’’تھوڑی سی‘‘ منی لانڈرنگ
جعلی حلف نامہ جمع کرانے والے لیڈر کو صادق اور امین کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
LOS ANGELES:
آٹھ برس کا صبر آزما مرحلہ، میڈیا کے سیکڑوں گھنٹوں کے ٹاک شوز، پریس کانفرنسز میں ہزاروں سوالات اور درجنوں سماعتوں کے بعد بالآخر ایک دہائی سے امانت و دیانت کا بنایا گیا بت کرچی کرچی ہوگیا۔ میرے جیسے کروڑوں پاکستانی سوچ و بچار میں ہیں کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کو صداقت اور دیانت کا کوہ ہمالیہ سمجھ رکھا تھا مگر وہ بھی دیگر جماعتوں کی طرح ہمارے خوابوں اور امیدوں کو چکنا چور کرگئی۔
کم و بیش چھ برس سے ہمیں صادق اور امین کا جو سبق پڑھایا گیا، نتیجہ اس کے برعکس کیوں نکلا؟ جب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا، کئی سوالات ہیں جن سے پیچھا چھڑوانا مشکل ہے۔ کیا چیئرمین تحریک انصاف نے عوام سے جھوٹ بولا؟ لاکھوں ڈالرز کی فنڈنگ عوام سے اور الیکشن کمیشن سے کیوں چھپائی رکھی؟ جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اگلی منزل کیا ہوسکتی ہے؟ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے؟ کیا تحریک انصاف اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے؟ کیا عوامی مقبولیت کی حامل جماعت کو تحلیل کرنا آسان ہوگا؟
اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کو کئی مشکلات اور قانونی پگڈنڈیوں کو پار کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھیجتے ہوئے ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بتایا جارہا ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس عموماً تین مراحل پر طے ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن نے پہلا مرحلہ یعنی فنڈنگ کی تحقیقات مکمل کیں۔ قانون کے تحت اب حکومت یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھیج کر تحریک انصاف کو تحلیل کرنے یا پارٹی پر پابندی کی سفارش کرے گی، جس کے بعد عدالت تحقیقات کا جائزہ لے گی اور تحریک انصاف کے خاتمے کا فیصلہ دے گی، جس کے بعد اس کے تمام ممبران کی رکنیت ختم ہوجائے گی۔ چیئرمین تحریک انصاف اور تمام ممبران چار برس کےلیے نااہل ہوجائیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں جعلی حلف نامہ جمع کرانے پر بھی نااہل ہوسکتے ہیں۔
تحریک انصاف اس معاملے کےلیے اسلام آباد ہائیکورٹ پر انحصار کررہی ہے۔ اس وقت تک سامنے آنے والے بیانات کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کو تسلیم کرچکی ہے اور اب عدالت میں تکنیکی نکات کا سہارا لے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تکنیکی نکات پی ٹی آئی کو کس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
حکومتی مشینری بھی کئی گھنٹوں سے سر جوڑے بیٹھی غور کررہی ہے کہ اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت کو کیسے کنارے لگایا جائے؟ الیکشن کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں قانون کی عملداری کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ الیکشن کمیشن نے ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دیا ہے جب چاروں جانب ایک بار پھر عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جس کے پاس ہر دلیل کے جواب میں دلیل ہیں۔ جس کی نظر میں بددیانتی تو ہوئی ہے مگر یہ بددیانتی تو محض چند کروڑ ڈالرز کی ہے۔ جو سونے کے پیالوں میں رکھا زہر بھی خوشی سے پینے کو تیار ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو تحقیق اور تدبر سے نا آشنا ہے، جو فہم و فراست سے مبرا ہے۔ جس کے ذہن میں صرف ایک بات ڈال دی ہے اور وہ ہے کہ عمران خان ہی اس ملک کا نجات دہندہ ہے اور وہ یہی سمجھ کر ہر جرم پر پردہ ڈالے جاتے ہیں۔ وہ پارٹی ترجمانوں کی ہر بات کو وظیفہ سمجھ کر اس کا پرچار کرتا ہے۔
اس سارے عمل میں امتحان چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، وفاقی حکومت اور حکومتی جماعتوں کا ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے ہینڈل کرتی ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی موجودہ عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے قانون کی عملداری سے پیچھے ہٹ جائیں گی یا ماضی کی طرح تمام نتائج کی پروا کیے بغیر 'بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق' کی مثال بنیں گی۔
