قومی سیاست کے تناظر میں بنیادی سوال حکومت اور حزب اختلاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اہم معاملات پر مکالمے سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں کامیابی کی بنیادی کنجی مکالمہ اور مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا اور ایک ایسے ایجنڈے پر متفق ہونا ہے جو ہمیں پیچھے کے بجائے آگے کی طرف لے کر جاسکیں ۔اس کے لیے اہل سیاست کو اپنی اپنی سطح پر ایک بڑے تدبر اور رواداری کی سوچ کو تقویت دے کر سیاسی مخالفین کے لیے راستہ نکالنا ہوگا ۔
اس وقت قومی سیاست میں جو سیاسی تقسیم ہے وہ کافی گہری ہے۔ اس تقسیم میں مکالمہ یا مفاہمت کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر اس کا راستہ نہ نکالا گیا تو یہ تقسیم پورے سیاسی نظام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
جب سیاسی جماعتیں اور سیاست دان خود مکالمہ کا راستہ بند کر دیں گے تو اس کا نتیجہ دیگر قوتوں یا اداروں کی صورت میں نکلتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر مکالمہ کا ماحول پیدا کریں یا ان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بیٹھ جائیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اگر سیاسی فریقین میں بات چیت ہونی ہے یا اسے نتیجہ خیز بنانا ہے تو فیصلہ ساز قوتوں کی جانب سے ''نرم مداخلت'' کرنا ہوگی جو بات چیت میں سیاسی فریقین کے لیے سہولت کاری کا کام کرسکے ۔جو لوگ سہولت کاری کے لیے ایوان صدر کی جانب دیکھ رہے ہیں تو اس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بقول براہ راست مذاکرات ان کا ایجنڈا نہیں البتہ اگر حکومت اور حزب اختلاف اتفاق کریں تو وہ اس میں معاونت کے لیے تیار ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول ملک میں نئے انتخابات، نیا الیکشن کمیشن اور شفاف انتخابات پر کچھ طے کرکے ہی ہم موجودہ بحران سے نکل سکتے ہیں، وگرنہ دوسری صورت میں انتشار کی سیاست اور نمایاں ہوگی۔ اگرچہ فوری انتخابات پر حکمران اتحاد میں تضاد ہے اور وہ فوری انتخابات کے مقابلے میں اگلے برس 2023 میں نئے انتخابات کے حامی ہیں۔
لیکن نواز شریف نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کرنے کے بجائے ہم کو فوری انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اگر ہم مزید حکومت میں رہے تو ہماری سیاسی پوزیشن اور زیادہ کمزور ہوگی اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ہمیں ادا کرنا ہوگی۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ کچھ غیر سیاسی افراد انفرادی سطح پر سیاسی فریقین کے درمیان مکالمہ کا ماحول اور ایجنڈے کی تشکیل میں سہولت کار کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں، دیکھنا ہوگا یہ نتیجہ خیز ہوسکے گا۔ کہا جاتا ہے ان مذاکرات کے نتیجے میں کچھ عملی فیصلے اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں متوقع ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال کو کافی سنگین قرار دیا ہے۔ ان کے بقول اس وقت حکومت اور حزب اختلاف آپس میں سیاسی ٹکراؤ کا ماحول ختم کریں اور ایک بڑے سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔
ایک تجویز یہ دی جا رہی تھی کہ حکومت کو تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے استعفوں کی منظوری کے بجائے ان کو پارلیمنٹ میں واپس لانا ہوگا اور اسی بنیاد پر یہ حکومت اپنی مدت بھی پوری کرسکتی ہے۔ لیکن حکومت نے تحریک انصاف کی جانب سے عدم اعتماد کے ڈر کی بنیاد پر اب قومی اسمبلی کے گیارہ ارکان کے استعفوں کو منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ہے اور باقی ممبران کے ناموں پر انتظار کی پالیسی ہے۔ جس سے یقینی طور پر پہلے سے موجود سیاسی تلخی میں اضافہ ہوگا اور بات چیت کے امکانات بھی کم ہوں گے۔
حکمران اتحاد بڑی شدت سے الیکشن کمیشن پر زور دے رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے اگر فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو اس کا بڑا ردعمل حکمران اتحاد کی جانب سے دیکھنے کو ملے گا جو حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ ویسے بھی یہ سمجھنا کہ اس فارن فنڈنگ مقدمہ سے عمران خان کو نااہل اور ان کی پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہوسکتی ہے، اول یہ ممکن نہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نیا سیاسی پنڈورا کھولنے کا سبب بنے گا اور کئی دیگر جماعتیں بھی اس کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