بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جائے

ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے

ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

MADRID:
وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم مل کر سروے کرے، متاثرین کو رہائش ، خوراک اور علاج کی تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں۔

وفاقی حکومت ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں میں صوبائی حکومتوں کی بھرپور مدد کرے گی ، انھوں نے یہ ہدایت گزشتہ روز خشنوب خیمہ بستی قلعہ سیف اللہ بلوچستان کے دورے کے موقعے پر کی۔

صوبہ بلوچستان اس وقت بارشوں کے نتیجے میں شدید مشکلات سے دوچار ہے، ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر ہیں۔ خلق خدا دکھ اور تکلیف سے دوچار ہیں ، گھر ، مال مویشی ، سب سیلابی ریلوں کی نظر ہوچکے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے مناظر دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف کا مسلسل دوسری بار بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ اور متاثرہ عوام سے ملاقاتیں، وفاقی حکومت کی جانب سے متاثرین سیلاب کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے بڑا قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔

شدید بارشوں کے نتیجے میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے کئی اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن صوبائی حکومتوں کے پاس اٹھارہویں ترمیم کے بعد فنڈز کی وافر موجودگی کے باوجود سیلاب زدگان اور متاثرین بارش جو کہ کھلے آسمان تلے یا خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں، ان کو ابتدائی طور پر کھانا تک فراہم نہ کرنا ، افسوس ناک امر ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومتیں اور ان کے کرتا دھرتا افراد وفاق کے خلاف باتیں کرتے ہیں لیکن اپنے اپنے صوبوں کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر قطعی طور پر توجہ نہیں دیتے، یہ ایک منفی طرز عمل ہے۔ ہر صوبائی حکومت کے پاس ان گنت محکمے اور ہزاروں سیکڑوں ملازمین موجود ہیں ، لیکن وہ فعال نہیں ہیں، اسی لیے عوام کی مشکلات کئی گنا بڑھ چکی ہیں ، اپنی ناقص کارکردگی کی پردہ پوشی کرنے کی غرض سے وفاق کے خلاف باتیں کرنا کس طور درست عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوام ، دکھ ، مصیبت اور تکلیف سے دوچار ہیں ، صوبائی حکومتوں پر اولین ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو جنگی بنیادوں پر ریلیف فراہم کریں۔

ملک میں شدید بارشوں کے موسم میں برسنے والا پانی اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے سے بہنے والا پانی بھی ذخیرہ نہیں کیا جاتا ، حکومت نے اب کچھ ڈیم بنانے کی طرف توجہ تو دی ہے لیکن ان کی تعمیر کے لیے ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔ زیر زمین پانی بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے آنے والے پانی پر ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لیے پانچ ہزارکیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو اب کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکا ہے۔

اگلے کچھ برسوں تک پانی کی فی کس مقدار 750 کیوبک میٹر تک ہونے کا خطرہ ہے جس سے پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا،جو پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرنے کے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات موجود نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً دس بڑے شہر 65 فیصد سے زیادہ گندے پانی کا اخراج کرتے ہیں، جس میں سے صرف 8فیصد پانی کو ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے،جب کہ باقی پانی دریاؤں میں بہہ کر ضایع ہو جاتا ہے۔


ملک کی آبادی 22کروڑ سے زائد ہے اور ملک میں پانی کی صورت حال کے پیش نظر شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ اس وقت تمام ترقیاتی منصوبے جو ابھی بن رہے ہیں سب کو روک کر صرف ڈیم بنانے پر توجہ دی جائے، ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔

اپنوں کے ستم اور کوتاہ نظری نے وطن عزیز کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مٹی کی بھرائی کرکے تعمیر کیا گیا ڈیم یعنی تربیلا ڈیم بنانے والے ملک میں ساٹھ کی دہائی کے بعد کوئی قابل ذکرکثیرالمقاصد ڈیم نہ بنا سکے۔ دنیا کا سب سے بڑا کینال سسٹم رکھنے والے پاکستان کی زرعی پیداوار گھٹتی چلی گئی اور کوئی نیند سے نہ جاگا۔ کسی نے سندھ طاس معاہدے کی فائل کو غفلت کی کوٹھڑی سے باہر نہ نکالا۔ ہماری اس طویل مجرمانہ نیند کا فائدہ بھارت نے اٹھا لیا۔ بھارت چھوٹے بڑے ڈیم بناتا رہا اور ہم پانی پر سیاست سے باز نہ آسکے۔ ہمارے پلوں کے نیچے سے پانی بہہ گیا، مستقبل تاریک ہوتا چلاگیا ، پانی اور بجلی کی کمی کا عفریت ہمیں نگلنے کو تیار ہوگیا اور ہم ، میں نہ مانوں کی تکرارمیں الجھے رہے۔

