رہے، جاتے رہے اور ملک کابیڑہ غرق کرتے رہے۔
یہاں ہمیں پشتوکی ایک اورکہاوت یادآئی ہے کہ نہ سو کمانے والے مرد اورنہ ایک بچانے والی عورت، سو مرد اگر کماتے رہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کرتے رہیں تو کیا فائدہ۔ لیکن ایک عورت اگر اپنی مختصرکمائی سے کم خرچ کرے اورکچھ بچائے تو ان سو مردوں سے زیادہ کمائے گی۔
ہماراایک ملازم کسی پہاڑی علاقے کاتھا، ہرقسم کی مزدوری کرتا رہا،بیچارا دوسروں کے مکانوں میں رہتا رہا،پھر اچانک نہ صر ف ہزاروں کی زمین خریدی بلکہ اس پر اچھاخاصاگھربھی بناڈالا۔لوگ حیران تھے کہ اس غربت زدہ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا تو اس نے بتایاکہ میں نے بھی بہت بچت کی ہے، زندگی بھر میں کپڑا خرید کر کبھی اپنے لیے لباس تک نہیں سلوایا،کباڑ سے خرید کر پہناکرتاتھا لیکن زیادہ کمال میری بیوی کا تھا کہ اس نے مرغیوں اورانڈوں سے اورپھر بھیڑوں کادودھ بیچ کر پچیس ہزارروپے جمع کیے تھے ۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ سیرکو نکلاتھا، انھوں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ لکڑیوں کاگٹھڑا اٹھائے ہوئے تھا، کمزوری کے باعث چل بھی نہیں پارہاتھا، قدم قدم پر لڑکھڑا رہاتھا، ہانپ رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا بیچارے کواس عمر میں محنت کرنا پڑرہی ہے اوروضع قطع سے لگ رہاہے کہ اب بھی بہت تنگ زندگی گزاررہا ہے۔
بڑا بدنصیب ہے۔ بادشاہ نے کہا۔ ملکہ نے کہا، نصیب کا تو پتہ نہیں لیکن یقیناً اس کی بیوی نالائق اوراحمق ہے۔بادشاہ کو اس پر غصہ آیا بولا گویا تم یہ کہنا چاہتی ہوکہ عورت ہی سب کچھ ہے، مرد کچھ بھی نہیں۔بات بڑھ گئی تو بادشاہ نے ملکہ کووہیں کھڑے کھڑے اپنے سے الگ کر دیا، اس کے زیورات بھی اس سے لے لیے اور پہنے ہوئے کپڑوں میں تیاگتے ہوئے کہا، اب میں دیکھتا ہوں کہ تم انھیں لیاقت وقابلیت سے کیاکرتی ہو۔ملکہ نے لکڑہارے کے گھر کاپتہ کیا اور اس کے گھر چلی گئی۔
اس نے لکڑ ہارے کو بتایا کہ وہ ایک بے آسراعورت ہے، اگر وہ اسے گھر میں پناہ دے تو یہ اس کا بڑا احسان ہوگا، گھر کاساراکام کاج بھی کروں گی اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرلوں گی۔ لکڑہارے نے بھی سوچا اس میں براکیاہے، میرااکیلا پن بھی دورہوجائے گا ،پلی پلائی بیٹی مفت میں مل جائے گی، لکڑہارے کے گھرمیں اورکوئی نہیں تھا چنانچہ جنگل سے لکڑیاں لاکر بازار میں بیچ دیتا تھا اوران پیسوں سے بازارکا تیار کھانا لاکر کھالیتاتھا۔ دوسرے دن ملکہ نے کہا،بابا تیار کھانے کے بجائے اناج لایاکرو، چکی بھی گھر میں پڑی ہے، میں پیس کر کھاناتیار کرلوں گی۔
لکڑہارا اناج لاتا تو ملکہ اس میں سے آدھا پیس کرآدھا بچالیتی تھی، کچھ عرصے بعد بچے ہوئے اناج کو بیچا تو اچھے خاصے پیسے آگئے۔ اس دن ملکہ نے کہاکچھ بھی لانے کی ضرورت نہیں، آپ لکڑیاں بیچ کر سارے پیسے گھر لایاکریں، مہینے کے پیسے سے میں راشن لایاکروں گی۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں اتنے پیسے ہوگئے کہ ایک گدھا خریدلیا، اب بوڑھا پہلے سے دگنی لکڑیاں لانے لگا، ملکہ نے ایک اورتجویزیہ پیش کی کہ لکڑیاں لانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہاں میں نے ایک بڑا ساغار دیکھاہے، آپ لکڑیاں کاٹ کر اس میں جمع کریں، سردیوں میں لکڑیوں کی قیمت دگنی ہوجاتی تھی۔
اس طرح بوڑھالکڑہارا تھوڑے ہی عرصے میں کافی مالدار ہوگیااورلوگ اس سے جلنے لگے، چنانچہ کسی نے اس جمع کی ہوئی لکڑیوں کو آگ لگادی ملکہ بھی دیکھنے گئی تو غارمیںاسے ایک چمکدار چیز نظرآئی، دیکھاتو وہ سونے کاچھوٹا ساٹکڑاتھاپتہ کیا تو اس غارمیں بہت سا سوناملااب تو وہ اتنے امیر ہوگئے کہ ایک بڑا خوب صورت گھر بھی بنالیا،نوکر چاکر بھی رکھ لیے۔
پھر ایک دن ملکہ نے اس سے کہاکہ اب تو آپ کا شمارامیروں میںہوتاہے، اس لیے بادشاہ کو کھانے پر بلوائیے۔ بادشاہ آیا ،اس نے سب دیکھا تو پوچھا کہ اتنی دولت کہاں سے آئی، بوڑھے نے کہا یہ سب میری بیٹی کا کمال ہے۔ بادشاہ نے اس کی بیٹی سے ملنے کی خواہش کی تو ملکہ پردے سے باہرآئی، اپنی ملکہ کو دیکھ کرحیران رہ گیا اورپھر پوری کہانی سن کر مان لیا کہ اگرعورت چاہے تو گھر کو جنت بھی بنا سکتی ہے۔