پھول سے بچوں پر تشدد کیوں

صرف حبیب جالب کے شعر گنگنانے سے انقلاب نہیں آتا انقلاب لانے کے لئے حضرت عمر ؓ کے کردار کی بھی ضرورت ہے۔


ضمیر آفاقی March 13, 2014
صرف حبیب جالب کے شعر گنگنانے سے انقلاب نہیں آتا انقلاب لانے کے لئے حضرت عمر ؓ کے کردار کی بھی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

آپ کو پاکستانی معاشرے میں ہر طرح کی برائیاں نظر آئیں گی المیہ تو یہ ہے کہ یہاں برائی کو برائی سمجھا بھی نہیں جاتا اور مانا بھی نہیں جاتا، جب کسی معاشرئے کا عمومی رویہ ایسا بن جائے تو وہاں اصلاح کی کیا صورت ہو سکتی اس پر دانشور خاموش ہیں؟ ہر پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش کے بعد کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ ابھی فطرت انسان سے مایوس نہیں ہوئی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اس کا اطلاق پاکستانی معاشرے پر بھی ہوتا ہے جو اپنی ساکھ میں ایک عجیب طرح کے گھمنڈ میں مبتلا ہے جس کا گناہ اور ثواب کا تصور بھی خود ساختہ ہے ۔

یہ عجیب معاشرہ ہے جہاں انسان نیکی کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے یہاں کے شہری خالص غذا کھانے سے بدہضمی کاشکار ہو جاتے ہیں اور خالص علم سے ان کا ذہنی پارہ چڑھ جاتا ہے ، اب یہی دیکھ لیجیے پاکستان کے اندر بچوں پر ہونے ولا تشدد کس نوعیت کا ہے گھروں میں کام کرنے والے بچے اور بچیاں کس اذیت کا شکار ہیں ان کے ساتھ ''مالکان'' کیسا رویہ روا رکھتے ہیں ان کی پھو ل جیسی معصومیت کس طرح خار دار بن جاتی ہے یہاں تک کہ تشدد کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں نہ صرف عام ہیں بلکہ مقدمات بھی درج ہیں ،مگر نتیجہ کیا؟ بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کو کچھ قسمت کا کیا دھرا قرار دے کر کھو کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم لوگ اٹھتے بیٹھتے کورس کی شکل میں یورپ اور امریکا کو گالی دینا عین ثواب سمجھتے ہیں ،ہمارئے کچھ ''کالم نگار'' ساتھیوں کے بس میں ہو تو وہ امریکا یورپ جیسے ممالک کا گھان بچہ کولہو کرنے میں ایک منٹ نہ لگائیں اور ان کا دانہ پانی بند کر دیں ،مگر قدرت کسی کی خواہشوں کی تابع نہیں ہے ، کیونکہ فطرت کا اصول تو ایک ہی ہے کہ جو معاشرہ اہل اخلاقی طور پر آگے اور فطرت کے قوانین کی پابندی کرے گا وہی ترقی کرے گا۔

https://img.express.pk/media/images/Violence/Violence.webp

ہمارے یہاں یورپ کی بے راہ روی کی بات اس طرح کی جاتی ہے جیسے ہم اس معاشرے کا حصہ رہ چکے ہیں ، جبکہ جس معاشرے کا ہم لوگ حصہ ہیں اور جو کچھ اس معاشرے میں ہو رہا ہے اس کی مثال تو دنیا کے کسی چھوٹے سے ملک میں بھی نہیں ملتی، ہر صاحب ثروت کے گھر میں معصوم بچے اور بچیاں بے گار بھگت رہے ہیں ،اگر آپ کو ان بچوں کے ساتھ کئے گئے ظلم کی شکلیں دیکھنی ہوں تو بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں یا ''چائلڈ رائٹ موومنٹ'' کی رپورٹوں میں ملاحظہ فرمائی جاسکتیں ہیں کہ کس طرح یہ مہذ ب معاشرہ انسانی سطح سے گر کر ان معصوموں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے،جسمانی تشدد،زیادتی سے لیکر قتل تک کر دیا جاتا ہے،بلکہ اب تو صوبائی محتسب کا ادارہ بھی بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد سے واقف ہوتا جارہا ہے جہاں بچوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک شعبہ بنایا گیا ہے جس کے انچارج ایک نہایت ہی شریف النفس انسان جاوید نثار جن کی ساری زندگی فارن سروس میں گزری اور مہذب دنیا کے معاملات اور طریقہ کار سے واقف ہیں بہت پر عزم ہیں کہ وہ بچوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کو ختم کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیں ،دیکھیں کیا ہوتا ہے ظلم ختم ہوتا ہے یا یہ شعبہ؟

