بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

چوہدری شجاعت حسین کا دل بھی فطری طور پر دُکھا ہوگا

tanveer.qaisar@express.com.pk

اللہ اللہ، یہ گھڑی بھی دیکھنا نصیب ہونا تھی کہ ق لیگ کے سینیٹر، کامل علی آغا، نے ٹی وی پر آ کر اعلان کیا ہے کہ ہم نے اپنے صدر، چوہدری شجاعت حسین، کو پارٹی اور صدارت سے فارغ کر دیا ہے۔ بہانہ یہ بنایا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی ''خراب'' صحت پارٹی پر ''اثر انداز'' ہو رہی ہے۔

یہ اعلان کرتے ہُوئے کامل آغا کی زبان بھی نہ لڑکھڑائی، شاید اس لیے کہ اُن کے عقب میں کوئی اپنا کھڑا ہے۔ یہ نتیجہ اُس باطنی خلفشار کا شاخسانہ ہے جو گجرات کے چوہدری خاندان میں بد قسمتی سے جاری ہے۔ گجرات کے چوہدری برادران کا پچھلے چار عشروں سے پنجاب اور وفاق کی سیاست میں ڈنکا بج رہا تھا۔

چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی تقریباً ہم عمر ہیں۔ اگرچہ دونوں ایک دوسرے کے سگے کزن لگتے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے بہنوئی بھی ہیں۔ دونوں نے مگر سگے بھائیوں کی طرح سیاست اور اقتدارسے لطف اُٹھایا ہے۔ یکساں ترقی کے مدارج طے کیے ہیں۔ دونوں میں اتنا پیار اور تعاون رہا ہے کہ بہت سے لوگ تو دونوں کو سگے بھائی ہی سمجھتے ہیں۔

دونوں نے اوّل اوّل گجرات کی مقامی سیاست و اقتدار میں نام پیدا کیا اور پھر یہ سفر پنجاب کی صوبائی اور پاکستان کی وفاقی سیاست و اقتدار کی طرف منتقل ہو گیا۔ اگر چوہدری شجاعت حسین کئی بار وفاقی وزیر بنائے گئے تو چوہدری پرویز الٰہی کئی بار صوبائی وزیر منتخب ہُوئے۔ اگر چوہدری شجاعت حسین وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیے گئے تو چوہدری پرویز الٰہی ڈپٹی وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان دیکھے گئے۔ دونوں کے بیٹوں نے بھی وفاقی وزار تیں حاصل کیں۔

نواز شریف کے اقتدار سے رخصت کیے جانے کے بعد گجرات کے چودھریوں کا ہمہ مقتدر جنرل صدر پرویز مشرف سے قرب بڑھا تو اس آمر کے دَور میں دونوں کزنوں کو سب سے زیادہ عروج ملا۔ چوہدری پرویز الٰہی اسی دَور میں پنجاب کے طاقتور وزیر اعلیٰ منتخب کیے گئے۔

چوہدری شجاعت حسین قاف لیگ کے صدر تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی ، عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران، پنجاب اسمبلی کے طاقتور اسپیکر منتخب ہُوئے۔ اُن کی طاقت مگر کسی بھی طرح پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ، عثمان بزدار، سے کم نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ اپریل 2022کے آخری ہفتے نون لیگ اور اتحادی جماعتوں کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کا دَور ختم ہو گیا تو چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے امکانات ایک بار پھر روشن ہو گئے۔

نون لیگ، پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے متفقہ طور پر چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا متفقہ وزیر اعلیٰ تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن پھر پُر اسرارحالات کے دباؤ میں آکر چوہدری پرویز الٰہی راتوں رات عمران خان کے پاس پہنچ گئے۔ یوں تقدیر اور قسمت نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پگ حمزہ شہباز شریف کے سر پر رکھ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ہفتوں بعد اب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کا مقدر بن چکی ہے۔ یوں اصل فتح چوہدری پرویز الٰہی کے حصے میں آئی ہے۔


یہ فتح تب ممکن ہُوئی جب17جولائی 2022 کوپنجاب میں 20سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی 15سیٹیں جیت گئی۔ 22جولائی2022 کو پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران چوہدری پرویز الٰہی کے ووٹ بھی حریف کے مقابلے میں زیادہ نکلے لیکن اِس دوران چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط ، بطورِ قاف لیگ صدر، نے ساری کہانی کا رُخ ہی موڑ دیا۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی، دوست محمد مزاری،کے نام لکھے گئے چوہدری شجاعت حسین کے خط نے چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں پڑنے والے 10ووٹ منسوخ کر ڈالے۔ اور یوں چوہدری پرویز الٰہی جیت کر بھی ہار گئے۔

یہیں سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی عشروں پر پھیلی متحدہ سیاست و محبت تقسیم اور افتراق کا شکار ہو گئی۔ اب ہر کوئی چودھریز آف گجرات بارے اپنی اپنی پیش گوئیاں کر رہا ہے۔ مشترکہ خاندانی جائیدادوں اور کاروبار کی تقسیم کے بعد گجرات میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کی حلقہ سیاست بھی تقسیم ہو گئی ہے ۔

چوہدری پرویز الٰہی کے ''خلاف'' لکھے گئے چوہدری شجاعت حسین کے خط نے گجرات میں چودھریوں کی خاندانی سیاست کو زیادہ بگاڑ کی شکل دی ہے۔ اس بگاڑ کو پہلے اُس وقت زیادہ منفی رنگ ملا جب چوہدری شجاعت حسین کے سگے بھائی، چوہدری وجاہت حسین ، نے چوہدری پرویز الٰہی کی طرف محبت کا پلڑا جھکاتے ہُوئے یہ الزام لگایا کہ چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے، سالک حسین، نے آصف علی زرداری سے ڈالرز مانگے ہیں۔ یہ ایسی تہمت تھی کہ جس نے بھی سُنی، ششدر رہ گیا۔

چوہدری شجاعت حسین کا دل بھی فطری طور پر دُکھا ہوگا۔ پھر جب چوہدری شجاعت حسین کے لکھے گئے معروف خط کے بعد گجرات اور لاہور کے چند مخصوص علاقوں میں چوہدری شجاعت حسین اور اُن کے صاحبزادگان کے خلاف بینرز آویزاں کیے گئے تو اس اقدام نے بھی چوہدری شجاعت حسین اور اُن کے بیٹوں کو مزید ناراض کیا۔ یہیں پر بس نہ ہُوئی۔ گجرات شہر میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے ایک دھڑے نے چوہدری شجاعت حسین کے خلاف مظاہرہ کیا تو اِس نے اختلافات کی خلیج کا پاٹ مزید گہرا اور چوڑا کر دیا۔

چوہدری خاندان میں پیدا ہونے والی یہ تقسیم اور خلیج گجرات میں چودھریوں کی سیاست پر بھی گہرے نقوش چھوڑے گی۔ اِس کا نقصان دونوں دھڑوں کو ہوگا۔ گجرات کا ایک انتخابی حلقہ چوہدری ظہور الٰہی شہید کا مضبوط اور محفوظ انتخابی حلقہ ہُوا کرتا تھا۔ اِسی حلقے سے چوہدری شجاعت حسین بھی قومی اسمبلی کی سیٹ جیت چکے ہیں۔

اب یہ حلقہ مگر چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے، مونس الٰہی، کے قبضے میں بتایا جاتا ہے ۔ گجرات شہر کی سیاست کے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اِسی حلقے سے اپنے بیٹے، چوہدری سالک حسین، کو اگلے انتخابات میں جتوانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

اب مگر جو تقسیم عمل میں آئی ہے اور جس نے دل مکدر کر دیے ہیں ، اِس کی بنیاد پر شاید چوہدری سالک حسین اور چوہدری مونس الٰہی اِس حلقے سے مد مقابل ہوں گے۔ ایسے میں چوہدری شجاعت حسین ، قاف لیگ میں اُن کے دھڑے اور اُن کے صاحبزادگان کو توقع ہے کہ گجرات میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے جو پرانے سیاسی خاندان موجود ہیں( مثلاً گجرات کا کائرہ خاندان، پگانوالہ خاندان اور گجرات کے نوابزادے ) وہ اُن کی سیاسی و انتخابی مدد کو آئیں گے۔ ان تینوں معروف خاندانوں نے چوہدری خاندان میں حالیہ تقسیم اور ناراضیوں کے دوران چوہدری شجاعت حسین کے حق میں اپنی حمایتی آوازیں بلند کی ہیں ۔
Load Next Story