عدلیہ کی آزادی
عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ’’حوالے‘‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے
LONDON:
''عدلیہ کی آزادی'' کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتا ہے، یہ آزادی اُسی صورت ممکن ہوتی ہے جب غریب امیر میں تفریق کیے بغیر مقررہ وقت میں فیصلے کریں، ججز کی تعیناتیاں خالصتاً میرٹ اور آئینی پروسیجر کے مطابق ہوں، سیاسی مداخلت کسی صورت نہ ہو، نہ ہی ججز کے ساتھ سیاسی لوگوں کی وابستگیاں قائم ہوں اور نہ ہی سیاستدان یا دیگر ادارے اپنی اپنی فہرستیں تیار کریں کہ کس جج کو کس کورٹ کا حصہ بنایا جائے وغیرہ۔ ایسا اس لیے بھی ''جرم'' سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اُس شخصیت، اُس سیاسی جماعت یا اُس ادارے کا مرہون منت رہ کر کام کرے گا۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تعیناتی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
جس میں ججز کی تعیناتی تو نہ ہو سکی مگر اس بڑے ادارے میں ہونے والی تعیناتیوں پر سوال ضرور کھڑے ہوگئے۔ آگے چلنے سے پہلے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں عملی طور پر اکیلے چیف جسٹس کی طرف سے کی جانے والی ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر زیادہ لوگوں کو مشاورتی عمل میں شامل کر کے ایکCollegial پراسس کو متعارف کروایا گیا تھا۔
مقصد یہی تھا کہ کوئی بھی ایک شخص یا ادارہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ وہ اکیلا اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کر سکے یا ایسی تعیناتیوں کے عمل میں اثر انداز ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد قابل ترین شخص کو جج کے منصب پر اس طرح سے فائز کرنا تھا کہ وہ بغیر کسی بیرونی یا اندرونی دباؤ کے اپنے جوڈیشل مائنڈ کے مطابق غیر جانبداری سے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ اگر اس حوالے سے بات کی جائے کہ ''جوڈیشل کمیشن'' کن افراد پر مشتمل ہوگا تو یہ کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے دو سینئیر ترین جج، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نامزد کردہ ایک سینئر وکیل پر مشتمل تھا۔ پھر ہائیکورٹ میں بھی ججوں کی تعیناتی کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، متعلقہ ہائیکورٹ کے دو سینئر ترین جج، متعلقہ صوبائی وزیر قانون اور متعلقہ صوبائی بار کونسل کے نامزد کردہ ایک وکیل بھی مذکورہ کمیشن میں شامل کیے گئے۔
کمیشن کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ کثرت رائے سے خالی آسامیوں پر تعیناتی کے لیے ججوں کے نام منظور کرکے ''پارلیمانی کمیٹی'' کو بھجوائے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہونا تھی، اس آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار ارکان سینیٹ اور چار قومی اسمبلی سے شامل کیے گئے اور اس میں بھی حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمایندگی دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کا جائزہ لے کر انھیں منظور کرکے صدر مملکت کو بھجوانا یا مسترد کرنا پارلیمانی کمیٹی کے فرائض میں شامل کیا گیا۔
لیکن اس اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی مسئلہ جوں کا توں رہا اور پھر 19ویں ترمیم کے ذریعے اس میں مزید بہتری لائی گئی، مگر اب ایک بار پھر اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور یہ اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک سسٹم کو بہتر نہیں کیا جاتا۔ لہٰذابہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی کی طرز پر عدلیہ میں بھی تعیناتیاں کی جائیں،یعنی ججز کی کوالیفیکیشن اور میرٹ بالکل سی ایس پی افسران کی طرز پر ہونا چاہیے۔
جیسے ہی کوئی وکیل مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول جج بھرتی ہو، اُس کے بعد اُس کی 2سال کی ٹریننگ ہو، اس کے مطالعے اور مشاہدے اور نتیجہ نکالنے کا جائزہ لیا جائے اور اس کو بہتر بنایا جائے جس کے بعد وہ مقدمات سنے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اُس کی ترقی ہوتی رہے۔
اس وقت دنیا بھر کے ٹاپ رینکنگ عدالتی نظام جن میں سویڈن، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر ممالک میں ججز کی تعیناتی اور ترقی اسی طرز پر کی جاتی ہے، وہاں عدلیہ میں سیاسی عمل دخل تو بہت دور کی بات اس حوالے سے سوچنا بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباؤ رہتا تھا۔ اسی دباؤ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت اکثر درست نہیں ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔
جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ''بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں''، اس کتاب میں انھوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ''سیاسی ججز'' کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے۔
کیوں کہ عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ''حوالے'' کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ خیر انھی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔پھر ہمارے ہاںماتحت عدلیہ کے ججز کو تحفظ نہیں ملتا اس لیے وہ وکلاء اور قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں۔
لہٰذا اگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواء مقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کوئی نہیں کم و بیش 50لاکھ خاندان جڑے ہیں۔
''عدلیہ کی آزادی'' کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتا ہے، یہ آزادی اُسی صورت ممکن ہوتی ہے جب غریب امیر میں تفریق کیے بغیر مقررہ وقت میں فیصلے کریں، ججز کی تعیناتیاں خالصتاً میرٹ اور آئینی پروسیجر کے مطابق ہوں، سیاسی مداخلت کسی صورت نہ ہو، نہ ہی ججز کے ساتھ سیاسی لوگوں کی وابستگیاں قائم ہوں اور نہ ہی سیاستدان یا دیگر ادارے اپنی اپنی فہرستیں تیار کریں کہ کس جج کو کس کورٹ کا حصہ بنایا جائے وغیرہ۔ ایسا اس لیے بھی ''جرم'' سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اُس شخصیت، اُس سیاسی جماعت یا اُس ادارے کا مرہون منت رہ کر کام کرے گا۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تعیناتی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
جس میں ججز کی تعیناتی تو نہ ہو سکی مگر اس بڑے ادارے میں ہونے والی تعیناتیوں پر سوال ضرور کھڑے ہوگئے۔ آگے چلنے سے پہلے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں عملی طور پر اکیلے چیف جسٹس کی طرف سے کی جانے والی ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر زیادہ لوگوں کو مشاورتی عمل میں شامل کر کے ایکCollegial پراسس کو متعارف کروایا گیا تھا۔
مقصد یہی تھا کہ کوئی بھی ایک شخص یا ادارہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ وہ اکیلا اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کر سکے یا ایسی تعیناتیوں کے عمل میں اثر انداز ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد قابل ترین شخص کو جج کے منصب پر اس طرح سے فائز کرنا تھا کہ وہ بغیر کسی بیرونی یا اندرونی دباؤ کے اپنے جوڈیشل مائنڈ کے مطابق غیر جانبداری سے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ اگر اس حوالے سے بات کی جائے کہ ''جوڈیشل کمیشن'' کن افراد پر مشتمل ہوگا تو یہ کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے دو سینئیر ترین جج، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نامزد کردہ ایک سینئر وکیل پر مشتمل تھا۔ پھر ہائیکورٹ میں بھی ججوں کی تعیناتی کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، متعلقہ ہائیکورٹ کے دو سینئر ترین جج، متعلقہ صوبائی وزیر قانون اور متعلقہ صوبائی بار کونسل کے نامزد کردہ ایک وکیل بھی مذکورہ کمیشن میں شامل کیے گئے۔
کمیشن کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ کثرت رائے سے خالی آسامیوں پر تعیناتی کے لیے ججوں کے نام منظور کرکے ''پارلیمانی کمیٹی'' کو بھجوائے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہونا تھی، اس آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار ارکان سینیٹ اور چار قومی اسمبلی سے شامل کیے گئے اور اس میں بھی حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمایندگی دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کا جائزہ لے کر انھیں منظور کرکے صدر مملکت کو بھجوانا یا مسترد کرنا پارلیمانی کمیٹی کے فرائض میں شامل کیا گیا۔
لیکن اس اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی مسئلہ جوں کا توں رہا اور پھر 19ویں ترمیم کے ذریعے اس میں مزید بہتری لائی گئی، مگر اب ایک بار پھر اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور یہ اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک سسٹم کو بہتر نہیں کیا جاتا۔ لہٰذابہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی کی طرز پر عدلیہ میں بھی تعیناتیاں کی جائیں،یعنی ججز کی کوالیفیکیشن اور میرٹ بالکل سی ایس پی افسران کی طرز پر ہونا چاہیے۔
جیسے ہی کوئی وکیل مقابلے کا امتحان پاس کر کے سول جج بھرتی ہو، اُس کے بعد اُس کی 2سال کی ٹریننگ ہو، اس کے مطالعے اور مشاہدے اور نتیجہ نکالنے کا جائزہ لیا جائے اور اس کو بہتر بنایا جائے جس کے بعد وہ مقدمات سنے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اُس کی ترقی ہوتی رہے۔
اس وقت دنیا بھر کے ٹاپ رینکنگ عدالتی نظام جن میں سویڈن، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر ممالک میں ججز کی تعیناتی اور ترقی اسی طرز پر کی جاتی ہے، وہاں عدلیہ میں سیاسی عمل دخل تو بہت دور کی بات اس حوالے سے سوچنا بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباؤ رہتا تھا۔ اسی دباؤ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت اکثر درست نہیں ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔
جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ''بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں''، اس کتاب میں انھوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ''سیاسی ججز'' کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے۔
کیوں کہ عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ''حوالے'' کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ خیر انھی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔پھر ہمارے ہاںماتحت عدلیہ کے ججز کو تحفظ نہیں ملتا اس لیے وہ وکلاء اور قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں۔
لہٰذا اگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواء مقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کوئی نہیں کم و بیش 50لاکھ خاندان جڑے ہیں۔