اب کسی کو ہماری ضرورت نہیں ہے
بیتے 75 سال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیات، خوشحالی اکثر و بیشتر دوسروں کے مسائل کی مرہون منت رہی ہے
SWABI:
خاتون خانہ گھر میں بے چینی سے ٹہل رہی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ اتنے میں ان کے شوہر جو گاؤں کی مسجد کے امام ہیں، گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہے۔ وہ آتے ہی یوں گویا ہوتے ہیں۔
''خوش ہوجاؤ اللہ کی بندی، گاؤں کا چوہدری مرگیا ہے۔ اب مجھے اتنے پیسے مل جائیں گے جس سے ہم اپنی بیٹی کو اس کی بیٹی کی پیدائش پر تحفے دے سکیں گے۔''
یعنی اگر چوہدری نہ فوت ہوتا تو مولوی صاحب کے مسائل جوں کے توں رہتے۔
پی ٹی وی کے معروف ڈرامے ''ست بھرائی'' کا یہ منظر وطن عزیز کی گزشتہ 75 سالہ حالت زار کا عکاس ہے۔ بیتے 75 سال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیات، خوشحالی اکثر و بیشتر دوسروں کے مسائل کی مرہون منت رہی ہے۔
مثال کے طور پر 60 کی دہائی میں ہم نے سیٹو، سینٹو جیسے معاہدوں کی بدولت مزے لوٹے۔ 80 کی دہائی میں افغان جنگ ہمارے لیے نعمت خداوندی ثابت ہوئی اور بڑوں کی بہترین حکمت عملی کی بدولت ہم پر ڈالروں کی بارش ہوئی۔ اور پھر اس سے پہلے کہ ہم پریشان ہوتے اور آئی ایم ایف ہمیں ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کرتا، اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی 9/11 ہمارے لیے لاٹری ثابت ہوا۔
ایک بار پھر ڈالروں کی برسات ہوئی۔ اس بار تو ہمارے پڑھے لکھے وزیراعظم شوکت عزیز نے کمال کردیا۔ انہوں نے آنے والوں ڈالروں کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا سارا قرضہ اتار دیا اور ہم نے شاید تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد ہوکر دنیا کو حیران کردیا۔
اور اب 2022 میں نہ 9/11 ہے، نہ افغان وار۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی بھی ہوچکی ہے، دنیا امن کی طرف لوٹ چکی ہے۔ ہمارے قریب ترین کسی ایسی جنگ کا امکان بھی نہیں جہاں ہماری خدمات کی ضرورت ہو۔ اور اس پر افسوس یہ کہ بدلتے وقت کے ساتھ ہم نے خود کو حالات کے دھارے کے مطابق تبدیل نہیں کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ روپیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تنزلی کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ان کی بڑھوتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ہمارے وزیر داخلہ کے بقول بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ناک سے لکیریں نکلوانے کے باوجود قرضوں کا حصول نہیں ہوسکا۔
ہم اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو امریکا بہادر سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ہماری سفارش کرے۔ ہمارے سابق وزیراعظم بارہا اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم سری لنکا بننے جارہے ہیں، یعنی وہ وقت دور نہیں جب ہم کنگال ہوجائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہم میثاق معیشت پر متحد ہوجائیں۔ ہم باہمی اختلافات بھلاکر وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کےلیے اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ اب دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا جس کی وجہ سے ہم پر ڈالروں کی بارش ہو، دنیا کو ہماری ضرورت پڑجائے، دنیا میں ایسا کچھ ہوجائے کہ ہم ان سے ڈالروں کے بارے میں ڈو مور کا مطالبہ کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا اب معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے ہماری بقا اسی میں ہے ہم مردار سوچ کو ترک کردیں، خواب غفلت سے جاگ جائیں اور جو کام ہم نے سری لنکا بننے کے بعد کرنے ہیں وہ ابھی سے کرلیں۔
مثال کے طور پر اگر ہم ڈیفالٹ کرگئے تو ہم امپورٹس زیرو کردیں گے۔ کیوں نہ ابھی سے زیرو کردیں۔ اگر ہم ڈیفالٹ کرگئے تو مفت خوروں کےلیے مفت پٹرول کی سہولت ختم ہوجائے گی۔ کیوں نہ ابھی سے ختم کردی جائے۔ اسی طرح عوام کےلیے پٹرول کی راشننگ کردی جائے، اس سے پہلے کہ ہم مجبور ہو کر یہ کام کریں، ابھی سے یہ کام کرلیا جائے۔ غیر ضروری سفارتی مشنز، سفارت خانے، سفارت خانوں میں غیر ضروری سفارشی عملہ، اداروں سے اضافی سفارشی عملے کا بوجھ، کرپٹ عناصر کا خاتمہ وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جو ابھی سے کرلیے جائیں تو ہم یقینی ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں، بصورت دیگر ہماری ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خاتون خانہ گھر میں بے چینی سے ٹہل رہی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ اتنے میں ان کے شوہر جو گاؤں کی مسجد کے امام ہیں، گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہے۔ وہ آتے ہی یوں گویا ہوتے ہیں۔
''خوش ہوجاؤ اللہ کی بندی، گاؤں کا چوہدری مرگیا ہے۔ اب مجھے اتنے پیسے مل جائیں گے جس سے ہم اپنی بیٹی کو اس کی بیٹی کی پیدائش پر تحفے دے سکیں گے۔''
یعنی اگر چوہدری نہ فوت ہوتا تو مولوی صاحب کے مسائل جوں کے توں رہتے۔
پی ٹی وی کے معروف ڈرامے ''ست بھرائی'' کا یہ منظر وطن عزیز کی گزشتہ 75 سالہ حالت زار کا عکاس ہے۔ بیتے 75 سال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیات، خوشحالی اکثر و بیشتر دوسروں کے مسائل کی مرہون منت رہی ہے۔
مثال کے طور پر 60 کی دہائی میں ہم نے سیٹو، سینٹو جیسے معاہدوں کی بدولت مزے لوٹے۔ 80 کی دہائی میں افغان جنگ ہمارے لیے نعمت خداوندی ثابت ہوئی اور بڑوں کی بہترین حکمت عملی کی بدولت ہم پر ڈالروں کی بارش ہوئی۔ اور پھر اس سے پہلے کہ ہم پریشان ہوتے اور آئی ایم ایف ہمیں ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کرتا، اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی 9/11 ہمارے لیے لاٹری ثابت ہوا۔
ایک بار پھر ڈالروں کی برسات ہوئی۔ اس بار تو ہمارے پڑھے لکھے وزیراعظم شوکت عزیز نے کمال کردیا۔ انہوں نے آنے والوں ڈالروں کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا سارا قرضہ اتار دیا اور ہم نے شاید تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد ہوکر دنیا کو حیران کردیا۔
اور اب 2022 میں نہ 9/11 ہے، نہ افغان وار۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی بھی ہوچکی ہے، دنیا امن کی طرف لوٹ چکی ہے۔ ہمارے قریب ترین کسی ایسی جنگ کا امکان بھی نہیں جہاں ہماری خدمات کی ضرورت ہو۔ اور اس پر افسوس یہ کہ بدلتے وقت کے ساتھ ہم نے خود کو حالات کے دھارے کے مطابق تبدیل نہیں کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ روپیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تنزلی کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ان کی بڑھوتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ہمارے وزیر داخلہ کے بقول بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ناک سے لکیریں نکلوانے کے باوجود قرضوں کا حصول نہیں ہوسکا۔
ہم اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو امریکا بہادر سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ہماری سفارش کرے۔ ہمارے سابق وزیراعظم بارہا اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم سری لنکا بننے جارہے ہیں، یعنی وہ وقت دور نہیں جب ہم کنگال ہوجائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہم میثاق معیشت پر متحد ہوجائیں۔ ہم باہمی اختلافات بھلاکر وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کےلیے اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ اب دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا جس کی وجہ سے ہم پر ڈالروں کی بارش ہو، دنیا کو ہماری ضرورت پڑجائے، دنیا میں ایسا کچھ ہوجائے کہ ہم ان سے ڈالروں کے بارے میں ڈو مور کا مطالبہ کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا اب معاشی بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے ہماری بقا اسی میں ہے ہم مردار سوچ کو ترک کردیں، خواب غفلت سے جاگ جائیں اور جو کام ہم نے سری لنکا بننے کے بعد کرنے ہیں وہ ابھی سے کرلیں۔
مثال کے طور پر اگر ہم ڈیفالٹ کرگئے تو ہم امپورٹس زیرو کردیں گے۔ کیوں نہ ابھی سے زیرو کردیں۔ اگر ہم ڈیفالٹ کرگئے تو مفت خوروں کےلیے مفت پٹرول کی سہولت ختم ہوجائے گی۔ کیوں نہ ابھی سے ختم کردی جائے۔ اسی طرح عوام کےلیے پٹرول کی راشننگ کردی جائے، اس سے پہلے کہ ہم مجبور ہو کر یہ کام کریں، ابھی سے یہ کام کرلیا جائے۔ غیر ضروری سفارتی مشنز، سفارت خانے، سفارت خانوں میں غیر ضروری سفارشی عملہ، اداروں سے اضافی سفارشی عملے کا بوجھ، کرپٹ عناصر کا خاتمہ وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جو ابھی سے کرلیے جائیں تو ہم یقینی ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں، بصورت دیگر ہماری ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