عدالتی نظام پر قانون سازی

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد نئی بحث شروع ہوئی ہے

tauceeph@gmail.com

حکمراں اتحاد نے عدالتی اصلاحات کا فیصلہ کر لیا۔ قومی اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے بنچ تشکیل دینے اور ازخود نوٹس لینے کے اختیارات پر قانون سازی کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں بحث ہوگی۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے 2005ء میں میثاقِ جمہوریت میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی شق شامل تھی۔ سینیٹر رضا ربانی نے اس شق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' یہ وفاقی آئینی عدالت آئین سے متعلق مقدمات کا فیصلہ کرے گی اور سپریم کورٹ معمول کے مطابق سول اور فوجداری مقدمات میں انصاف فراہم کرے گی۔''جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے والا متنازعہ قانون Provisional Constitution Order (P.C.O) نافذ کیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی جنرل پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں میں شامل تھے مگر جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری نے 2007ء میں جنرل پرویز مشرف حکومت کی ہدایات کو نظر انداز کرنا شروع کیا۔ آرمی ہاؤس میں جنرل پرویز مشرف نے افتخار چوہدری کو اسٹیل ملز کو نجی تحویل میں دینے کے مقدمات میں حکومتی اقدام کو مسترد نہ کرنے کی ہدایت کی تھی مگر افتخار چوہدری اسٹیل ملز کی فروخت کو غیر قانونی قرار دے کر معتوب ہوئے اور اپنے عہدہ سے ہٹا دیے گئے ، جس پر وکلاء کی تحریک شروع ہوئی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس تحریک کی حمایت کی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری کا مؤقف تبدیل ہوا مگر میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کے ہمراہ اس تحریک کی حمایت میں لانگ مارچ پر مجبور ہوئے تھے۔

جسٹس افتخار چوہدری بحال ہوئے اور میثاق جمہوریت کی اس شق پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا۔ پارلیمنٹ میں 2010ء میں 18ویں ترمیم پر اتفاق ہوا تو اس ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے موثر کردار کی شق بنادی گئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس شق کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو غیر موثر بنانے کا فیصلہ دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر پارلیمنٹ نے آئین میں 19ویں ترمیم منظور کی تھی اور پارلیمانی کمیٹی کا کردار علامتی ہوگیا تھا۔

برطانوی ہند دور میں آئی ایس پی افسروں میں سے کچھ کو مجسٹریٹ اور جج مقرر کیا جاتا تھا۔ برسر اقتدار حکومتیں پروفیشنل وکلاء کو جج مقرر کیا کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رشید کو نئی سپریم کورٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت بنگال کے سابق چیف جسٹس اکرم سب سے سینئر ترین جج تھے۔ ملک کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد بنگال سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو اہم عہدہ دینے کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے ملکہ برطانیہ کو عرضداشت بھیجی کہ برطانوی عدالت کے کسی جج کو پاکستان بھیجا جائے۔


جسٹس اکرم ایک خود دار اور با وقار شخص تھے' انھیں کسی انگریز کی سربراہی میں فرائض انجام دینے میں توہین اور ذلت محسوس ہوتی تھی۔ جسٹس اکرم نے رضاکارانہ طور پر چیف جسٹس کے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ کی تاریخ میں اہم آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنچ بنائی جاتی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب عدالت عظمیٰ میں پہلی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے اسمبلی تحلیل کرنے کے گورنر جنرل کے فیصلہ کو چیلنج کیا تھا تو اس مقدمہ کی سماعت عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں نے کی تھی۔ یہی روایت بعد میں بھی برقرار رہی۔ جسٹس حمود الرحمن کی قیادت میں فل کورٹ بنچ بنا تھا۔

اس بنچ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ کے بنچ میں تمام ججوں کو شامل کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی قیادت میں ججوں کی سینیارٹی کو نظرانداز کرنے اور انھیں مختلف ہائی کورٹ میں بھیجنے کے خلاف حاذق الخیری ایڈووکیٹ کی عرضداشت کی سماعت فل کورٹ نے کی تھی۔ یہ مقدمہ الجہاد ٹرسٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سینیارٹی کا اصول طے ہوا۔ اسی فیصلہ کا شکار خود جسٹس سجاد علی شاہ بھی ہوئے۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے والے جسٹس مقبول باقر کا یہ بیانیہ تھا کہ 63-A کے حوالے سے آئین کو Re-write کرنے کی تباہ کاری شروع ہوچکی ہے۔ ریٹائرڈ جج صاحب نے مزید کہا تھا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ 63-A کے مقدمات میں فل کورٹ بنانے میں کسی کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ انھوں نے یہ رائے بھی دی کہ 63-A پر نظرثانی سمیت تمام متعلقہ مقدمات کو یکجا کر کے فل کورٹ بنایا جائے۔

وکیلوں کے سب سے بڑے فورم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 6 سابق صدور نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت مقدمات کی سماعت فل کورٹ کو کرنی چاہیے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائر ہونے والے جج کا کہنا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے یہ روایت قائم ہوئی ہے کہ کوئی سینئر جج کسی بنچ کا حصہ ہو اور ایک جونیئر کسی بنچ کی سربراہی کررہا ہو۔

وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ہائی کورٹس میں اگر کسی حساس مقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ میں ایسے جج صاحب شامل ہوں جن کے بارے میں چیف جسٹس صاحب کو تحفظات ہوں تو معزز چیف جسٹس انتظامی اختیارات کو بروئے کار لا کر ان جج صاحب کو کسی سرکٹ بنچ میں بھیج دیتے ہیں یوں وہ بنچ ٹوٹ جاتا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد نئی بحث شروع ہوئی ہے۔ عدلیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ انتظامیہ نے عدلیہ پر بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وکلاء کی جدوجہد ججوں کے جرات مندانہ فیصلوں ، سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی کی کوششوں سے عدلیہ کی آزادی کا تصور حقائق سے کچھ قریب ہوا ہے، یوں اس اہم مسئلہ پر قانون سازی سے پہلے وکلاء تنظیموں، سول سوسائٹی، قانون کے اساتذہ، ریٹائرڈ ججوں اور حاضر جج صاحبان سے رائے طلب کرنی چاہیے اور اس طرح کی ترمیم ہونی چاہیے کہ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کریں اور کوئی ادارہ دوسرے ادارے پر بالادستی حاصل نہ کرسکے۔
Load Next Story