جھوٹ
ریاستی اداروں نے آئینی حدود سے تجاوز کیا اور ان اقدامات کو تحفظ بھی فراہم کیا
MADRID:
جس ملک میں عوام سے ''جھوٹ''بولنے کی روایت کو سچ بنا دیا جائے تو پھر وہاں عوام کی سیاسی اور سماجی سوچ کی سطح ''عامیانہ''ہونے پر کیونکر ملال کیا جا سکتا ہے؟ جس دیس کی وفاداری کی قسمیں کھا کھا کر اسے محض ذاتی فائدے کی خاطر چند ڈالروں یا پونڈ کی لالچ میں فروخت کرنے والے کو دھڑلے سے ملک کی وفاداری کا ٹھیکہ دار بنایا جاتا رہے اور اسے صادق و امین کی سند دلوا کر جھوٹ و فریب کو سماج کا بیانیہ بنا دیا جائے،تو ایسے تراشے ہوئے وجود کا عوام بھلا کیا کچھ بگاڑ سکتے ہیں؟
جس دیس کی اشرافیہ کی پیدائش ہی غیر فطری سطح پر ہوئی ہو، اس سے کسی بھی سچ یا حق کی توقع عبث ہی ہوگی یا پھر دیوانے کا خواب۔سو قوم بھی خواب کی روایت پر چلتے ہوئے خواب دیکھتی رہے اور تعبیر کو تلاش کرتی رہے،البتہ غیر فطری طور پہ پیدا کی گئی اشرافیہ کو تعبیر مل چکی ہے لہذا وہ تعبیر کے احکامات کے پیش نظر ملک اور عوام کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ ہر صورت درست اور خواب کی تعبیر کے مطابق ہے،محض یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کے ہر عمل کو درست قرار دینے کی سندلیے گھومتے رہتے ہیں اور اشرافیائی ادارے کی لوٹ مار اور غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات کو سند تقسیم کرتے رہتے ہیں،اور ملک کے ہر اس فرد کو صادق امین قرار دینے پر مامور کر دیئے گئے ہیں جو ملک کو لوٹتا کھسوٹتا اور برباد کر سکتا ہے۔
اشرافیہ کے استحصال،لوٹ کھسوٹ اور من پسند فیصلوں کے درمیان ابھی کچھ ماہ پہلے ملک کی اشرافیہ کی مکمل بات نہ پہنچ سکی اور قاضی نے جلدی میں لاڈلے کو اشرافیہ کی گود سے اتار دیا۔اس پورے عمل پر اشرافیہ کا سیخ پا ہوجانا فطری تھا، ، مگر دوسری جانب چند سر پھرے انصاف اور قانون کے دھتی ''قاضی کی چوکھٹ'' پر سر دھن دھن کر اس کا جینا محال کیے بیٹھے ہیں۔
اشرافیہ امریکہ سے ڈالر ملنے کی آس میں واشنگٹن کی جانب رخ کیے بیٹھی ہے،جبکہ دوسرا دوست سیاستدان اشرافیہ کے جھوٹے بیانیے کو دھڑلے سے بیچ کر عوام اور سماج میں جھوٹ اور ڈھٹائی کا زہر گھول رہا ہے اور ہمارا الیکشن کمیشن کونے میں دبکا ہوا ''دوست'' کے جھوٹ کی فائل بغل میں دبائے کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھاگتا پھر رہا ہے۔
چند سالوں پہلے ہمارے دیس کی اشرافیہ نے جب عوام کے استحصال پر گرفت کو کمزور محسوس کیا تو انہوں نے ایک ٹائیگر فورس بنائی جس کا کام تام جام،برگر شرگر،بینڈ باجا اور چمکتی ہوئی گاڑیوں میں سیاست کو ٹھٹھوں میں گم کر دینا تھا،اس مقصد کے لیے پہاڑی پر ناجائز قبضہ کروا کر دوست کا مسکن بنایا گیا اور اپنے کارکنوں سے کہا گیا کہ ہماری اس بنائی گئی سرکار پر ایمان ہی کو نجات کا ذریعہ سمجھا اور کہا جائے،بلکہ ہمارے دوست کی ہر بات کو ایمان کے درجہ پر رکھا جائے تاکہ ملک میں صداقت اور ایمانداری کے ساتھ نہ صرف اس کے برعکس بیانیے کی فراہمی بہتر انداز سے کی جا سکے بلکہ دوست سے فراڈ اور کرپشن کرنے کے جدید طریقے بھی سیکھے جائیں تاکہ آیندہ چند سر پھرے سچ کے باولے سر ہی نہ اٹھا پائیں۔
اس پورے منصوبے میں جھوٹے بیانیے کے اس پہلوان پر ریاکاری سے لے کر سفید جھوٹ بولنے کی مکمل چھوٹ دی گئی اور طے کیا گیا کہ ملک کے تمام قانون دوست کی کرپشن کے نشان اور کرپشن معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکیں گے اور نا ہی درست بات عوام تک پہنچائی جائے گی،مگر دوسری جانب کم از کم عوام ہیں کہ لاڈلے کے جھوٹ اور دروغ گوئی کو اب مزید نہ قبول اور نہ ہی ماننے پر آمادہ ہے مگر دوست کے نو رتن جھوٹ اور جھوٹ ہر جگہ پھر رہے ہیں۔
ایک جانب ملک میں سیاسی اقدار کی تدفین کا انتظام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب انتظامی طور پر سماجی کام کے اداروں کو اتنا غیر موثر اور بے توقیر کردینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جسے عوام کو دکھلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومتی ادارے کسی کام کے نہیں، یہی سب کچھ اس دیس کے ساتھ پچھلے 70 برسوں سے ہو رہا ہے کہ شہری اور دیہی آبادی کو سہولت بہم پہنچانے یا حادثے کی صورت میں مدد کرنے والے حکومتی اداروں کے فنڈز اور مشینری ناکارہ کرکے انھیں ناکارہ اور ناکام قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہی صورتحال آجکل بارش کی تباہ کاریوں اور سیلاب کی جان لیوا کیفیت کے تحت ملک اور خاص طور پر بلوچستان اور پنجاب کے ڈیرہ غازی خان کے لوگ بے یار و مددگار پڑے ہیں جبکہ حکومتی ادارے بس خانہ پوری اور فوٹو سیشن میں مصروف عمل ہیں،ہمارے ڈیرہ غازی خان کے محبی فرید زاہد نے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ کی تباہی بیان کرتے ہوئے حقائق کی نشاندہی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں 80% کھڑی فصل سیلابی پانی کی نذر ہو چکی ہیں،مویشی اور دیگر معاشی ضرورت پوری کرنے والی اشیا سیلابی پانی کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ علاقے کے افراد بے سروسامانی کے عالم میں اپنی بربادی پر مدد کے لیے بے آس و سہارا اپنی مدد آپ کرنے پر مجبور ہیں،گندم چاول و دیگر اجناس پانی کی نذر ہو کر نجانے کب تک اس علاقے کو بھوکا پیاسا رکھیں گے؟
ایسی ہی صورتحال بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہے جہاں سیلابی پانی نے حب اور دیگر علاقوں کا زمینی رابطہ ختم کر دیا ہے،اس قیامت خیز سیلابی صورتحال میں ڈیرے اور بلوچستان کے بے گھر افراد کے دکھوں کا مداوا کیسے اور کیونکر ہو۔اس سے بے خبر حکومت اپنی ساکھ اور سیاست کو بچانے میں مگن ہے۔باقی نہ عوام اہم ہیں اور نہ ملکی معاشی صورتحال۔ ملک میں سیلاب ہو یا زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے حکومتی سول اداروں کو متحرک اور موثر بنانا ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے سکیں۔حکومتیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب سول ادارے مضبوط ہوں اور کسی بھی بحران اور مشکل میں ملک کو اس سے نکال سکیں۔
اگر سول ادارے اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی برتیں اور کسی بھی بحرانی کیفیت میں نااہلی کے مرتکب ہوں تو ایسے میں ملکی ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہ جاتا ہے۔ریاست آئین اور قانون کے ذریعے تمام اداروں کے فرائض اور حدود و قیود کا تعین کر دیتی ہے، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انہی حدود و قیود کے اندر رہ کر ریاست کی خدمت کریں گے۔بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے اداروں یا ریاستی نظام کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی کچھ آج تک ہوتا رہا ہے کہ ریاستی اداروں نے آئینی حدود سے تجاوز کیا اور ان اقدامات کو تحفظ بھی فراہم کیا۔ایک جانب جھوٹ الزامات،فتح شکست کے ترانوں میں بس سسکتی عوام کی چیخیں ہیں اور ہم ایسے صحافیوں کے بے اثر الفاظ۔
جس ملک میں عوام سے ''جھوٹ''بولنے کی روایت کو سچ بنا دیا جائے تو پھر وہاں عوام کی سیاسی اور سماجی سوچ کی سطح ''عامیانہ''ہونے پر کیونکر ملال کیا جا سکتا ہے؟ جس دیس کی وفاداری کی قسمیں کھا کھا کر اسے محض ذاتی فائدے کی خاطر چند ڈالروں یا پونڈ کی لالچ میں فروخت کرنے والے کو دھڑلے سے ملک کی وفاداری کا ٹھیکہ دار بنایا جاتا رہے اور اسے صادق و امین کی سند دلوا کر جھوٹ و فریب کو سماج کا بیانیہ بنا دیا جائے،تو ایسے تراشے ہوئے وجود کا عوام بھلا کیا کچھ بگاڑ سکتے ہیں؟
جس دیس کی اشرافیہ کی پیدائش ہی غیر فطری سطح پر ہوئی ہو، اس سے کسی بھی سچ یا حق کی توقع عبث ہی ہوگی یا پھر دیوانے کا خواب۔سو قوم بھی خواب کی روایت پر چلتے ہوئے خواب دیکھتی رہے اور تعبیر کو تلاش کرتی رہے،البتہ غیر فطری طور پہ پیدا کی گئی اشرافیہ کو تعبیر مل چکی ہے لہذا وہ تعبیر کے احکامات کے پیش نظر ملک اور عوام کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ ہر صورت درست اور خواب کی تعبیر کے مطابق ہے،محض یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کے ہر عمل کو درست قرار دینے کی سندلیے گھومتے رہتے ہیں اور اشرافیائی ادارے کی لوٹ مار اور غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات کو سند تقسیم کرتے رہتے ہیں،اور ملک کے ہر اس فرد کو صادق امین قرار دینے پر مامور کر دیئے گئے ہیں جو ملک کو لوٹتا کھسوٹتا اور برباد کر سکتا ہے۔
اشرافیہ کے استحصال،لوٹ کھسوٹ اور من پسند فیصلوں کے درمیان ابھی کچھ ماہ پہلے ملک کی اشرافیہ کی مکمل بات نہ پہنچ سکی اور قاضی نے جلدی میں لاڈلے کو اشرافیہ کی گود سے اتار دیا۔اس پورے عمل پر اشرافیہ کا سیخ پا ہوجانا فطری تھا، ، مگر دوسری جانب چند سر پھرے انصاف اور قانون کے دھتی ''قاضی کی چوکھٹ'' پر سر دھن دھن کر اس کا جینا محال کیے بیٹھے ہیں۔
اشرافیہ امریکہ سے ڈالر ملنے کی آس میں واشنگٹن کی جانب رخ کیے بیٹھی ہے،جبکہ دوسرا دوست سیاستدان اشرافیہ کے جھوٹے بیانیے کو دھڑلے سے بیچ کر عوام اور سماج میں جھوٹ اور ڈھٹائی کا زہر گھول رہا ہے اور ہمارا الیکشن کمیشن کونے میں دبکا ہوا ''دوست'' کے جھوٹ کی فائل بغل میں دبائے کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھاگتا پھر رہا ہے۔
چند سالوں پہلے ہمارے دیس کی اشرافیہ نے جب عوام کے استحصال پر گرفت کو کمزور محسوس کیا تو انہوں نے ایک ٹائیگر فورس بنائی جس کا کام تام جام،برگر شرگر،بینڈ باجا اور چمکتی ہوئی گاڑیوں میں سیاست کو ٹھٹھوں میں گم کر دینا تھا،اس مقصد کے لیے پہاڑی پر ناجائز قبضہ کروا کر دوست کا مسکن بنایا گیا اور اپنے کارکنوں سے کہا گیا کہ ہماری اس بنائی گئی سرکار پر ایمان ہی کو نجات کا ذریعہ سمجھا اور کہا جائے،بلکہ ہمارے دوست کی ہر بات کو ایمان کے درجہ پر رکھا جائے تاکہ ملک میں صداقت اور ایمانداری کے ساتھ نہ صرف اس کے برعکس بیانیے کی فراہمی بہتر انداز سے کی جا سکے بلکہ دوست سے فراڈ اور کرپشن کرنے کے جدید طریقے بھی سیکھے جائیں تاکہ آیندہ چند سر پھرے سچ کے باولے سر ہی نہ اٹھا پائیں۔
اس پورے منصوبے میں جھوٹے بیانیے کے اس پہلوان پر ریاکاری سے لے کر سفید جھوٹ بولنے کی مکمل چھوٹ دی گئی اور طے کیا گیا کہ ملک کے تمام قانون دوست کی کرپشن کے نشان اور کرپشن معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکیں گے اور نا ہی درست بات عوام تک پہنچائی جائے گی،مگر دوسری جانب کم از کم عوام ہیں کہ لاڈلے کے جھوٹ اور دروغ گوئی کو اب مزید نہ قبول اور نہ ہی ماننے پر آمادہ ہے مگر دوست کے نو رتن جھوٹ اور جھوٹ ہر جگہ پھر رہے ہیں۔
