اقدارکی فتح
ماہ اگست کی ابتدائی تاریخوں میں جاپان کے بدن پر امریکا نے دو ایٹمی زخم لگائے تھے
کراچی:
مختلف ترقی یافتہ ملکوں کی مہیب جنگی طاقت نے قوموں کو عظمت کے خبط میں مبتلا کر دیا ہے اور ان میں سب سے آگے امریکا ہے جسے فتوحات کا ایسا شوق ہے کہ اس کے اپنے دانشور، ادیب، صحافی حد تو یہ ہے کہ بعض جرنیل اس شوق سے خوفزدہ ہیں۔ ایک سابق امریکی جرنیل نے اپنے طور پر عراق میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیق کے بعد اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ''اب اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ عراق میں امریکی انتظامیہ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اس غیر انسانی سلوک اور ایذا دہی کے احکامات جاری کیے ان کا احتساب ہوگا یا نہیں؟''
ایک سابق فوجی جرنیل کے اس اعلان کے بعد کئی دوسرے امریکی فوجی افسروں کے نام سامنے آئے جنھوں نے امریکی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی اقدام سے انکار کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں نکولس ڈی کرسٹوف نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکی قوم کو ایک '' ٹروتھ کمیشن'' کی ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکے کہ ''حب وطن'' کے نام پر اسے جھوٹی کہانیاں سنائی گئیں اور بے گناہ افراد کو عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکا دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کا محکمہ دفاع جمہوریت، آئین اور قانون کی موجودگی کے باوجود اپنی سی کر جاتا ہے اور آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا صرف امریکیوں کو ہی نہیں دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو ہے۔ ایسے میں ہم اگر یہ توقع رکھیں تو یہ محض ہماری خوش فہمی ہوگی کہ امریکا میں یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں سچ جاننے کے لیے کوئی کمیشن تشکیل پائے گا۔
ایسے میں ان افراد کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جو ادب، صحافت، قانون یا فنون لطیفہ سے وابستہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل نہ ہوں، صحافت اور قانون کو صرف روزی کمانے کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوں اور جن کے خیال میں فنون لطیفہ سے ان کی وابستگی محض شہرت اور دولت کے لیے نہ ہو، وہ خود کو اپنے سامنے اور اپنے چاہنے والوں کے سامنے جواب دہ محسوس کرتے ہوں۔
ماہ اگست کی ابتدائی تاریخوں میں جاپان کے بدن پر امریکا نے دو ایٹمی زخم لگائے تھے۔ جاپانی اس تباہی و بربادی سے یوں نبرد آزما ہوئے کہ ان شہروں میں جانے والے سیاحوں کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا کہ اخباروں اور تاریخ کی کتابوں میں انھوں نے کیا ان ہی شہروں کی خاکستر ہونے والی عمارتیں اور تباہ ہو جانے والے اسکول، میوزیم اور لائبریریاں دیکھی تھیں؟ دوسری جنگ عظیم کے دوران صرف ہیروشیما اور ناگاساکی ہی نہیں سارا جاپان تہس نہس ہو گیا تھا لیکن اپنے شہنشاہ کے حکم پر جاپانی قوم کمر کس کر اپنی تعمیر نو میں جٹ گئی۔
اس کام میں وہاں صرف انجینئروں اور مزدوروں نے ہی حصہ نہیں لیا ،بلکہ باغوں میں کھرپی سے کیاریاں ٹھیک کرنے والے مالی بھی اس کام میں شریک تھے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ملک کے ادیب، شاعر اور مصور کسی ملک کی تعمیر نو میں کوئی خاص حصہ نہیں لے سکتے، لیکن اس کے ادیبوں نے بھی اپنی قوم کے شعور کو بے دار کرنے کے ساتھ ہی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
جاپانیوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں امریکیوں نے جو کیا وہ یقینا بہت ظالمانہ تھا لیکن اس سے پہلے جاپانی بھی اپنے ارد گرد کے ملکوں میں بہت ستم کر چکے تھے۔ شاید آپ کی نظروں سے اس ''معذرت '' کی خبر گزری ہو جو جاپانیوں نے کوریا سے اور خاص طور سے کوریا کی خواتین سے کی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ظلم کی کیچڑ سے ہم سب کے دامن داغ دار ہیں لیکن جاپانی ادیبوں نے اپنی قوم کو اپنی حکومتوں کی غلطیوں سے آگاہ کرنے کے لیے بھی بڑا کام کیا۔ کوئی قوم ماضی کی اپنی غلطیوں اور اپنے مظالم کا شعوری طور پر ادراک رکھے تب ہی وہ اپنے مستقبل کو درست خطوط پر استوار کرسکتی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ جاپانی شاعر اور ادیب جن کو 1994 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اپنے ملک میں اور ساری دنیا میں اس کا احترام کیا جاتا ہے، اس دوران یہ ہوا کہ جاپان صرف ایک عظیم صنعتی طاقت ہی نہیں بنا بلکہ اس کے اعلیٰ طبقات کے سینے میں یہ خواہش بھی پرورش پانے لگی کہ ان کی قوم ایک اہم فوجی قوت بھی بنے۔ مشکل یہ ہے کہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جاپان کا آئین ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مرتب ہوا اور جس میں جاپانیوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ کبھی جنگ میں ملوث نہیں ہوں گے۔ نوبل انعام یافتہ ادیب کینزا بورواوئے کا ایک مضمون شایع ہوا جس میں وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایٹمی زخم کھانے کے 65 برس بعد اس کا ملک کیا اپنی اخلاقی ذمے داریاں ادا کر رہا ہے؟
اصل قصہ یہ ہے کہ امریکا نے مشرقی ایشیا میں جو فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں ان میں سے ایک جاپان کے شہر اوکی ناوا میں ہے۔ یہ اس خطے میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈوں میں سے ایک ہے۔ جاپانی شہری اول تو اس بات کو اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر اس طاقت کے فوجی اڈے ہوں جس کے ہاتھوں ان کے لاکھوں شہری چشم زدن میں بھاپ بن کر اڑ گئے تھے اور لاکھوں نے ناقابل بیان اذیتیں سہیں۔ یہ سلسلہ اب تک ختم نہیں ہوا ہے اور ایٹمی حملے کا شکار ہونے والوں کی دوسری اور تیسری نسل بھی عذابوں سے دوچار ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے اس بارے میں احتجاج کر رہے ہیں کہ اوکی ناوا سے یہ امریکی فوجی اڈا ہٹا کر کہیں اور لے جایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اڈے کے ارد گرد گنجان شہری آبادی ہے اور کسی بھی قسم کا اتفاقی حادثہ شہریوں کی جان و مال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اب سے دو دہائیاں پہلے امریکی اور جاپانی حکومتوں نے شہریوں کی اس تشویش کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اوکی ناوا سے یہ فوجی اڈا ہٹا لیا جائے گا لیکن یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔ یکے بعد دیگرے کئی جاپانی وزرائے اعظم اپنے لوگوں سے اس وعدے کو دہراتے رہے ہیں کہ اس اڈے کو شہر کے مضافات میں منتقل کردیا جائے گا۔
جاپانی ادیبوں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ انھیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکی فوجی اڈے کے بارے میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ان کی حکومت سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی تعمیر نو کا آغاز کرنے سے پہلے تین غیر نیوکلیائی اصولوں پر اپنے آئین اور اپنی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
یہ اصول نیوکلیائی ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی، ان کو اپنے اسلحہ خانوں میں نہ رکھنا اور انھیں اپنی بری، بحری اور فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دینا تھا۔ یہ ادیب اور دانشور اب اس خبر سے تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کے حکمران امریکی حکومت کی مدد کے لیے اپنی سرحدوں کی حدود میں ایٹمی ہتھیاروں کی نقل و حرکت کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سرکاری حلقوں میں اسے ملک کو کسی ایٹمی حملے کی صورت میں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
کینزابورو ہو یا اس کے ساتھ کے دوسرے شاعر، ادیب اور فنکار سب اسے اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو سچ کا آئینہ دکھائیں اور یاد دلائیں کہ دنیا بھر میں صرف وہی ہیں جن پر ایٹمی حملہ کیا گیا تھا اور یہ ان کی قومی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں اور اپنے لوگوں کو یہ بتاتے رہیں کہ انھیں ایٹمی چھتری کی قطعاً ضرورت نہیں۔
ادیب، دانشور اور فنکار کسی بھی قوم کا اجتماعی ضمیر ہوتے ہیں اور ان کی اخلاقی اور دانشورانہ ذمے داری ہے کہ وہ سرکار کو پسند نہ آنے والا سچ بولتے رہیں اور اپنے لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ طاقت و جبروت کی زبان آخر کار ہار جاتی ہے فتح بنیادی انسانی اخلاقی اصولوں اور اقدارکی ہوتی ہے۔
مختلف ترقی یافتہ ملکوں کی مہیب جنگی طاقت نے قوموں کو عظمت کے خبط میں مبتلا کر دیا ہے اور ان میں سب سے آگے امریکا ہے جسے فتوحات کا ایسا شوق ہے کہ اس کے اپنے دانشور، ادیب، صحافی حد تو یہ ہے کہ بعض جرنیل اس شوق سے خوفزدہ ہیں۔ ایک سابق امریکی جرنیل نے اپنے طور پر عراق میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیق کے بعد اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ''اب اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ عراق میں امریکی انتظامیہ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اس غیر انسانی سلوک اور ایذا دہی کے احکامات جاری کیے ان کا احتساب ہوگا یا نہیں؟''
ایک سابق فوجی جرنیل کے اس اعلان کے بعد کئی دوسرے امریکی فوجی افسروں کے نام سامنے آئے جنھوں نے امریکی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی اقدام سے انکار کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں نکولس ڈی کرسٹوف نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکی قوم کو ایک '' ٹروتھ کمیشن'' کی ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکے کہ ''حب وطن'' کے نام پر اسے جھوٹی کہانیاں سنائی گئیں اور بے گناہ افراد کو عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکا دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کا محکمہ دفاع جمہوریت، آئین اور قانون کی موجودگی کے باوجود اپنی سی کر جاتا ہے اور آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا صرف امریکیوں کو ہی نہیں دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو ہے۔ ایسے میں ہم اگر یہ توقع رکھیں تو یہ محض ہماری خوش فہمی ہوگی کہ امریکا میں یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں سچ جاننے کے لیے کوئی کمیشن تشکیل پائے گا۔
ایسے میں ان افراد کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جو ادب، صحافت، قانون یا فنون لطیفہ سے وابستہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل نہ ہوں، صحافت اور قانون کو صرف روزی کمانے کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوں اور جن کے خیال میں فنون لطیفہ سے ان کی وابستگی محض شہرت اور دولت کے لیے نہ ہو، وہ خود کو اپنے سامنے اور اپنے چاہنے والوں کے سامنے جواب دہ محسوس کرتے ہوں۔
ماہ اگست کی ابتدائی تاریخوں میں جاپان کے بدن پر امریکا نے دو ایٹمی زخم لگائے تھے۔ جاپانی اس تباہی و بربادی سے یوں نبرد آزما ہوئے کہ ان شہروں میں جانے والے سیاحوں کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا کہ اخباروں اور تاریخ کی کتابوں میں انھوں نے کیا ان ہی شہروں کی خاکستر ہونے والی عمارتیں اور تباہ ہو جانے والے اسکول، میوزیم اور لائبریریاں دیکھی تھیں؟ دوسری جنگ عظیم کے دوران صرف ہیروشیما اور ناگاساکی ہی نہیں سارا جاپان تہس نہس ہو گیا تھا لیکن اپنے شہنشاہ کے حکم پر جاپانی قوم کمر کس کر اپنی تعمیر نو میں جٹ گئی۔
اس کام میں وہاں صرف انجینئروں اور مزدوروں نے ہی حصہ نہیں لیا ،بلکہ باغوں میں کھرپی سے کیاریاں ٹھیک کرنے والے مالی بھی اس کام میں شریک تھے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ملک کے ادیب، شاعر اور مصور کسی ملک کی تعمیر نو میں کوئی خاص حصہ نہیں لے سکتے، لیکن اس کے ادیبوں نے بھی اپنی قوم کے شعور کو بے دار کرنے کے ساتھ ہی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
جاپانیوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں امریکیوں نے جو کیا وہ یقینا بہت ظالمانہ تھا لیکن اس سے پہلے جاپانی بھی اپنے ارد گرد کے ملکوں میں بہت ستم کر چکے تھے۔ شاید آپ کی نظروں سے اس ''معذرت '' کی خبر گزری ہو جو جاپانیوں نے کوریا سے اور خاص طور سے کوریا کی خواتین سے کی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ظلم کی کیچڑ سے ہم سب کے دامن داغ دار ہیں لیکن جاپانی ادیبوں نے اپنی قوم کو اپنی حکومتوں کی غلطیوں سے آگاہ کرنے کے لیے بھی بڑا کام کیا۔ کوئی قوم ماضی کی اپنی غلطیوں اور اپنے مظالم کا شعوری طور پر ادراک رکھے تب ہی وہ اپنے مستقبل کو درست خطوط پر استوار کرسکتی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ جاپانی شاعر اور ادیب جن کو 1994 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اپنے ملک میں اور ساری دنیا میں اس کا احترام کیا جاتا ہے، اس دوران یہ ہوا کہ جاپان صرف ایک عظیم صنعتی طاقت ہی نہیں بنا بلکہ اس کے اعلیٰ طبقات کے سینے میں یہ خواہش بھی پرورش پانے لگی کہ ان کی قوم ایک اہم فوجی قوت بھی بنے۔ مشکل یہ ہے کہ ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جاپان کا آئین ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مرتب ہوا اور جس میں جاپانیوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ کبھی جنگ میں ملوث نہیں ہوں گے۔ نوبل انعام یافتہ ادیب کینزا بورواوئے کا ایک مضمون شایع ہوا جس میں وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایٹمی زخم کھانے کے 65 برس بعد اس کا ملک کیا اپنی اخلاقی ذمے داریاں ادا کر رہا ہے؟
اصل قصہ یہ ہے کہ امریکا نے مشرقی ایشیا میں جو فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں ان میں سے ایک جاپان کے شہر اوکی ناوا میں ہے۔ یہ اس خطے میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈوں میں سے ایک ہے۔ جاپانی شہری اول تو اس بات کو اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ ان کی سرزمین پر اس طاقت کے فوجی اڈے ہوں جس کے ہاتھوں ان کے لاکھوں شہری چشم زدن میں بھاپ بن کر اڑ گئے تھے اور لاکھوں نے ناقابل بیان اذیتیں سہیں۔ یہ سلسلہ اب تک ختم نہیں ہوا ہے اور ایٹمی حملے کا شکار ہونے والوں کی دوسری اور تیسری نسل بھی عذابوں سے دوچار ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے اس بارے میں احتجاج کر رہے ہیں کہ اوکی ناوا سے یہ امریکی فوجی اڈا ہٹا کر کہیں اور لے جایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اڈے کے ارد گرد گنجان شہری آبادی ہے اور کسی بھی قسم کا اتفاقی حادثہ شہریوں کی جان و مال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اب سے دو دہائیاں پہلے امریکی اور جاپانی حکومتوں نے شہریوں کی اس تشویش کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اوکی ناوا سے یہ فوجی اڈا ہٹا لیا جائے گا لیکن یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔ یکے بعد دیگرے کئی جاپانی وزرائے اعظم اپنے لوگوں سے اس وعدے کو دہراتے رہے ہیں کہ اس اڈے کو شہر کے مضافات میں منتقل کردیا جائے گا۔
جاپانی ادیبوں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ انھیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکی فوجی اڈے کے بارے میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ان کی حکومت سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی تعمیر نو کا آغاز کرنے سے پہلے تین غیر نیوکلیائی اصولوں پر اپنے آئین اور اپنی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
یہ اصول نیوکلیائی ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی، ان کو اپنے اسلحہ خانوں میں نہ رکھنا اور انھیں اپنی بری، بحری اور فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دینا تھا۔ یہ ادیب اور دانشور اب اس خبر سے تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کے حکمران امریکی حکومت کی مدد کے لیے اپنی سرحدوں کی حدود میں ایٹمی ہتھیاروں کی نقل و حرکت کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سرکاری حلقوں میں اسے ملک کو کسی ایٹمی حملے کی صورت میں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
کینزابورو ہو یا اس کے ساتھ کے دوسرے شاعر، ادیب اور فنکار سب اسے اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو سچ کا آئینہ دکھائیں اور یاد دلائیں کہ دنیا بھر میں صرف وہی ہیں جن پر ایٹمی حملہ کیا گیا تھا اور یہ ان کی قومی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں اور اپنے لوگوں کو یہ بتاتے رہیں کہ انھیں ایٹمی چھتری کی قطعاً ضرورت نہیں۔
ادیب، دانشور اور فنکار کسی بھی قوم کا اجتماعی ضمیر ہوتے ہیں اور ان کی اخلاقی اور دانشورانہ ذمے داری ہے کہ وہ سرکار کو پسند نہ آنے والا سچ بولتے رہیں اور اپنے لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ طاقت و جبروت کی زبان آخر کار ہار جاتی ہے فتح بنیادی انسانی اخلاقی اصولوں اور اقدارکی ہوتی ہے۔