ابھی تحریک انصاف کے خلاف کیس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، جس کے متبادل متعدد بیانیے دیے گئے ہیں، مگر بیانیوں کی اس دوڑ میں مقبولیت کی معراج پر آئین و قانون پہنچے گا یا اونچی آوازیں قانون کی بولتی بند کردیں گی؟
میں اس وقت ہٹلر کے پروپیگنڈہ ماڈل اور میجک بولٹ تھیوری کے گرداب میں پھنسی ہوں، کیونکہ اس وقت جھوٹ اس تواتر سے بولا جارہا ہے کہ سچ محسوس ہورہا ہے اور تحریک انصاف کا بیانیہ، کانوں میں رس گھولنے والے نعرے، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ٹوئٹس، بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز کی چیخ و پکار کے ذریعے قوم کو ایک بار پھر سونے کے اوراق میں زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک لیڈر جو ٹی وی پر بیٹھ کر اعلان کرتا ہے کہ میں نے پارٹی کے قرض اتارنے کےلیے جوا کھیلا، وہ لیڈر خود کہتا ہے کہ میرے دوست نے تھوڑی سی منی لانڈرنگ کی ہے اور کوئی قیامت تو نہیں آگئی، جو لیڈر جعلی حلف نامہ جمع کرانے کے بعد خود کہے کہ اس نے جعل سازی کی، اس لیڈر کو کیسے صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیسے اس کے پیروکار اس کی ہر تسلیم شدہ غلطی کا دفاع کرسکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے حکومت اور عدالتیں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک میں دیانت دار قیادت لائی جاسکے اور اس ملک میں بسنے والے، اس ملک میں اقتدار میں آسکیں۔ الیکشن کمیشن کا فریضہ ہے کہ وہ محض تحریک انصاف کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی فائلیں بند نہ کردے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کا کچا چٹھا بھی عوام کے سامنے رکھے تاکہ عوام کو پتا چل سکے کون سی سیاسی جماعت پاکستان کےلیے کام کرتی ہے اور کس سیاسی جماعت کو بیرون ملک سے فنڈنگ مل رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آٹھ برس کا صبر آزما مرحلہ، میڈیا کے سیکڑوں گھنٹوں کے ٹاک شوز، پریس کانفرنسز میں ہزاروں سوالات اور درجنوں سماعتوں کے بعد بالآخر ایک دہائی سے امانت و دیانت کا بنایا گیا بت کرچی کرچی ہوگیا۔ میرے جیسے کروڑوں پاکستانی سوچ و بچار میں ہیں کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کو صداقت اور دیانت کا کوہ ہمالیہ سمجھ رکھا تھا مگر وہ بھی دیگر جماعتوں کی طرح ہمارے خوابوں اور امیدوں کو چکنا چور کرگئی۔
کم و بیش چھ برس سے ہمیں صادق اور امین کا جو سبق پڑھایا گیا، نتیجہ اس کے برعکس کیوں نکلا؟ جب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا، کئی سوالات ہیں جن سے پیچھا چھڑوانا مشکل ہے۔ کیا چیئرمین تحریک انصاف نے عوام سے جھوٹ بولا؟ لاکھوں ڈالرز کی فنڈنگ عوام سے اور الیکشن کمیشن سے کیوں چھپائی رکھی؟ جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اگلی منزل کیا ہوسکتی ہے؟ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے؟ کیا تحریک انصاف اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے؟ کیا عوامی مقبولیت کی حامل جماعت کو تحلیل کرنا آسان ہوگا؟
اس وقت سابق وزیراعظم عمران خان کو کئی مشکلات اور قانونی پگڈنڈیوں کو پار کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھیجتے ہوئے ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بتایا جارہا ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس عموماً تین مراحل پر طے ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن نے پہلا مرحلہ یعنی فنڈنگ کی تحقیقات مکمل کیں۔ قانون کے تحت اب حکومت یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھیج کر تحریک انصاف کو تحلیل کرنے یا پارٹی پر پابندی کی سفارش کرے گی، جس کے بعد عدالت تحقیقات کا جائزہ لے گی اور تحریک انصاف کے خاتمے کا فیصلہ دے گی، جس کے بعد اس کے تمام ممبران کی رکنیت ختم ہوجائے گی۔ چیئرمین تحریک انصاف اور تمام ممبران چار برس کےلیے نااہل ہوجائیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں جعلی حلف نامہ جمع کرانے پر بھی نااہل ہوسکتے ہیں۔
