روٹی نہیں تعلیم

بلوچستان میں حقیقی تبدیلی سیاسی شطرنج کی بساط بچھانے میں نہیں بلکہ تعلیم و تحقیق کی کہکشاں بکھیرنے میں ہے


بلوچستان کے عوام خیرات نہیں تعلیم اور روزگار چاہتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خادم پاکستان اپنے لاؤ لشکر سمیت خیمہ بستی میں اترے۔ ہٹو بچو کی صدائیں تھیں، نعرہ بازی کی گونج تھی، کیمروں کی چمک اور ٹوئٹس کی بھرمار۔ اس سارے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی میں ایک کمسن بچہ آگے بڑھتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے اور پرعزم انداز میں مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ حضور! مجھے اپنے گرے ہوئے گھر کےلیے چھت نہیں، پیٹ کےلیے روٹی نہیں بلکہ اپنے لیے تعلیم چاہیے۔

40 سیکنڈ کی اس ویڈیو نے پوری بلوچستان کا 75 برس کا المیہ بیان کردیا۔ وزیراعظم سر جھکائے سن رہے تھے، جبکہ ساتھ ہی کھڑے وزیراعلیٰ کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہورہے تھے۔ یہ ویڈیو میں نے بار بار دیکھی، روک روک کر الفاظ پر غور کیا، اور میں ان چالیس سیکنڈز میں سارا درد سمجھ گیا۔

اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میں نے بلوچستان کے محکمہ تعلیم سے رابطہ کیا اور ان سے اعداد و شمار لیے۔ محکمہ تعلیم کے ریکارڈ کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 12 ہزار 218 پرائمری اسکول ہیں۔ ان میں لڑکوں کے 8 ہزار 394 اور لڑکیوں کے 3 ہزار 140 اسکول ہیں، جبکہ کو ایجوکیشن کے 684 اسکول ہیں۔ صوبے میں مڈل اسکولوں کی تعداد ایک ہزار 519 ہے۔ ان میں لڑکوں کے 872، لڑکیوں کے 645 اور 2 کو ایجوکیشن کے مڈل اسکول ہیں۔ اصولاً ہر تین پرائمری اسکول کے مقابلے میں ایک مڈل اسکول ہونا چاہیے، لیکن بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں لڑکوں کے ہائی اسکولز کی تعداد 720 ہے۔ 403 ہائرسکینڈری اسکولوں میں سے لڑکوں کے 69، لڑکیوں کے 50 ہیں۔ ڈگری کالجز لڑکوں کے 30، لڑکیوں کے 17، انٹرمیڈیٹ کالجز لڑکوں کے 56 اور لڑکیوں کے 32 ہیں۔

غیر سرکاری اور عالمی اداروں کی چشم کشا رپورٹس کے مطابق 15 فیصد اسکول بالکل بند پڑے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی رپورٹس کے مطابق اس وقت صوبے میں 10 لاکھ 4 ہزار 242 بچے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا حال تو پرائمری، مڈل اور سیکنڈری سے بھی برا ہے۔ صوبے میں 7 سرکاری اور ایک نجی یونیورسٹی ہے جن میں صوبے کے 17 لاکھ نوجوانوں میں سے صرف 30 ہزار نوجوان یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں، جو کل نوجوانوں کے تین فیصد سے بھی کم ہے۔ اسکولز کی حد تک محکمہ تعلیم کا ریکارڈ تو مضبوط ہے مگر حیران کن طور پر کئی اسکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب بھی عالمی معیار تو درکنار پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ کئی مڈل اسکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کے مطابق بلوچستان کے 58 فیصد سرکاری اسکولوں میں محض ایک استاد تعینات ہے۔ یہی نہیں بلکہ صوبے میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گھوسٹ ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔

اس معصوم بچے نے درحقیقت ان 27 لاکھ بچوں کا مقدمہ پیش کیا جن میں سے 19 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے اکثر اضلاع میں لڑکوں میں شرح خواندگی 28 اعشاریہ 66 فیصد ہے، یعنی تقریباً 72 فیصد لڑکے اسکول نہیں جاتے جبکہ 83 فیصد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

آئین پاکستان کی دفعہ 25 اے کے مطابق پانچ سے سولہ سال کے ہر پاکستانی بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ ایک لمحے کو خود کو اس بچے کی جگہ رکھ کر سوچیے، جس کا گھر بار اجڑ گیا ہے، جس کے سارے خواب مٹیالے پانی کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ کیا ہمارے اندر اس بچے جتنا حوصلہ ہے؟ کیا وہ اعتماد ہم لا سکتے ہیں؟ آخر ہم سے کہاں غلطی ہوئی کہ اس بچے کو بھی اپنے صوبے کے حقیقی مسائل کا ادراک تھا مگر ہمارے حکمران 75 برسوں سے اس سے لاعلم تھے؟

آج وزیراعظم پاکستان نے معصوم بچے کی مفت تعلیم کا بندوبست تو کردیا مگر کیا وزیراعظم اور ان کے ساتھ کھڑے وزیراعلیٰ بلوچستان صوبے کے ان 19 لاکھ بچوں کا درد محسوس کریں گے؟ ان 10 ہزار گھوسٹ اساتذہ کی خبر لیں گے جو کراچی اور کوئٹہ میں ذاتی کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ صوبے کے بجٹ سے تنخواہ بھی لے رہے ہیں؟ کیا صرف ایک بچے کے سر پر ہاتھ کر ریاست اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجائے گی؟ کیا 75 برس کے زخم 40 سیکنڈ کی ویڈیو سے بھر جائیں گے؟

نہیں حضور! یہ زخم ایسے مندمل ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ 75 برس کی سسکیاں اور محرومیاں ایک فضائی یاترا سے خاموش ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ تاریکیاں آپ کی برق رفتاری سے مٹنے والی نہیں ہیں۔ ان دکھوں کا ازالہ سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔

محترم خادم پاکستان! سنا ہے کہ خدمت آپ کی سرشت میں شامل ہے۔ آگے بڑھیے اور سوشل میڈیا کی ویڈیوز سے زیادہ بلوچستان کے باسیوں کو سینے لگائیں۔ ان کے درد محسوس کیجئے، ان کے زخموں پر محبت کی مرہم لگائیے۔ ان کے مایوس چہروں پر رونق لائیے۔ ان کے گھروں کو علم کے دیوں سے روشن کیجئے۔ ان کی دہلیز تعلیم کے نور سے مزین کیجئے۔ تبھی ان کہساروں پر ستارے کھلیں گے، تبھی بلوچستان کے پہاڑوں سے فیض کے چشمے پھوٹیں گے، جن سے یہ پاک وطن سیراب ہوگا۔

حضور! صوبے کے معصوم بچے ہاتھوں میں قلم اٹھانا چاہتے ہیں، یہاں کے نوجوان ہنرمند بننا چاہتے ہیں۔ یہ میدان عمل میں آکر پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، مگر ہم نے انہیں کیا دیا؟ ہر تین برس بعد حکومت کی تبدیلی؟ سینیٹ میں نمائندگی اور اس نمائندگی کےلیے کروڑوں کی بولی؟ قومی اسمبلی کی نشستوں پر جوڑ توڑ؟ عالی مرتبت! بلوچستان میں حقیقی تبدیلی سیاسی شطرنج کی بساط بچھانے میں نہیں بلکہ تعلیم و تحقیق کی کہکشاں بکھیرنے میں ہے۔ جو بھی یہاں علم کی کرنیں بکھیرے گا یہ غیور بلوچ اسے اپنے سر پر بٹھائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں