کنٹرول روم سے رابطہ ختم ہونے کے بعد بھی گمشدہ طیارے کا انجن 4 گھنٹے تک چلتا رہا امریکی ماہرین
جب تک اُمید کی ذرا سی بھی کِرن باقی ہے لاپتہ طیارے کی تلاش جاری رکھی جائے گی، چینی وزیراعظم
ملائیشین ایئرلائن کے مسافر بردار طیارے کی گمشدگی کو 6 روز ہوگئے لیکن اب تک اس کا کوئی پتہ نہیں چل سکا جہاں اس واقعے نے جدید ٹیکنالوجی کے دعویداروں کو بھی حیران کرکے رکھ دیا ہے وہیں ہر گزرتے لمحے اس کی پراسراریت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم امریکی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے ہے گمشدہ طیارے کا کنٹرول روم سے آخری رابطہ ختم ہونے کے باوجود اس کا انجن 4 گھنٹے تک چلتا رہا۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ملائیشین ایئرلائنز کا طیارہ 239 مسافروں کو لے کر کوالالمپور سے بیجنگ کے لئے روانہ ہوا تو دوران سفر ویتنام کی سمندری حدود کے قریب اس کا رابطہ ائیرپورٹ ٹریفک سے ٹوٹ گیا۔ کئی گھنٹے بعد یہ باور کرلیا گیا کہ طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا ہے، اس سلسلے میں ملائیشیا، چین، ویتنام اور دیگر ملکوں کے ماہرین نے سمندر کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ گزشتہ 6 روز کے دوران طیارے کی تلاش کے لئے طیاروں اور جہازوں کے علاوہ مصنوعی سیاروں اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجی بھی استعمال کی گئی، اس کے ذریعے کچھ شواہد بھی ملنے کا دعوی کیا گیا لیکن جب نشاندہی والی جگہوں کا معائنہ کیا گیا تو وہاں کچھ بھی نہ ملا۔
وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ طیارے کی گمشدگی پر پراسراریت کی چادر گہری ہوتی جارہی ہے۔ مسافروں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کے موبائل فون اب بھی چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاپتہ طیارے میں ایسا بلیک بکس ہوتا ہے جو سمندر میں گرنے کے باوجود 30 روز تک اپنی موجودگی کے سگنل بھیجتا ہے لیکن یہ پہلا واقعہ ہے کہ بلیک بکس سے کوئی سنگل موصول ہی نہیں ہورہا۔ امریکی ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ ملائیشین ایئرلائن کے گمشدہ طیارے میں استعمال ہونے والے انجن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق طیارے کے انجن کنٹرول روم سے آخری رابطے ہونے کے 4 گھنٹے بعد بھی چلتے رہے جس کا مطلب یہ تھا کہ طیارہ بھی 4 گھنٹوں تک نامعلوم سمت پر پرواز کرتا رہا تھا۔
دوسری جانب چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے کہا ہے کہ جب تک اُمید کی ذرا سی بھی کِرن باقی ہے، لاپتہ طیارے کی تلاش جاری رکھی جائے گی اور اس کے لئے کسی بھی مشتبہ نشان کو نہیں چھوڑیں گے۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات ملائیشین ایئرلائنز کا طیارہ 239 مسافروں کو لے کر کوالالمپور سے بیجنگ کے لئے روانہ ہوا تو دوران سفر ویتنام کی سمندری حدود کے قریب اس کا رابطہ ائیرپورٹ ٹریفک سے ٹوٹ گیا۔ کئی گھنٹے بعد یہ باور کرلیا گیا کہ طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا ہے، اس سلسلے میں ملائیشیا، چین، ویتنام اور دیگر ملکوں کے ماہرین نے سمندر کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ گزشتہ 6 روز کے دوران طیارے کی تلاش کے لئے طیاروں اور جہازوں کے علاوہ مصنوعی سیاروں اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجی بھی استعمال کی گئی، اس کے ذریعے کچھ شواہد بھی ملنے کا دعوی کیا گیا لیکن جب نشاندہی والی جگہوں کا معائنہ کیا گیا تو وہاں کچھ بھی نہ ملا۔
وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ طیارے کی گمشدگی پر پراسراریت کی چادر گہری ہوتی جارہی ہے۔ مسافروں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کے موبائل فون اب بھی چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاپتہ طیارے میں ایسا بلیک بکس ہوتا ہے جو سمندر میں گرنے کے باوجود 30 روز تک اپنی موجودگی کے سگنل بھیجتا ہے لیکن یہ پہلا واقعہ ہے کہ بلیک بکس سے کوئی سنگل موصول ہی نہیں ہورہا۔ امریکی ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ ملائیشین ایئرلائن کے گمشدہ طیارے میں استعمال ہونے والے انجن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق طیارے کے انجن کنٹرول روم سے آخری رابطے ہونے کے 4 گھنٹے بعد بھی چلتے رہے جس کا مطلب یہ تھا کہ طیارہ بھی 4 گھنٹوں تک نامعلوم سمت پر پرواز کرتا رہا تھا۔
دوسری جانب چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے کہا ہے کہ جب تک اُمید کی ذرا سی بھی کِرن باقی ہے، لاپتہ طیارے کی تلاش جاری رکھی جائے گی اور اس کے لئے کسی بھی مشتبہ نشان کو نہیں چھوڑیں گے۔