2ماہ گزر گئے پولیس اور رینجرز تا حال چوہدری اسلم کے قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی

سی آئی ڈی حکام کی عدم دلچسپی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ میں تضاد کے باعث چوہدری اسلم کی ہلاکت معمہ بن گئی


Staff Reporter March 13, 2014
تفتیشی افسران اب تک گاڑی کی ملکیت ، اس کا رجسٹریشن نمبر ، انجن نمبر اور چیسز نمبر معلوم نہیں کر سکے. فوٹو: فائل

ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے 2 ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا اس دوران رینجرز اور پولیس کی جانب سے خطرناک دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں کے دعوے تو ضرور کیے جاتے رہے۔

تاہم پولیس اور رینجرز چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے گروپ اور اس میں استعمال کی جانے والی گاڑی کا تاحال سراغ لگانے میں ناکام ہے، چوہدری اسلم انسداد انتہا پسندی سیل گارڈن کے سربراہ رہے اور اس دوران انھوں نے کئی اہم کامیاب چھاپہ مار کارروائیوں اور مقابلوں میں دہشت گردی کی کوششیں قبل از وقت ناکام بنائیں تاہم انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد چوہدری اسلم کے سیل میں تعینات افسران و اہلکار بھی اپنے سربراہ کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں تاحال عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کو لیاری ایکسپریس وے عیسیٰ نگری انٹر چینج پر رواں سال 9 جنوری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ان کا محافظ اور ڈرائیور بھی جان کی بازی ہار گیا تھا ، چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جائے وقوع کا دورہ کرنے کے بعد دھماکے کو نصب بم دھماکا قرار دیا، بعدازاں سی آئی ڈی کے سینئر پولیس افسر راجہ عمر خطاب نے جائے وقوع کا دورہ کرتے ہوئے دھماکے کو خودکش قرار دیا اور اس حوالے سے دوسرے روز جائے وقوع کے قریب ہی واقع عیسیٰ نگری قبرستان اور ملحقہ آبادی کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک ہاتھ اور کچھ انسانی اعضا ملے جنھیں نادرا سے تصدیق کرائی گئی تو فنگر پرنٹس کا جو ریکارڈ سامنے آیا وہ نعیم اﷲ نامی شخص کا تھا جو کہ اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ کالونی کا رہائشی اور اس کا آبائی تعلق مہمند ایجنسی سے تھا۔

پولیس کی جانب سے نعیم اﷲ کو مبینہ خودکش بمبار قرار دے دیا گیا جس نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی چوہدری اسلم کی گاڑی سے ٹکرائی جو کہ بلٹ پروف تو ضرور تھی تاہم وہ بم پروف نہیں تھی اور یہی وجہ چوہدری اسلم کی موت کا سبب بنی، چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے میں استعمال کی جانے والی سوزوکی پک اپ کے کچھ پارٹس پولیس کو ضرور ملے تھے تاہم تفتیشی افسران گاڑی کا سراغ لگانے میں تاحال ناکام دکھائی دیتے ہیں ، تفتیشی افسران اب تک گاڑی کی ملکیت ، اس کا رجسٹریشن نمبر ، انجن نمبر اور چیسز نمبر معلوم نہیں کر سکے جس کے بعد تفتیش جوں کی توں پڑی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری اسلم کو منوں مٹی تلے دفنانے کے ساتھ ساتھ ان کی تفتیش کو بھی دفنا دیا گیا ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس کا ایک دلیر اور بہادر افسر کے گن گانے والے اعلیٰ پولیس افسران چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے ، منصوبہ سازی اور ملوث گروپ کا تعین کرنے میں ناکام رہے ۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا کوئی چھوٹی بات نہیں اس حوالے سے ان کی نقل و حرکت پر ملزمان نے انتہائی منظم انداز میں نہ صرف ریکی کی تھی بلکہ انھوں نے اپنے ہدف کو ہر قیمت پر نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی غفلت یا غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد سی آئی ڈی کے اعلیٰ پولیس افسران کی عدم دلچسپی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ میں تضاد کے باعث چوہدری اسلم کی ہلاکت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے اور شہر میں پے در پے دیگر واقعات کے رونما ہونے کی وجہ سے ان کی تفتیش سرد خانے کی نذر ہوگئی، چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد انسداد انتہا پسندی سیل میں تاحال ان کی سیٹ خالی ہے اور ان جگہ کوئی بھی پولیس افسر تعینات نہیں کیا جا سکا، چوہدری اسلم کی شہادت کے حوالے سے ڈی آئی جی سی آئی ڈی ظفر عباس بخاری سے ان کے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا تو انھوں نے حسب روایت فون ریسیو کرنے سے گریز کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں