تھر میں مزید 2 بچوں کو موت نے نگل لیا حکومتی امداد سے محروم متاثرین احتجاج پر مجبور

وزیر اعلیٰ سندھ نے جس امدادی کیمپ کا دورہ کیا وہ ان کے جانے کے بعد سامان کی تقسیم کے بغیر ہی بند کردیا گیا۔

سرکاری اداروں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں چند شہروں تک ہی محدود ہیں ۔ فوٹو: فائل

قحط، غذائی قلت، غربت اور عدم توجہی کی بدولت تھر میں جہاں ہر روز کئی ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں وہیں حکومت کی جانب سے کئے جانے والے امداد کے دعوے بھی صرف زبانی باتوں تک ہی محدود ہیں۔

میڈیا کی جانب سے بھرپور انداز میں جھنجھوڑنے پر حکومت اور انتطامیہ تھر کے معاملے پر خواب غفلت سے تو جاگ گئی لیکن ان بھوکے اور مفلس الحال لوگوں کی امداد کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جارہیں۔ ارباب اختیار کے لئے شاید ضلع کے 2ہزار 300 سے زائد دیہات میں آباد لوگوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان دیہات میں آباد لوگوں کے لئے اب تک کسی بھی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔سرکاری اداروں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی اور چند شہروں تک ہی محدود ہیں۔


ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی کے واحد سرکاری اسپتال میں وزرا، سیاسی رہنما اور انتظامیہ فوٹو سیشن کے لئے تو دوڑے چلے آرہے ہیں لیکن وہاں زیر علاج لوگوں کے لئے وہ کچھ نہیں کیا جارہا جس کی انہیں ضرورت ہے، آج بھی اسپتال میں دو معصوم بچے موت کے اندھیرے غار میں دھکیلے جاچکے ہیں جس کے بعد قحط اور غذائی قلت سے جاں بحق بچوں کی تعداد 134 سے بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ مٹھی میں امدادی سرگرمیوں کی از خود نگرانی کررہے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے جس امدادی کیمپ کا دورہ کیا وہ ان کے جانے کے بعد سامان کی تقسیم کے بغیر ہی بند کردیا گیا۔ جب متاثرین نے احتجاج کیا تو ان کی ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے تواضع کی گئی۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری تھر کی صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ تھر میں ریلیف کا کام شفاف انداز میں جاری ہے۔ اس کے لئے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی بھی کرانا پڑی تو دریغ نہیں کریں گے، اس کے علاوہ آنے والے بجٹ میں تھرکے عوام کی بہترسہولیات کی خاطرخصوصی پیکج رکھا جائے گا۔
Load Next Story