تحریک انصاف اس معاملے کےلیے اسلام آباد ہائیکورٹ پر انحصار کررہی ہے۔ اس وقت تک سامنے آنے والے بیانات کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کو تسلیم کرچکی ہے اور اب عدالت میں تکنیکی نکات کا سہارا لے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تکنیکی نکات پی ٹی آئی کو کس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
حکومتی مشینری بھی کئی گھنٹوں سے سر جوڑے بیٹھی غور کررہی ہے کہ اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت کو کیسے کنارے لگایا جائے؟ الیکشن کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں قانون کی عملداری کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ الیکشن کمیشن نے ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دیا ہے جب چاروں جانب ایک بار پھر عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جس کے پاس ہر دلیل کے جواب میں دلیل ہیں۔ جس کی نظر میں بددیانتی تو ہوئی ہے مگر یہ بددیانتی تو محض چند کروڑ ڈالرز کی ہے۔ جو سونے کے پیالوں میں رکھا زہر بھی خوشی سے پینے کو تیار ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو تحقیق اور تدبر سے نا آشنا ہے، جو فہم و فراست سے مبرا ہے۔ جس کے ذہن میں صرف ایک بات ڈال دی ہے اور وہ ہے کہ عمران خان ہی اس ملک کا نجات دہندہ ہے اور وہ یہی سمجھ کر ہر جرم پر پردہ ڈالے جاتے ہیں۔ وہ پارٹی ترجمانوں کی ہر بات کو وظیفہ سمجھ کر اس کا پرچار کرتا ہے۔
اس سارے عمل میں امتحان چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، وفاقی حکومت اور حکومتی جماعتوں کا ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے ہینڈل کرتی ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی موجودہ عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے قانون کی عملداری سے پیچھے ہٹ جائیں گی یا ماضی کی طرح تمام نتائج کی پروا کیے بغیر 'بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق' کی مثال بنیں گی۔
ابھی تحریک انصاف کے خلاف کیس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، جس کے متبادل متعدد بیانیے دیے گئے ہیں، مگر بیانیوں کی اس دوڑ میں مقبولیت کی معراج پر آئین و قانون پہنچے گا یا اونچی آوازیں قانون کی بولتی بند کردیں گی؟
میں اس وقت ہٹلر کے پروپیگنڈہ ماڈل اور میجک بولٹ تھیوری کے گرداب میں پھنسی ہوں، کیونکہ اس وقت جھوٹ اس تواتر سے بولا جارہا ہے کہ سچ محسوس ہورہا ہے اور تحریک انصاف کا بیانیہ، کانوں میں رس گھولنے والے نعرے، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ٹوئٹس، بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز کی چیخ و پکار کے ذریعے قوم کو ایک بار پھر سونے کے اوراق میں زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک لیڈر جو ٹی وی پر بیٹھ کر اعلان کرتا ہے کہ میں نے پارٹی کے قرض اتارنے کےلیے جوا کھیلا، وہ لیڈر خود کہتا ہے کہ میرے دوست نے تھوڑی سی منی لانڈرنگ کی ہے اور کوئی قیامت تو نہیں آگئی، جو لیڈر جعلی حلف نامہ جمع کرانے کے بعد خود کہے کہ اس نے جعل سازی کی، اس لیڈر کو کیسے صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیسے اس کے پیروکار اس کی ہر تسلیم شدہ غلطی کا دفاع کرسکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے حکومت اور عدالتیں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک میں دیانت دار قیادت لائی جاسکے اور اس ملک میں بسنے والے، اس ملک میں اقتدار میں آسکیں۔ الیکشن کمیشن کا فریضہ ہے کہ وہ محض تحریک انصاف کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی فائلیں بند نہ کردے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کا کچا چٹھا بھی عوام کے سامنے رکھے تاکہ عوام کو پتا چل سکے کون سی سیاسی جماعت پاکستان کےلیے کام کرتی ہے اور کس سیاسی جماعت کو بیرون ملک سے فنڈنگ مل رہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