ہے کوئی یہاں

اروند کیجری وال اپنے ملک میں نظام بدلنے اور خاص طور پر کرپشن کے خاتمے کو اپنا منشور بنا کر سیاست میں آئے تھے

m_saeedarain@hotmail.com

LONDON:
بھارتی ریاست ہریانہ میں پیدا ہونے والے 54 سالہ سابق بیورو کریٹ اور بھارتی دارالحکومت و ریاست دہلی کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال اپنے ملک میں نظام بدلنے اور خاص طور پر کرپشن کے خاتمے کو اپنا منشور بنا کر سیاست میں آئے تھے اور وہ پہلی بار دسمبر 2013 میں دہلی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

اس وقت بھارت میں مودی وزیر اعظم تھے اور متعدد ریاستوں میں بھارت کی دو بڑی پارٹیوں بی جے پی، کانگریس کے علاوہ دیگر علاقائی پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجری وال نے منتخب ہونے کے صرف 49 دنوں بعد اس لیے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ دہلی اسمبلی سے کرپشن کے خلاف بل منظور نہیں کراسکے تھے کیونکہ ان کے پاس اسمبلی میں مطلوبہ تعداد نہیں تھی۔

49 روزہ اقتدار میں وزیر اعلیٰ دہلی کوئی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور بھارتی حکومت بھی ان کے خلاف تھی مگر دہلی کے لوگوں نے ان پر پھر بھاری اکثریت سے اعتماد کیا اور وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔

2013 میں پہلی بار اقتدار میں آنے اور صرف 49 دنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے والے اور واقعی نظام میں تبدیلی لانے کے خواہشمند وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجری وال آج دہلی کے تیسری بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والی بھارت کی اہم سیاسی قدآور شخصیت ہونے کے علاوہ ان کی عام آدمی پارٹی کی ایک اور اہم ریاست بھارتی پنجاب میں بھی حکومت قائم ہو چکی ہے اور عام آدمی پارٹی دہلی میں شاندار کارکردگی دکھانے، اپنے منشور پر عمل کر دکھانے اور عوام کو سہولتیں دینے میں تاریخی ریکارڈ بنانے کے بعد بھارتی پنجاب میں دہلی کی طرح نظام بدلنے اور کرپشن ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

دہلی کے بعد اب بھارتی پنجاب کے عوام عام آدمی پارٹی کی حکومت میں وہ سہولتیں حاصل کر رہے ہیں جو ملک کی دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی متعدد بار اقتدار میں رہنے کے باوجود عوام کو دینے میں ناکام رہی تھیں مگر عام آدمی پارٹی کی حکومت نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بھارت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام آدمی پارٹی کو اقتدار میں آئے صرف نو سال ہوئے ہیں جس کی دہلی کے بعد اب بھارتی پنجاب میں بھی حکومت ہے اور توقع ہے کہ اس نئی پارٹی نے اسی طرح عوام کی خدمت جاری رکھی تو مستقبل میں دیگر بھارتی ریاستوں اور بھارت میں بھی اس کی حکومت قائم ہوگی۔

سرکاری ملازمت چھوڑ کر نظام بدلنے اور کرپشن کے خاتمے کے منشور پر اقتدار میں آنے والے اروند کیجری وال سیاست میں آئے تھے اور آج ان کی پارٹی کی جن دو صوبوں میں حکومت ہے وہاں کے عوام کو بلاامتیاز ریلیف مل رہا ہے اور اروند کیجری وال کی قیادت میں دہلی کے بعد اس سال ہی اقتدار میں آنے والی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے بھارتی پنجاب میں بھی عوام کو دہلی جیسی سہولتوں کی فراہمی شروع کردی ہے۔


دہلی حکومت نے سات سالوں میں وہ کچھ کر دکھایا جس کی بھارت کیا دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی مثال نہیں ملتی۔ دہلی بدل چکا کیونکہ اروند کیجری وال نے دعوے نہیں کیے تھے۔ انھوں نے انگریزوں کا نظام دہلی میں تبدیلی کرکے دکھایا دیا۔ صرف دہلی شہر کو ترقی نہیں ملی بلکہ وہاں کے عوام کو تین سو یونٹ ماہانہ بجلی مفت ملتی ہے بلکہ انھیں تعلیم و صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات حاصل ہو چکی ہیں۔

