معاشی بحران کی قیمت

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد پانے معیشت کے لیے ضروری ہے

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد پانے معیشت کے لیے ضروری ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان کا معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کی خوش کن اطلاعات تو مل رہی ہیں لیکن باقاعدہ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے اور پاکستان کو پہلی قسط کی ادائیگی بھی ابھی تک لٹکی ہوئی ہے۔

ادھر پاکستان میں جاری سیاسی بے یقینی اورعدم استحکام بھی بدستور جاری و ساری ہے بلکہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے اجلاس کے حوالے سے خبروں اور اطلاعات نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ملک کا کاروباری طبقہ پریشانی کے عالم ہے اور امید بھر نظروں سے ملک کے سٹیک ہولڈرز کی طرف دیکھ رہا کہ شاید کوئی ہوش کے ناخن لینے پر تیار ہوجائے۔

اس صورت حال کی سنگینی اور نزاکت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے قرض کی جلد فراہمی میں تعاون کے لیے امریکہ سے رابطہ کیا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے اس ضمن میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے فون پر بات کی ہے۔

انہوں نے وائٹ ہاؤس اور محکمہ خزانہ سے اپیل کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے تقریباً 1.2ارب ڈالر کی فوری فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ آرمی چیف کی اپیل جولائی میں سینئر سویلین پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان الگ الگ ملاقاتوں کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

میڈیا میں ایک آئی ایم ایف اہلکار کے حوالے سے یہ خبر آئی ہے کہ متعدد سینئر پاکستانی سویلین حکام نے گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں امریکہ اور دیگر اہم سٹیک ہولڈر ممالک سے ملاقاتیں کی ہیں۔ان ملاقاتوں میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے آرمی چیف واشنگٹن کی توجہ مبذول کرانے پر مجبور ہوئے ہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا بریفنگ میں آرمی چیف اور امریکی نائب وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو پر ردعمل میں کہاکہ امریکہ اور پاکستانی حکام سے تمام معاملات پر باقاعدگی سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

ادھر دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے اگلے روز میڈیا بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کے ساتھ رابطے کی تو تصدیق کی ہے البتہ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف اور امریکی نائب وزیر خارجہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات کے بارے میں پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) ہی بتا سکتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معیشت پر بات ہوئی ہے یا نہیں۔

آئی ایم ایف نے 13جولائی کوسٹاف لیول سطح پر پاکستان کے لیے بیل آوٹ پیکج کی منظوری دے دی تھی لیکن اس کثیرالجہتی قرض کی فراہمی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی حتمی منظوری کے بعد عمل میں آئے گی۔لیکن تاحال باقاعدہ تو اس کی منظوری نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں معاشی اشاریے منفی ہیں۔

یاد رہے کہ 1945ء میں قائم ہونے والے اس فنڈ میں امریکہ سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے، اگر امریکہ کی حکومت آئی ایم ایف کے حکام سے اپیل کرتو پاکستان کے لیے بیل آوٹ پیکج کا اجراء جلد ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ آرمی چیف اس سے پہلے خلیجی اور برادراسلامی ممالک سے بھی رابطے کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ آرمی چیف عمران خان حکومت میں نیشنل اکنامک کونسل کے ممبربھی رہ چکے ہیں۔ اگلے روز جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا کے درمیان بھی ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی استحکام کے ساتھ ساتھ دفاعی اور سکیورٹی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم مشترکہ مفادات کی بنیاد پر باہمی دلچسپی کے شعبے میں تعلقات کو بڑھانے کے لیے پر امید ہیں۔ دونوں شخصیات نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اعادہ کیا۔


امریکی سینٹ کام کیکمانڈر نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی۔ انہوں نے علاقائی استحکام میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعاون میں مزید بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

جمعہ کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستان میں چینی سفیر نونگ رونگ نے بھی ملاقات کی۔اس دوران باہمی دلچسپی، دفاعی تعاون ، سی پیک پر پیش رفت اور علاقائی سکیورٹی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔

اگلے روز ہی پاکستان میں امریکی سفیرڈونلڈبلوم نے وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات مفتاح اسماعیل سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے حکومت کی اقتصادی ترجیحات اورپالیسیوں پرروشنی ڈالی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ان اقدامات اور پالیسیوں کا بنیادی مقصد ملک میں اقتصادی اورمالی استحکام لانا ہے۔انہوں نے کہا امریکا اور پاکستان کے درمیان دیرینہ ،وسیع البنیاد اورکثیرالجہتی شراکت داری قائم ہے اور مختلف شعبوں میں امریکا کی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکی سفیرنے حکومت کی پالیسیوں اورپرگراموں پراعتمادکااظہارکیا اورکہاکہ دوطرفہ اقتصادی تعاون، سرمایہ کاری اوردونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے وہ مکمل تعاون فراہم کریں گے۔

اسٹیٹ بینک نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے سرمائے کے انخلا کی تردید کردی ہے، بینک کا کہنا ہے، یہ اندیشہ گمراہ کن اور حقیقت سے بعید ہے کہ آر ڈی اے سے بڑی رقوم کا اخراج ہوا ہے۔ کچھ رقم نکالی گئی ہیں لیکن اس کا سبب 2021ء کے اوائل میں شروع ہونے والی این پی سیز میں کی گئی سرمایہ کاریوں کی میعاد پوری ہونا تھا۔ گزشتہ 23 ماہ کے دوران صرف 800 ملین ڈالر واپس بھیجے گئے ہیں۔

اسٹیٹ بینک حکومت سے مل کر روپے میں جاری کیے جانے والے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کی شرح پر نظر ثانی کررہا ہے ، جون 2022ء تک تقریباً 429,364 روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ کھولے جاچکے ہیں۔ ان میں 4.6 ارب ڈالر آئے ہیں جن میں سے 2.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نیا پاکستان سرٹیفکیٹ میں کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے بھی درست نہیں کہ اسٹیٹ بینک آر ڈی اے میں آنے والی رقوم کے اصل اعدادو شمار چھپا رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جولائی کے دوران ہدف سے زائد ٹیکس وصول کیا۔

اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے ماہ جولائی میں 454 ارب کے محصولات جمع کیے جو ہدف سے زائد ہے ،معاشی ماہرین کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے جولائی کے دوران ہدف سے زیادہ محصولات جمع کرنا اور 454 ارب روپے کے ٹیکس وصول کرنے کی وجہ انکم ٹیکس وصولی میں اضافہ ہے کیونکہ حکومت نے نئے بجٹ میں براہ راست ٹیکسز کا نفاذ بھی کیا ہے۔ جولائی کے محصولات میں اگرچہ 9 فیصد اضافہ نظر آتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق سالانہ مجموعی ہدف جو کہ 7 کھر 47 ارب روپے رکھا گیا ہے اس کے حصول کے لیے محصولات کی اس شرح میں اضافہ کافی نظر نہیں آتا۔

ادارے کے مطابق جولائی کے لیے 443 ارب کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا تھا جس کا مطالبہ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کیا گیا تھا یعنی اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ٹیکس محصولات میں 22 فیصد اضافہ حاصل کرنا ہوگا جو کہ افراط زر کی شرح کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حاصل کرلیا جائے گا۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں نئی حکومت نے پٹرولیم، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں مزید 1 کھرب سے زاید کے ٹیکسز نافذ کیے ہیں جبکہ کمپنیوں پر ایک سے 4 فیصد کے تناسب سے سپر ٹیکس کا نفاذ بھی کیا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد پانے معیشت کے لیے ضروری ہے۔ملک میں سیاسی بحران اور عدم استحکام کا خاتمہ بھی ضروری ہے، سیاست میں عدم استحکام اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کوئی پارٹی اپنے سائز سے حصہ لینے پر بضد ہوتی ہے،ملک کے سٹیک ہولڈرز کو یقینا پتہ ہوگا کہ عالمی بینک نے بڑے پیمانے پرسٹرکچرل اصلاحات متعارف کرائے جانے تک سری لنکاکومزیدمالی امداددینے سے انکار کردیا ہے۔ملک میں مہنگائی کی شرح60.8 فیصدتک پہنچ گئی ہے۔

عالمی بینک نے کہاہے کہ اگرچہ معاشی بحران کے سری لنکاکے عوام پراثرات سے متعلق اسے تشویش ہے لیکن ضروری اصلاحات متعارف ہونے تک فنڈزنہیں دیے جائیں گے۔عالمی بینک نے جاری بیان میں کہاکہ معاشی پالیسی فریم ورک ترتیب ہونے تک سری لنکاکومزیدامداددینے کاارادہ نہیں،دوسری جانب سری لنکا کے عالمی مالیاتی فنڈکے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاہم اس تمام مرحلے کو مکمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

سری لنکا کی رولنگ اشرافیہ کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی قیمت سری لنکا کے عوام کو کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ اتنی بھاری قیمت ہے جس کے بارے میں سری لنکا کی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔سری لنکا کے صدر راجاپاکسے، ان کا خاندان اور قریبی حواریوں کا کچھ نہیں بگڑا ، وہ اپنی پوٹلی بغل میں دبا کر ترقی یافتہ ممالک کی سیر پر نکل گئے ہیں اور سری لنکن روٹی اور تیل لینے کے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے اپنے حکمرانوں کے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
Load Next Story