ایک جانب ملک میں سیاسی اقدار کی تدفین کا انتظام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب انتظامی طور پر سماجی کام کے اداروں کو اتنا غیر موثر اور بے توقیر کردینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جسے عوام کو دکھلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومتی ادارے کسی کام کے نہیں، یہی سب کچھ اس دیس کے ساتھ پچھلے 70 برسوں سے ہو رہا ہے کہ شہری اور دیہی آبادی کو سہولت بہم پہنچانے یا حادثے کی صورت میں مدد کرنے والے حکومتی اداروں کے فنڈز اور مشینری ناکارہ کرکے انھیں ناکارہ اور ناکام قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہی صورتحال آجکل بارش کی تباہ کاریوں اور سیلاب کی جان لیوا کیفیت کے تحت ملک اور خاص طور پر بلوچستان اور پنجاب کے ڈیرہ غازی خان کے لوگ بے یار و مددگار پڑے ہیں جبکہ حکومتی ادارے بس خانہ پوری اور فوٹو سیشن میں مصروف عمل ہیں،ہمارے ڈیرہ غازی خان کے محبی فرید زاہد نے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ کی تباہی بیان کرتے ہوئے حقائق کی نشاندہی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں 80% کھڑی فصل سیلابی پانی کی نذر ہو چکی ہیں،مویشی اور دیگر معاشی ضرورت پوری کرنے والی اشیا سیلابی پانی کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ علاقے کے افراد بے سروسامانی کے عالم میں اپنی بربادی پر مدد کے لیے بے آس و سہارا اپنی مدد آپ کرنے پر مجبور ہیں،گندم چاول و دیگر اجناس پانی کی نذر ہو کر نجانے کب تک اس علاقے کو بھوکا پیاسا رکھیں گے؟
ایسی ہی صورتحال بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہے جہاں سیلابی پانی نے حب اور دیگر علاقوں کا زمینی رابطہ ختم کر دیا ہے،اس قیامت خیز سیلابی صورتحال میں ڈیرے اور بلوچستان کے بے گھر افراد کے دکھوں کا مداوا کیسے اور کیونکر ہو۔اس سے بے خبر حکومت اپنی ساکھ اور سیاست کو بچانے میں مگن ہے۔باقی نہ عوام اہم ہیں اور نہ ملکی معاشی صورتحال۔ ملک میں سیلاب ہو یا زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے حکومتی سول اداروں کو متحرک اور موثر بنانا ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے سکیں۔حکومتیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب سول ادارے مضبوط ہوں اور کسی بھی بحران اور مشکل میں ملک کو اس سے نکال سکیں۔
اگر سول ادارے اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی برتیں اور کسی بھی بحرانی کیفیت میں نااہلی کے مرتکب ہوں تو ایسے میں ملکی ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہ جاتا ہے۔ریاست آئین اور قانون کے ذریعے تمام اداروں کے فرائض اور حدود و قیود کا تعین کر دیتی ہے، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انہی حدود و قیود کے اندر رہ کر ریاست کی خدمت کریں گے۔بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے اداروں یا ریاستی نظام کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی کچھ آج تک ہوتا رہا ہے کہ ریاستی اداروں نے آئینی حدود سے تجاوز کیا اور ان اقدامات کو تحفظ بھی فراہم کیا۔ایک جانب جھوٹ الزامات،فتح شکست کے ترانوں میں بس سسکتی عوام کی چیخیں ہیں اور ہم ایسے صحافیوں کے بے اثر الفاظ۔