مہنگے داموں ٹینکر خرید کر، بہتے پسینے کے ساتھ لائنوں میں لگ کرذلت سہہ کرگلی محلوں میں لگے نلکوں سے پانی کے کنستر اور بالٹیاں بھرتی قوم کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ پاکستان کا میٹروپولیٹن سٹی کراچی، جس کی سڑکیں کبھی پانی سے دھو دھلا کرصاف کی جاتی تھیں آج وہاں کے اکثر رہائشی علاقوں میں پانی ناپید ہے۔

عید، شادی بیاہ ہو یا غم کا کوئی موقع کراچی کے لوگ سب سے پہلے پانی کا ٹینکر پکڑنے بھاگتے ہیں، کیونکہ حکومتوں اور واٹر بورڈ کی نااہلی سے یہ شہر پانی کے بدترین بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ بلدیاتی اداروں، واٹر بورڈ کے کرپٹ عناصر اور ٹینکر مافیا کے گٹھ جوڑ نے غیر قانونی ہائیڈرینٹس اور پانی چوری کرنے کا ایسا منظم اور گھناؤنا جال بچھایا ہے جس نے شہرِ قائد کے باسیوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایسا راتوں رات تو نہیں ہوا۔ کافی عرصے کی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی نے اس معاملے کو اس سنگین نہج تک پہنچایا ہے کہ لوگوں کی جیبوں پر پانی خریدنے کا اضافی بوجھ متواتر پڑ رہا ہے۔

دنیا بھر میں اب ڈیم تعمیر کرنے کے بجائے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے قدرت کے فطری اصول استعمال کیے جارہے ہیں۔ کھربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والے ڈیم محض 10سے 20 سال میں اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں، ان میں ریت جمع ہوجاتی ہے اور ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں تربیلا ڈیم کا یہی حال ہوا ہے۔اس مسئلے کا متبادل یا حل صرف اور صرف پانی کی بہترین انتظام کاری ہے جس کی بنیاد قدرتی طریقوں پر ہو۔ اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کوئی ڈیم موجود نہیں ہے مگر وہ زراعت میں دنیا کا لیڈر بنا ہوا ہے۔ صحرا میں سبزی اگا رہا ہے اور یورپ اور مشرق وسطیٰ تک کو بیچ رہا ہے۔پانی کی انتظام کاری اور ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ دریاؤں کو بہنے دیا جائے۔ قدرت نے پانی جمع کرنے کا نظام دریاؤں کے اردگرد خود وضع کر رکھا ہے۔ جب دریا میں پانی بڑھتا ہے اور یہ پانی دریا کے کناروں سے چھلک کر بہتا ہے تو کشش ثقل اسے کھینچتی ہے، وہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے۔

جذب ہونے کے مرحلے میں یہ گھاس، مٹی اور ریت کے بیچ سے گزرتا ہے، یہ پانی کے چھاننے کا قدرتی عمل ہے۔ تمام گندگی اور غلاظت اوپر رہ جاتی ہے اور صاف پانی زمین کے اندر چلاجاتا ہے۔اس پانی پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی اس لیے کوئی جرثومہ بھی چلاجائے تو وہ بھی مرجاتا ہے۔

تمام جراثیم ختم ہوجاتے ہیں اور پانی ایک دم صاف و شفاف ہوجاتا ہے۔ دریا سے بہتے پانی کو نکلنے کا موقع دیں تاکہ یہ صاف وشفاف پانی زیرِ زمین جذب ہوسکے۔ 3 سے 4 کلومیٹر دائیں بائیں جو پانی ذخیرہ ہوسکے گا، وہ تقریباً 3 ہزار ملین ایکڑ فٹ ہوگا۔ جی ہاں یہ دریائے سندھ ہی کی بات ہے۔ ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے۔

آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، اس طرح ہمیں ہر 10 سالوں میں تربیلا کے سائز کا ایک ڈیم چاہیے ۔آبی پالیسیوں کے علاوہ ہمیں وفاقی اور صوبائی واٹر کمیشنز کی بھی ضرورت ہے تاکہ تمام سطحوں پر آبی وسائل کے موثر انتظام و انصرام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھیتوں، شہروں اور صنعتوں میں پانی کے موثر استعمال کو بھی فروغ دینا ہوگا ، مگر سب سے پہلے ہمیں پہلے قدم اٹھاتے ہوئے مون سون کے اضافی پانی کو اسٹور کرنے کے لیے نیا ڈیم بنانا ہوگا، فوری اور جنگی بنیادوں پر۔
Load Next Story