پاکستانی شہری کا کارنامہ بارش کا کروڑوں گیلن پانی محفوظ کرنے کا طریقہ پیش
کراچی کے امان اللہ کاکاخیل نارتھ کراچی کے 32 کنووں میں ہر سال ایک کروڑ گیلن سے زائد پانی محفوظ کررہے ہیں
QUETTA:
پاکستانی شہری نے اپنی مدد آپ کے تحت بارش کا کروڑوں گیلن پانی محفوظ کرنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے جسے وسعت دے کر مزید فوائد اٹھائے جاسکتےہیں۔
یوں سرکاری سرپرستی کی صورت میں کراچی کو ہر سال بارش میں ڈوبنے سے بچانا ممکن ہوگا اور کروڑوں گیلن پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکے گا۔ سماجی کارکن امان اللہ کاکاخیل کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں 32کنوؤں میں ہر سال ہونے والی بارشوں میں ڈیڑھ سے دو کروڑ گیلن پانی محفوظ کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ سرگرمی پانچ سال قبل بین الاقوامی تجربات کی روشنی میں شہر کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے اور پانی کو ضایع ہونے سے روکنے کے لیے شروع کی تھی۔
بارش کے پانی کو پائپوں کے ذریعے کنوؤں تک پہنچایا جاتا ہے جو زیادہ تر پبلک پارکس یا نجی عمارتوں اور مساجد میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سے کنویں استعمال میں نہیں رہے تھے اور آبادی کے لیے بے سود تھے۔ امان اللہ کاکاخیل نے ماہرین کی ایک ٹیم کی مدد سے اس پراجیکٹ کو آگے بڑھایا اور اب وہ مختلف علاقوں میں کنویں کھود کر اس میں بارش کا پانی جمع کرتے ہیں۔
امان اللہ کاکاخیل کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت گرچکی ہے اور پانی کا معیار خراب ہورہا ہے پانی کی زیر زمزین سطح گرنے سے زمین کے اوپر اسٹرکچر اور مکانات کو بھی خطرہ لاحق ہے اور معمولی ارتعاش یا زلزلے کی سرگرمی میں عمارتیں بنیادوں سے کھسک جاتی ہیں اور زلزلہ کی صورت میں بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرنے کے طریقے سے بارش کے پانی سے شہری انفرااسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان سے بھی بچایا جاسکتا ہے، یہ سادہ اور کم خرچ فطری طریقہ سڑکوں پر پانی جمع ہونے، نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور نقصانات کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
امان اللہ کاکا خیل نے بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرنے کا کام پانچ سال قبل نارتھ کراچی کے مسلم ٹاؤن میں واقع ذیشان پارک کے دو کنوؤں سے کیا۔ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت تھی اور لائن کا پانی دستیاب نہ تھا اور بورنگ خشک ہوچکی تھی۔ بارش کا پانی زیر زمین جمع کرنے سے اس علاقے میں خشک ہوجانیوالی بورنگ بھی تر ہوگئی اور پانی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اس تجربہ کو دیکھتے ہوئے دیگر علاقوں میں بھی بارش کے پانی کو جمع کرنے کا کام شروع کیا گیا جس کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنائی گئی جن میں ماحولیاتی ماہرین، ارضیاتی ماہرین اور سول انجینئرز شامل ہیں۔ امان اللہ کاکا خیل نے بتایا کہ 32کنوؤں میں اچھی بارش کی صورت میں دو کروڑ اور نارمل بارش سے ڈیڑھ کروڑ گیلن پانی جمع کرتے ہیں۔
اس تکنیک کی سرکاری سطح پر سپرستی کی جائے تو اربوں گیلن پانی زمین میں ڈپازٹ کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی جدید سائنسی طریقہ کی ضرورت نہیں بلکہ شہر اور ماحول کے ساتھ مخلص ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ رین ہارویسٹنگ یا بارش کے پانی کو زیر زمین جمع نہ کرنے کی صورت میں شہر کو آنے والے وقت میں اور زیادہ مسائل کا سامنا ہوگا۔
عمارتیں منہدم ہونے کی وجہ ہے کہ بارش کے پانی سے عمارتوں کا وزن بڑھ جاتا ہے اور زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتی اور عمارتیں گر جاتی ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح گرنے سے شہری انفرااسٹرکچر اور عمارتوں کو خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے بنیادوں کے نیچے زمین کمزور ہوجاتی ہے۔ بارش میں عمارتیں پانی جذب کرتی ہیں اور کمزور بنیادیں یہ وزن نہیں اٹھاپاتیں جس کی وجہ سے بارشوں میں اکثر عمارتیں گرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کی صورت میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی۔ ماہرین کے مطابق کراچی کے بڑے نالوں کو کنکریٹ سے پختہ کیے جانے کی وجہ سے ان نالوں سے زیر زمین پانی جمع ہونے کا قدرتی عمل رک گیا ہے جس سے شہر میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک گرگئی ہے۔
امان اللہ کاکاخیل، ستونِ نیکی کے نام سے ایک غیرمنافع بخش ادارہ کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں جو شہری مسائل کے حل کے علاوہ صحت، تعلیم، روزگار اور مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے عوام کی زندگیاں آسان بنارہا ہے۔ امان اللہ کاکا خیل کے مطابق انہیں زیر زمین پانی جمع کرنے کا خیال ان چھوٹی بچیوں کو دیکھ کر آیا جو اپنے سروں پر پانی کے برتن اٹھائے پیدل جاکر پانی بھرکے اپنے گھروں پر لاتی تھیں۔ وسائل سے محروم یہی آبادی نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارشوں میں بھی اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرتی تھی۔ اپنے بین الاقوامی تجربہ اور ماہرین کی معاونت کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے پانی کی قلت کا شکار غریب علاقوں سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ زیرزمین پانی جمع کرنے کا منصوبہ مکمل طور پر غیر تجارتی ہے اس میں کوئی کمرشل فائدہ نہیں اب تک تمام کام اپنے خرچ سے کرایا گیا مقصد صرف بچیاں پانی بھرنے دور جاتی ہیں ان کے گھر میں پانی نہیں ہوتا سرکاری کنکشن میں پانی نہیں آتا جو لوگ دور دراز سے پانی بھرکے لاتے ہیں ان کا مسئلہ حل کرنا ہے تاک ہجو لوگ پانی خرید کر نہیں پی سکتے ان کو پینے کا پانی فراہم ہوسکے اور شہر کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانا ہے۔
بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرکے بارشوں کی تباہ کاریوں کو کم کرنے اور پانی کی قلت دور کرنے کے لیے ایک مثالی حل فراہم کرنے پر امان اللہ کاکا خیل سے بلوچستان کی اعلیٰ شخصیات، نجی شعبہ اور اسلام آباد کے پراجیکٹس کے لیے ان کی خدمات حاصل کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تاہم بارشوں کی تاب نہ لانے والے شہر کراچی کی انتظامیہ یا سندھ حکومت کے کسی نمائندے نے امان اللہ کاکا خیل کی پیشکش پر کوئی جواب نہیں دیا۔ ا
مان اللہ کاکا خیل نے سندھ حکومت کو پیش کش کی ہے کہ کراچی کے ضلع وسطی میں انہیں 150کنوؤں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے جن میں پبلک پارکس کے علاوہ نجی کنویں اور سرکاری عمارتوں میں قائم کنویں شامل ہیں ان کنوؤں کو انترکنیکٹ کرکے پانی جمع کرنے کا نظام بنایا جائے گا جو آئندہ سال ہونے والی بارشوں میں ضلع وسطی کی شکل مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دے گا اور اس علاقے سے پانی کی قلت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ امان اللہ کاکا خیل کی اس تجویز پر اب تک سندھ حکومت کی کسی شخصیت نے نہ رابطہ کیا اور نہ ہی کوئی جواب ملا۔ امان اللہ کاکا خیل نے کہا کہ ان کے پاس کراچی کے انڈر پاسز میں جمع ہونے والے پانی کا بھی حل ہے جو ماہرین کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر بھی مدد کو تیار ہے تاہم سندھ میں حکومتی سطح پر کوئی بات نہیں ہوئی، بلوچستان سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے رابطہ کیا اور بلوچستان کے لیے اس تکنیک سے پانی جمع کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔
پاکستانی شہری نے اپنی مدد آپ کے تحت بارش کا کروڑوں گیلن پانی محفوظ کرنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے جسے وسعت دے کر مزید فوائد اٹھائے جاسکتےہیں۔
یوں سرکاری سرپرستی کی صورت میں کراچی کو ہر سال بارش میں ڈوبنے سے بچانا ممکن ہوگا اور کروڑوں گیلن پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکے گا۔ سماجی کارکن امان اللہ کاکاخیل کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں 32کنوؤں میں ہر سال ہونے والی بارشوں میں ڈیڑھ سے دو کروڑ گیلن پانی محفوظ کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ سرگرمی پانچ سال قبل بین الاقوامی تجربات کی روشنی میں شہر کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے اور پانی کو ضایع ہونے سے روکنے کے لیے شروع کی تھی۔
بارش کے پانی کو پائپوں کے ذریعے کنوؤں تک پہنچایا جاتا ہے جو زیادہ تر پبلک پارکس یا نجی عمارتوں اور مساجد میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سے کنویں استعمال میں نہیں رہے تھے اور آبادی کے لیے بے سود تھے۔ امان اللہ کاکاخیل نے ماہرین کی ایک ٹیم کی مدد سے اس پراجیکٹ کو آگے بڑھایا اور اب وہ مختلف علاقوں میں کنویں کھود کر اس میں بارش کا پانی جمع کرتے ہیں۔
امان اللہ کاکاخیل کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت گرچکی ہے اور پانی کا معیار خراب ہورہا ہے پانی کی زیر زمزین سطح گرنے سے زمین کے اوپر اسٹرکچر اور مکانات کو بھی خطرہ لاحق ہے اور معمولی ارتعاش یا زلزلے کی سرگرمی میں عمارتیں بنیادوں سے کھسک جاتی ہیں اور زلزلہ کی صورت میں بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرنے کے طریقے سے بارش کے پانی سے شہری انفرااسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان سے بھی بچایا جاسکتا ہے، یہ سادہ اور کم خرچ فطری طریقہ سڑکوں پر پانی جمع ہونے، نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور نقصانات کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
امان اللہ کاکا خیل نے بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرنے کا کام پانچ سال قبل نارتھ کراچی کے مسلم ٹاؤن میں واقع ذیشان پارک کے دو کنوؤں سے کیا۔ اس علاقے میں پانی کی شدید قلت تھی اور لائن کا پانی دستیاب نہ تھا اور بورنگ خشک ہوچکی تھی۔ بارش کا پانی زیر زمین جمع کرنے سے اس علاقے میں خشک ہوجانیوالی بورنگ بھی تر ہوگئی اور پانی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اس تجربہ کو دیکھتے ہوئے دیگر علاقوں میں بھی بارش کے پانی کو جمع کرنے کا کام شروع کیا گیا جس کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنائی گئی جن میں ماحولیاتی ماہرین، ارضیاتی ماہرین اور سول انجینئرز شامل ہیں۔ امان اللہ کاکا خیل نے بتایا کہ 32کنوؤں میں اچھی بارش کی صورت میں دو کروڑ اور نارمل بارش سے ڈیڑھ کروڑ گیلن پانی جمع کرتے ہیں۔
اس تکنیک کی سرکاری سطح پر سپرستی کی جائے تو اربوں گیلن پانی زمین میں ڈپازٹ کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی جدید سائنسی طریقہ کی ضرورت نہیں بلکہ شہر اور ماحول کے ساتھ مخلص ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ رین ہارویسٹنگ یا بارش کے پانی کو زیر زمین جمع نہ کرنے کی صورت میں شہر کو آنے والے وقت میں اور زیادہ مسائل کا سامنا ہوگا۔
عمارتیں منہدم ہونے کی وجہ ہے کہ بارش کے پانی سے عمارتوں کا وزن بڑھ جاتا ہے اور زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتی اور عمارتیں گر جاتی ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح گرنے سے شہری انفرااسٹرکچر اور عمارتوں کو خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے بنیادوں کے نیچے زمین کمزور ہوجاتی ہے۔ بارش میں عمارتیں پانی جذب کرتی ہیں اور کمزور بنیادیں یہ وزن نہیں اٹھاپاتیں جس کی وجہ سے بارشوں میں اکثر عمارتیں گرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے کی صورت میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی۔ ماہرین کے مطابق کراچی کے بڑے نالوں کو کنکریٹ سے پختہ کیے جانے کی وجہ سے ان نالوں سے زیر زمین پانی جمع ہونے کا قدرتی عمل رک گیا ہے جس سے شہر میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک گرگئی ہے۔
امان اللہ کاکاخیل، ستونِ نیکی کے نام سے ایک غیرمنافع بخش ادارہ کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں جو شہری مسائل کے حل کے علاوہ صحت، تعلیم، روزگار اور مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے عوام کی زندگیاں آسان بنارہا ہے۔ امان اللہ کاکا خیل کے مطابق انہیں زیر زمین پانی جمع کرنے کا خیال ان چھوٹی بچیوں کو دیکھ کر آیا جو اپنے سروں پر پانی کے برتن اٹھائے پیدل جاکر پانی بھرکے اپنے گھروں پر لاتی تھیں۔ وسائل سے محروم یہی آبادی نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارشوں میں بھی اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرتی تھی۔ اپنے بین الاقوامی تجربہ اور ماہرین کی معاونت کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے پانی کی قلت کا شکار غریب علاقوں سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ زیرزمین پانی جمع کرنے کا منصوبہ مکمل طور پر غیر تجارتی ہے اس میں کوئی کمرشل فائدہ نہیں اب تک تمام کام اپنے خرچ سے کرایا گیا مقصد صرف بچیاں پانی بھرنے دور جاتی ہیں ان کے گھر میں پانی نہیں ہوتا سرکاری کنکشن میں پانی نہیں آتا جو لوگ دور دراز سے پانی بھرکے لاتے ہیں ان کا مسئلہ حل کرنا ہے تاک ہجو لوگ پانی خرید کر نہیں پی سکتے ان کو پینے کا پانی فراہم ہوسکے اور شہر کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانا ہے۔
بارش کے پانی کو زیر زمین محفوظ کرکے بارشوں کی تباہ کاریوں کو کم کرنے اور پانی کی قلت دور کرنے کے لیے ایک مثالی حل فراہم کرنے پر امان اللہ کاکا خیل سے بلوچستان کی اعلیٰ شخصیات، نجی شعبہ اور اسلام آباد کے پراجیکٹس کے لیے ان کی خدمات حاصل کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تاہم بارشوں کی تاب نہ لانے والے شہر کراچی کی انتظامیہ یا سندھ حکومت کے کسی نمائندے نے امان اللہ کاکا خیل کی پیشکش پر کوئی جواب نہیں دیا۔ ا
مان اللہ کاکا خیل نے سندھ حکومت کو پیش کش کی ہے کہ کراچی کے ضلع وسطی میں انہیں 150کنوؤں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے جن میں پبلک پارکس کے علاوہ نجی کنویں اور سرکاری عمارتوں میں قائم کنویں شامل ہیں ان کنوؤں کو انترکنیکٹ کرکے پانی جمع کرنے کا نظام بنایا جائے گا جو آئندہ سال ہونے والی بارشوں میں ضلع وسطی کی شکل مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دے گا اور اس علاقے سے پانی کی قلت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ امان اللہ کاکا خیل کی اس تجویز پر اب تک سندھ حکومت کی کسی شخصیت نے نہ رابطہ کیا اور نہ ہی کوئی جواب ملا۔ امان اللہ کاکا خیل نے کہا کہ ان کے پاس کراچی کے انڈر پاسز میں جمع ہونے والے پانی کا بھی حل ہے جو ماہرین کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر بھی مدد کو تیار ہے تاہم سندھ میں حکومتی سطح پر کوئی بات نہیں ہوئی، بلوچستان سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے رابطہ کیا اور بلوچستان کے لیے اس تکنیک سے پانی جمع کرنے کے لیے مدد مانگی ہے۔