المیہ تو یہ بھی ہے کہ اس ضمن میں ریاست بھی اتنی ہی مجرم ہے جتنا یہ معاشرہ، گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک کوئی قانوں سازی ہی نہیں ہو سکی۔ دولت کے نشے میںبد مست افراد اور گھرانے مختلف حیلوں بہانوں سے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہتے ہیں مگر ہمارے ''اصلاح کارلکھاری'' معصوم اور بے زر بچوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کبھی قلم نہیں اٹھاتے جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ غریب ہیں اور امیر گھرانے کے غلام ہیں،کیا ہماری غلامی ختم نہیں ہو چکی تھی ،لیکن آج بھی پاکستان یہ معصوم بچے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کو بھی غلامی کی اس رسم کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کرنی چاہے اور معصوم جانوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں انصاف فراہم کرنا چاہے،صرف حبیب جالب کے شعر گنگنانے سے انقلاب نہیں آتا انقلاب لانے کے لئے حضرت عمر ؓ کے کردار کی بھی ضرورت ہے۔

بچوں پر ہونے والے تشدد کے ان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر بھی بیرونی دنیا کے لوگ ہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں اس ضمن میں ایک آن لائن اخبار اردو ٹائم میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے رپورٹ نظر سے گزری جسے پڑھیں اور ہو سکے تو اس پر نظر ثانی بھی کریں۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں طبی ماہرین نے گزشتہ 20 برس کی تحقیق سے یہ بات واضح کی ہے کہ بچوں کو جسمانی سزا دینا انہیں مستقبل میں ترقی کرنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق کے مطابق بچوں کی جسمانی سزا ان کی نشوونما پر تو اثر انداز ہوتی ہی ہے، ساتھ میں انہیں زیادہ جارح مزاج بھی بنا دیتی ہے جو کہ انہیں معاشرے کیخلاف رویہ اپنانے پر مجبور کرتی ہے۔

یونیورسٹی آف مینی ٹوبا کے ڈپارٹمنٹ آف فیملی سوشل سائنسز کے ڈاکٹر جان ڈرنٹ اور مشرقی اونتاریو کے چلڈرن اسپتال کے ڈاکٹر ران اینسم کے مطابق بچوں کی جسمانی سزا انہیں ان کے والدین، دوست احباب اور عام لوگوں کیخلاف جارح مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا انہوں نے والدین کو بچوں کو جسمانی سزا کو ترک کرنے پر زور دیا ہے، انہوں نے بتایا کہ جسمانی سزا بعض دماغی بیماریوں کا بھی باعث بنتی ہے. ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی جسمانی سزا انہیں بے راہ روی، منشیات نوشی اور شراب نوشی کا سبب بن کر ان کے مستقبل کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق فزیشن اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ والدین کو مثبت رویہ اپنانے اور بچوں کو جسمانی سزا نہ دینے کی طرف راغب کریں۔ جبکہ والدین اور استائذہ کو بھی بچوں کو بھی آگاہی فراہم کی جانی چاہے کہ وہ بچوں پر تشدد کو کسی بھی صورت روا نہ رکھیں۔

ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم دہشت گردی اور تشدد کے پیچھے بھی بچوں کے ساتھ بچپن میں روا رکھے تشدد کو قرار دیا جا سکتا ہے ،یہ سب سوچنا ہمارا کام ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے کو یونہی جہنم کی آگ میں جلتا دیکھنا چاہتے ہیں یا اسے نخلستان بنانا چاہئے ہیں، اور ا س کے لئے ہمیں اپنے روئیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے بچوں کو بھی انسان سمجھنا ہو گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں