تہذیب کی موت
جام ساقی کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ حالانکہ جام ساقی نے تھر کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں عوامی ٹریکٹر نما ٹرک پر سفر کیا
صحرائے تھر کا ایک حصہ چولستان ہے اور دوسرا حصہ جو اس کے پار ہے وہ بھارت میں ہے، دنیا کا یہ واحد خوبصورت ریگستان ہے جو برسات کے بعد کیکٹس کے پھولوں، سرسوں کے پھولوں اور طرح طرح کے خوشبودار جنگلی بوٹیوں سے مہک جاتا ہے۔ جا بجا مور ناچتے ہیں، دور دور تک صحرا چمنستان نظر آتا ہے۔ یہ وہ واحد زرخیز ریگستان ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں اسی لیے یہاں کے بسنے والے صدیاں گزر گئیں اس کی مٹی کے وفادار ہیں۔ یہاں کے لوگ باران رحمت پہ گزارا کرتے ہیں اپنی فصل لگاتے ہیں اور زندگی کے دن کاٹتے ہیں۔ عمرکوٹ سے لے کر ڈیپلو، چھاچھڑ، اسلام کوٹ، ننگر پارکر کو اگر کسی نے ترقی دی تو وہ 1944ء تک یہاں کے انتظامی امور کے نگراں سر ویلیم نیپیئر تھے۔ اب عمرکوٹ الگ ضلع ہے اور 5 قصبوں پر مشتمل تھرپارکر ہے مٹھی اس کا صدر مقام ہے۔ فی الوقت سندھ 23 اضلاع پر مشتمل ہے ان میں سے ایک تھرپارکر ہے مگر ترقی کے نام پر اس پر کام نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ سندھ کا حکمراں طبقہ اس خطے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ جب گھٹائیں اٹھتی ہیں تو پھر تھر کے باسی دست دعا اٹھاتے ہیں۔ یہاں کی آبادی 30 لاکھ نفوس کے قریب ہے جو محض ایک اندازہ ہے کیونکہ یہاں مردم شماری نام کی کوئی چیز صحیح معنوں میں نہیں ہوئی۔
1965ء تک یہاں کی آبادی 15 لاکھ کے قریب تھی مگر 65 اور 71 کی جنگوں نے سرحدی علاقے کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ مگر یہاں ماضی میں آبادی کا تناسب ہندو مسلم میں تقریباً برابر ہی تھا مگر اب ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے کچھ کم ہے۔ مگر کسی قسم کی مذہبی کشیدگی نہیں۔ رواداری یہاں کے لوگوں کا زیور ہے جس میں مصلحت نہیں بلکہ محبت فاتح ہے۔ گو کہ یہاں کے لوگ طویل بارڈر پر رہائش پذیر ہیں مگر بے روزگاری سے تنگ لوگ اگر چاہتے تو سرحدی علاقے سے اسمگلنگ اور حشیش کا کام کر کے زر کثیر کما سکتے تھے یہاں کے دیہاتی مویشی پالتے ہیں، گھریلو دستکاری، لوہار اور زراعت کا کام کر کے پیسہ کماتے ہیں یہ لوگ فاقہ کشی اور افلاس سے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر جرائم میں مبتلا نہیں ہیں۔ ورنہ ان کے لیے کیا کمی تھی کہ ہمارے ملک کے جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ اشتراک کرتے اور صحرا میں اپنی کمین گاہیں بناتے۔ یہ صاحب کردار لوگ پاکستان کی سرزمین کا سرمایہ ہیں۔ یہ لوگ نہایت سادہ اور بھولے ہیں۔ اس علاقے کے ایک لیڈر جام ساقی جو 1969ء میں سندھ این ایس ایف کے صدر تھے اور پیپلز پارٹی کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا تھا ان کا تمام علاقے میں زبردست کام تھا یہاں تک کہ میرپور خاص تک ان کا نام تھا۔ انھوں نے یہاں سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور بڑی مضبوط پوزیشن تھی ان کی ۔
مجھے یاد ہے میں انتخاب سے 3 روز پہلے میرپور خاص میں تھا معلوم ہوا کہ جام ساقی آنے والے ہیں بس اسٹاپ پر طلبا کی بڑی تعداد اور عوام سڑک کے دونوں جانب بینر لیے کھڑے تھے۔ شام کا وقت تھا جام ساقی اپنے دوستوں کے ہمراہ بس اسٹاپ پر بس سے اترے پورا ماحول جام ساقی ہاری لیڈر کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ طلبا نعرے لگا رہے تھے نعرہ سندھ۔۔۔۔جئے سندھ ، ہاری حقدار ہاری حقدار، جمہوریت زندہ باد، ایشیا سرخ ہے مگر جیسے ہی جام ساقی بس سے اترے طلبا کے نعروں کے ساتھ عوامی نعروں کی گونج کم ہوتی گئی اور عام آدمیوں نے آپس میں سندھی میں جو باتیں شروع کیں ان کا مطلب کچھ یوں تھا کہ یہ آدمی تو خود بس سے اترا ہے مسکین غریب ماڑوں، اس کے پاس تو خود کچھ نہیں تو ہم کو کیا دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس مجمعے میں ہر دس گز پر دو تین آدمیوں نے یہ افواہ چلائی ہو اور رفتہ رفتہ پولنگ کے دن تک جام ساقی کی پوزیشن کمزور ہوتی گئی۔ انتخاب کے نتائج جب آئے تو رانا چندر سنگھ وہاں کا روایتی وڈیرہ تھوڑے ووٹوں سے کامیاب ہو گیا۔
جام ساقی کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ حالانکہ جام ساقی نے تھر کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں عوامی ٹریکٹر نما ٹرک پر سفر کیا۔ جنھیں ان دنوں صحرائے تھر میں سفر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اس کو مقامی زبان میں کیکڑا کہتے ہیں۔ جام ساقی کے اہل خانہ کو اس انتخاب کی قیمت یوں ادا کرنی پڑی کہ ان کا ایک نوزائیدہ بیٹا اور بیوی افلاس کی موت کا شکار ہوئے۔ افسوس اس قوم کی کم علمی اور تعلیم کی کمی چناؤ کا سلیقہ دینے سے قاصر ہے۔ اس جمہوری نظام کی کڑیاں کبھی بھی غریب عوام کو صحیح نمایندوں تک نہیں لے جا سکتیں اور اب تو حالات اس قدر غلیظ ہو گئے ہیں کہ غریب آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ بھلا کرے بی بی شہید بے نظیر کا جنھوں نے جام ساقی کی قربانیوں کے عوض اپنی حکومت کے آخری دنوں میں وقتی طور پر جام ساقی کو مشیر کا درجہ دے دیا تھا، جو آج کل شدید علیل ہیں۔ غرض تھر کو حاکموں نے لوٹ کا مال سمجھا ہے، وہاں کے مور مر رہے تھے، جانور نقل مکانی کر کے بھارت کے صحرا کا رخ کر رہے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے یہ معاملہ چل رہا تھا مگر کسی حاکم یا این جی او نے ہوش کے ناخن نہ لیے۔
یہ علاقہ تو وڈیروں کی شکار گاہ ہے۔ رات بھر ڈھول بجا کر ہرن کو جگایا جاتا ہے صبح وہ جھوم رہا ہوتا ہے تو پھر ان کو ہاتھ سے پکڑنا یا جال ڈال کر پکڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ وہاں کی این جی اوز بھی رقم بٹورنے میں مصروف ہیں۔ ایک زمانے میں پرویز مشرف کے دور میں جاوید جبار کی بانہہ بیلی کا شور تھا کہ وہ کنوئیں کھدوا رہی ہے لگتا ہے کہ یہ نمائشی کنوئیں بھی ختم ہو گئے یا ان کا پانی این جی اوز پی گئیں۔ ویسے تو سارے پاکستان کے عوام ہی تھر جیسے ہیں لہٰذا ان پر زور زبردستی سے قابو پانا بڑا آسان ہے اس کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ لیاری کا علاقہ دو گروپوں کی لڑائی میں ایسا ہو گیا ہے کہ وہاں سے نقل مکانی ہر روز ہو رہی ہے۔ انسانوں کی انسانوں کے ساتھ بے رحمی کی یہ ایک مثال ہے۔ دوسری مثال گندم ایکسپورٹ ہو رہا ہے پھل ایکسپورٹ ہو رہے ہیں مگر انسان بھوک اور افلاس کی لعنت سے مر رہے ہیں اور اس کو آسمانی بیماری کا نام دیا جا رہا ہے۔ سرحدیں ملی ہوئی ہیں ایسا تھوڑی ہے کہ بھارتی صحرا میں ایسا کیوں نہ ہوا، یہ کیسا وائرس، بیکٹریا، پروٹوزا ہے کہ جو پاکستان پر حملہ آور ہے۔
سندھ کے قوم پرستو! تم کہاں ہو، کیا تمہارے ہرن، مور، پرند، چرند سندھ ماتا کے ''باز'' نہیں ۔صرف خشک زمین کا ماتم کرنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔یہ سب زمین کی اولاد ہیں یہ گھاس پھوس، یہ ڈھور یہ ڈنگر، یہ ندی یہ نالے، یہ جوہڑ، یہ بن مرغیاں، یہ مارخور اور دیگر ذی حیات اور بے حیات کوئلہ، گرینائٹ دیگر معدنیات پر ہماری نظر ہے اور اس زمین کے رکھوالوں کی دربدری پر ہماری نظر نہیں۔ موئن جو دڑو کی تہذیب پر رقص تو ہوا مگر رقص گریا جو ننگر پارکر، مٹھی، ڈیپلو، چھاچھڑو اور ان سے ملحقہ علاقوں میں جاری ہے اس کا مداوا کون کرے گا۔ تھر کے لوگ جس طرح زمین کی خوراک بن رہے ہیں درحقیقت اپنی تہذیب کی موت مر رہے ہیں۔ شرافت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کیونکہ نہ یہ لٹیرے ہیں نہ دہشت گرد۔ آج سے پہلے تاریخ کا کوئی ورق موجود نہیں پہلے بھیل کولہیوں کو سیلاب نے ڈبویا تو انھوں نے صحرا میں پناہ لی اور اب صحرا میں خشک سالی جان لیوا بن گئی ان کی زبان کوئی سمجھ نہیں رہا ہے۔ اعلانات اعانت کے ہو رہے ہیں
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
(غالب)