اروند کیجری وال نہ سیاسی شخصیت تھے نہ بڑے جاگیردار اور صنعتکار۔ وہ کھیل کے باعث دنیا میں مشہور تھے نہ کہیں کے سردار تھے ان کا تو سیاست سے تعلق ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے عوام کی حالت دیکھ کر نظام بدلنے کے لیے سیاست میں آئے اور اقتدار میں آ کر انھوں نے اپنے کسی مخالف سے انتقام لیا نہ انھیں گرفتار کرایا۔ انھوں نے مودی کی وفاقی حکومت کو اپنا دشمن بنایا نہ دیگر سیاسی جماعتوں پر الزامات لگائے نہ اپنے مخالفین کو چور ،ڈاکو قرار دیا نہ کہا کہ مخالفین کو این آر او نہیں دوں گا نہ ہی انھوں نے سیاسی مخالفین پر کیس بنوائے بلکہ اپنے کام سے کام رکھا اور دہلی کو بدل کر عوام کو ریلیف دے کر دکھا دیا اور ثابت کر دکھایا کہ کوئی کام کرنا چاہے تو سب کرسکتا ہے۔

بھارت میں پاکستان سے زیادہ کرپشن تھی جہاں حکمرانوں نے مال بنایا۔ ملک سے باہر جائیدادیں بنائیں، وہاں بھی کئی عشروں تک باری باری دو پارٹیوں کی حکومتیں رہیں مگر وہاں دو بار اقتدار میں رہنے والا ایک ایسا وزیر اعظم گلزاری لعل نندہ بھی گزرا ہے جس نے اپنا آخری وقت اتنی غربت میں گزارا کہ بڑھاپے میں کمرے کا کرایہ نہ ملنے پر مالک نے اس کا معمولی سا گھریلو سامان فٹ پاتھ پر پھینک دیا تھا اور انھوں نے بڑی مشکل سے حکومت سے پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ قبول کیا تھا۔

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن اور سیاسی عدم استحکام رہا اور اب بھی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں بھی کرپشن برقرار رہی بلکہ عالمی اداروں کے مطابق اس میں اضافہ ہی ہوا۔ بھارتی سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پاکستان کے سابق حکمرانوں پر عمران خان نے لگائے اور اپنے اقتدار کے پونے چار سالوں میں نیب سے گرفتار کرائے گئے کسی ایک مخالف سیاستدان پر عدالتوں میں کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور سب ضمانتوں پر رہا ہوگئے۔

عمران خان ملک میں تبدیلی لانے، ہر ایک کو بلاامتیاز انصاف دلانے اور کرپشن ختم کرنے کے وعدوں پر اقتدار میں آئے تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکے، اگر عمران خان 2018 میں اتحادیوں کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو انھیں وزیر اعظم بننا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر انھوں نے ایسا ہی کرلیا تھا تو چند ماہ بعد اروند کیجری وال کی طرح مستعفی ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ 2018 کی اسمبلیاں ویسے ہی متنازعہ تھیں اور اب عمران خان خود تسلیم کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت جنھوں نے بنوائی تھی وہی حکومت چلوا بھی رہے تھے۔

دہلی میں اروند کیجری وال کی حکومت عوام نے بنوائی تھی اور مرضی کی قانون سازی نہ کرا سکنے پر وہ دوبارہ عوام میں گئے اور عوام نے انھیں پہلے سے زیادہ نشستیں جتوائیں اگر عمران خان بھی ایسا کرتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ 1985 میں ہونے والے الیکشن غیر جماعتی تھے مگر یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ ملک کا کوئی حکمران عوام کے لیے عوام کی طاقت سے اقتدار میں نہیں آیا بلکہ سب کو بالاتر اقتدار میں لائے اور سب کو ہی بالاتروں کے کہنے پر چلنا پڑا۔ کوئی ایک بھی عوامی طاقت سے اقتدار میں نہیں آیا تھا اس لیے کسی کی حکومت نے بھی عوام کا نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کا سوچا اور وعدوں کے باوجود عوام کی حالت بدلی نہ نظام بدلا کیونکہ نظام بدل کر تبدیلی لانے کے لیے کوئی بھی مخلص نہیں تھا۔

سب نے اقتدار کے مزے لیے مال اور جائیدادیں بنائیں، اپنوں کو نوازا ، کسی نے اپنا کاروبار مستحکم کیا کسی نے اپنے ذاتی اداروں کو مالی استحکام بخشا اور عوام کی حالت ہر حکومت میں پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی کیونکہ ان سب میں کوئی ایک بھی اروند کیجری وال تھا اور نہ ہی بننا چاہتا تھا اور نہ ہی کوئی حقیقی طور پر نظام بدلنے، کرپشن ختم کرنے میں مخلص تھا سب نے عوام کو دھوکا دیا، مایوس کیا، عمران خان نے اگر کے پی کو مثال بنایا ہوتا تو وہی ملک کے کیجری وال ثابت ہو سکتے تھے۔
Load Next Story