موسمیاتی تبدیلیاں ایک سنجیدہ مسئلہ
ہزاروں سال سے جاری موسموں میں تغیرکے آثار نمایاں ہیں اور سائنسدان اس حوالے سے پریشان ہیں
لاہور:
آج سے قریباً دس سال قبل میرے ساتھی رپورٹر افتخار فردوس نے پہلی مرتبہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات کی۔ پہلے پہل تو سمجھ ہی نہیں آئی پھر افتی نے جو ماشاء اللہ اب ایک بہت ہی مشہور اور مستند صحافی بن چکے ہیں موٹا موٹا سمجھایا۔ ایلی نینو کی بات کی اور کہا کہ دنیا کا موسم آہستہ آہستہ بدل رہا ہے۔
ہزاروں سال سے جاری موسموں میں تغیرکے آثار نمایاں ہیں اور سائنسدان اس حوالے سے پریشان ہیں اور ان کی ایک بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ انسان نے قدرتی ماحول کو انتہائی گرم بنا دیا ہے جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
بتدریج مختلف علاقوں کے موسم درجہ بہ درجہ تبدیل ہوتے جائیں گے۔ گرمی بھی کافی تیز ہو گی اور سردی بھی۔ بارشیں زیادہ ہوں گی اور دھوپ کی سختی کے باعث ہمارے گلیشیئر پگھل جائیں گے۔ موسم کی تبدیلی سے ہماری فصلیں بھی متاثر ہوں گی اور پھل بھی اور بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے یہ موسمی تبدیلیاں شروع ہوں گی پھر آہستہ آہستہ افتی کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق تبدیلیاں ظہور پذیر ہونا شروع ہو گئیں۔ لیکن 2022 کے آغاز سے جو جو پلٹی موسم نے کھائی وہ عجیب ہی تھی اور پریشان کن۔ سردیاں کڑاکے کے ساتھ گزریں۔ ابھی سردیاں نکلیں کہ گرمی شروع ہو گئی۔
بہار کا موسم بیچ میں سے غائب ہو گیا۔ ساون کے اثرات مئی سے شروع ہوئے پسینے جو پہلے اگست اور جولائی میں آتے تھے۔ اب کی بار مئی سے شروع ہوئے۔ محکمہ موسمیات نے بھی ایک لمبے مون سون کی پیشن گوئی کی۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ اتنی بارشیں ہوئیں کہ کراچی جیسا شہر ڈوب گیا اور بلوچستان میں جو تباہی آئی اللہ کی پناہ۔ ہر جگہ پانی ہی پانی۔ اب تک صرف بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے 140 کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
ہزاردوں مویشی بھی مر گئے جب کہ سرکاری اراضی املاک کو ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ جب یہ بارشیں اور سیلاب خطرناک رخ اختیار کر رہی تھیں اس وقت حکومت اور حزب مخالف کی جماعتیں اقتدار کے کھیل میں مصروف تھیں۔ کراچی ڈوبنے کا تو بڑا واویلا ہوا ۔ سندھ حکومت پر بھی تنقید ہوئی حالانکہ کئی جگہوں پر 24 گھنٹوں میں 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جو کراچی کی تاریخ کی تباہ کن بارشوں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن اس دوران بلوچستان جو اصل میں ڈوب رہا تھا کسی کو اس کی فکر بھی نہیں ہوئی۔
ایک ماہ قبل بلوچستان کے چلغوزوں کے جنگلات میں آگ بھڑک اتھی تھی تو اس وقت بھی وفاقی حکومت اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے میں مصروف تھی اور پی ٹی آئی کو اپنا پرانا اقتدار یاد آرہا تھا۔ جب حکومت نے ایکشن لیا تو بہت دیر ہو چکی تھی ہمیں ہمسایہ ملک ایران کی مدد بھی لینا پڑی۔ اس وقت ملک کے دوسرے حصوں خصوصاً پختونخوا کے جنگلات میں بھی آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے تھے لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ اچانک پاکستان کے مختلف علاقوں کے جنگلات میں آگ کیوں بڑھک اٹھی۔ بلوچستان ڈوب رہا تھا اور ملک میں سیاست سیاست کھیلی جا رہی تھی۔
اس سے پہلے پختونخوا کے جنوبی اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی سیلاب نے تباہی مچائی۔ دیر کے علاقے تیمرگرہ میں گاڑیوں کی پانی میں بہنے والی ویڈیو تو کافی مشہور بھی ہوئی۔ لیکن نہ حکومت نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اس کو سنجیدگی سے لیا ۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں بشمول سوشل میڈیا کے جنگجوؤں کو اس وقت خیال آیا جب بلوچستان کے قوم پرستوں نے اس معاملے کو بطور شکوہ اٹھانا شوع کر دیا۔
وہ منظر دکھاتے گئے جب لوگوں کے گھر پانی میں اور ان کے مویشی، بچوں اور دیگر املاک سمیت بہہ رہے تھے۔ تصویر وہ لرزانے والی تھی جب ایک باپ چار بچوں کی کیچڑ میں لت پت لاشوں کے ساتھ افسردہ کھڑا تھا۔ پھر سیلاب نے پنجاب کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔یہاں پر انڈیا سے بغیر اطلاع چھوڑے جانے والے پانی نے بھی کافی کام خراب کیا۔
ہر سال مون سون میں ہندوستان اپنا اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے جو فصلوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ زمین کے کٹاؤ اور املاک کو نقصان کا بھی باعث بنتا ہے۔ لیکن ہر سال اربوں کا نقصان پہنچنے کے باوجود بھی ہمارا ملک اس مسئلہ کا توڑ نہیں کر سکا نہ ہی اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا۔ اب کی بار سیلاب نے فصلوں اور کھیتوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