اسرائیلی مفادات کا حامی امریکا
فلسطین امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے
امریکی نظام سیاست ہمیشہ سے صہیونیوں کے مفادات کا حامی رہا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سر زمین فلسطین پر قائم کی جانے والی ریاست اسرائیل کی قیام سے مسلسل حمایت کرنا اور ریاست کی جانب سے فلسطینی مظلوموں کے خلاف روا رکھے جانے والے بد ترین اور انسانیت سوز مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں بالخصوص سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی قراردادوں کو اسرائیل کے حق میں ویٹوکرنا امریکی تاریخ کا حصہ ہے۔
امریکا کی جانب سے غاصب ریاست اسرائیل کی سرپرستی ہمیشہ سے ترجیحات میں شامل رہی ہے ، حالانکہ یہی اسرائیلی دہشت گرد ہیں کہ جنہوں نے امریکی بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کو 1967ء میں اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا ، جس کے نتیجہ میں تین درجن کے لگ بھگ امریکی نیول میرین ہلاک ہوگئے تھے جبکہ دو سو کے قریب افراد شدید زخمی ہوئے تھے ، جن میں سے اکثر بعد ازاں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح صہیونیوں کی جارح ریاست اسرائیل کی بدنامہ زمانہ خفیہ ایجنسی موساد امریکی صدورکے خلاف جاسوسی بھی کرتی رہی ہے اور تاحال یہ جاسوسی کا کام جاری ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی نظام سیاست نے اپنے ہی شہریوں کے ٹیکس سے ایک ایسی غاصب اور جارح ریاست کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے جو نہ صرف فلسطین کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خطے کی دوسری ریاستوں اور امن پسند انسانوں کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امریکی شہریوں کے لیے بھی اذیت کا باعث بن چکی ہے۔ یہاں امریکی شہری دن رات محنت کرکے حکومت کو ٹیکسز ادا کرتے ہیں، وہاں دوسری طرف امریکی شہریوں کے ٹیکس سے جمع ہونے والی بھاری رقم کو اسرائیل کی فوجی امداد کے نام پر اربوں ڈالر میں امریکی سرکار خرچ کرتی ہے۔
اس فوجی امداد کے بعد اسرائیل نہ صرف فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کے خلاف ظلم کی داستانیں رقم کرتا ہے بلکہ خطے میں دہشت گردی ، بدامنی اور انتشار کو پھیلانے میں استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا ، مقبوضہ فلسطین یعنی جس پر اسرائیل نامی ایک غاصب ریاست قائم ہے۔ اس دورے کے دوران دنیا بھرکے سیاست دانوں نے بہت کچھ کہا اور بہت کچھ میڈیا پر سننے میں آیا۔
یہاں تک باتیں سامنے آتی رہیں کہ امریکی صدر یروشلم معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے مسئلہ کو حل کر دیں گے اور یہاں پر امن و امان قائم ہوگا۔ حقیقت میں بالخصوص مغربی دنیا اور بالعموم سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کرنے کا نہیں ہے۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ فلسطین ایک ایسی سرزمین مقدس ہے جہاں 1948ء تک یہودی ، عیسائی اور مسلمان اقوام کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی اقوام آباد تھیں۔ 1948ء میں برطانوی استعمارکی سرپرستی اور امریکی آشیر باد کے نتیجہ میں فلسطین اور فلسطینیوں کے وطن پر ایک نئی ریاست کو وجود دیا گیا جوکہ دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے، غاصب صہیونیوں کی ریاست اسرائیل ہے۔ اب جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات ہوگی تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین امن سے زیادہ انصاف کا متلاشی ہے اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل باہر سے آئے ہوئے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے۔
بہرحال امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کے دورے میں یروشلم معاہدے کو متعارف کروایا۔ حقیقت میں یہ کام انہوں نے ہمیشہ کی طرح صہیونیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے انجام دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صہیونیوں کی ناراضگی جہاں ان کی سیاست پر اثر انداز ہوسکتی ہے وہاں ان کی صدارت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا پھر شاید ان کو یہ خوف بھی لا حق تھا کہ مقبوضہ فلسطین میں پہنچنے کے بعد صہیونیوں کے مفادات سے ہٹ کر کوئی بات کی تو انہیں ماضی کے ایک سابق امریکی صدر کی طر ح قتل ہی نہ کر دیا جائے۔
ان تمام شکوک و شبہات نے امریکی صدر کو صہیونیوں کی وفاداری پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے صہیونزم کے پیروکار ہونے کا اعلان بھی کیا ہے اور شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ صہیونزم کا پیروکار ہے۔ جوبائیڈن اور ان سے قبل ٹرمپ بھی یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ صہیونیوں کو عرب دنیا میں تسلیم کروائیں تا کہ صہیونیوں کے لیے راستے ہموار ہوسکیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکا کے کہنے پر مشرق وسطٰی کی حکومتیں صہیونیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کو اپنے لیے باعث شرف سمجھ رہی ہیں حالانکہ یہ سب تاریخ کی بد ترین غلطی ہے۔
امریکی صدر نے صہیونیوں کے ساتھ اپنی وفا داری کا ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے غاصب اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب کی طرف سفر کیا اور یہ صہیونیوں کو اپنی وفا داری کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔ بائیڈن نے جہاں ایک طرف اپنی وفاداری ثابت کی ہے وہاں ساتھ ساتھ سعودی عرب کے حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ مزید قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس عنوان سے فلسطین کی حریت پسند قیادت ، فلسطین کے عوام سمیت دنیا بھر کے مسلمان عوام اور فلسطینی حامیوں کی جانب سے عرب اسرائیل تعلقات کے موضوع پر تنقید کی جا رہی ہے۔
فلسطین امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے کیونکہ فلسطینی دھڑوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ غاصب صہیونیوں کی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ، لہذا امریکی صدرکی صہیونی وفاداری تو ایک طرف لیکن دورے کے نتائج کی بات کی جائے تو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی شدید قسم کے سیاسی بحران کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہوچکا ہے۔
موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کے مقبوضہ فلسطین دورے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ جس طرح ماضی میں امریکی صدور مقبوضہ فلسطین آتے رہے اور صہیونیوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اقدامات اٹھاتے رہے ، اسی طرح جوبائیڈن بھی کوئی نیا کام انجام دینے میں ناکام نظر آئے ہیں بلکہ ان کے اس دورے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ صہیونیوں کو باورکروایا جائے کہ امریکا صہیونیوں کے ساتھ ہے اور ان کی پشت پناہی کرے گا۔
یہی وہ نقطہ ہے جس نے امریکی عوام کو سوچنے پر مجبورکردیا ہے کہ امریکی نظام سیاست آخر دنیا بھر میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے ظالم اور ظلم کرنے والے صہیونی طاقت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہی حقیقت میں امریکی نظام سیاست کا مکار اور سیاہ چہرہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف امریکی شہریوں کے لیے عیاں ہو رہا ہے بلکہ اقوام عالم اس بات کا مشاہدہ کررہی ہیں کہ امریکا دنیا میں مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہے۔