خدا نہ کرے
ہم وہ قاضی ہیں جسے ہر لمحہ ہر آن شہر کا اندیشہ لاحق رہتا ہے
آپ نے پدی کا نام تو سنا ہوگا جو کہ ایک ننھا سا پرندہ ہے لیکن اس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ رات کو سوتے ہوئے اپنی تنکا جیسی ٹانگیں آسمان کی طرف رکھتا ہے۔ کسی نے اس سے یہ سوال کیا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے تو اس نے ترکی بہ ترکی جو جواب دیا وہ شاید کسی کے تصور میں بھی نہ ہوگا۔
اس کا کہنا تھا کہ اسے اندیشہ ہے کہ کہیں آسمان نہ گر جائے سو ہمارا حال بھی پدی جیسا ہے کہ ہم ہمہ وقت وطن عزیز کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ ہم وہ قاضی ہیں جسے ہر لمحہ ہر آن شہر کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم وہ خوش قسمت پاکستانی نہیں ہیں کہ جو رات کو سوئے تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور الصبح جب آنکھ کھلی تو پاکستان میں تھے۔
ہم ان فرقہ وارانہ فسادات کے عینی شاہد ہیں جب انسان حیوان بن گیا تھا۔ بسے بسائے گھر اجڑ رہے تھے اور درندہ صفت بلوائی ہماری ماؤں بہنوں کے عصمتیں لوٹ رہے تھے اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور لٹے پٹے خاندانوں کے قافلے سرحد پار سے نوزائیدہ وطن پاکستان کی طرف آرہے تھے۔
قیامت کی اس گھڑی کے مناظر آج تک ہمارے ذہن پر نقش ہیں لیکن ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ پیارا وطن کن خونی مراحل سے گزر کر معرض وجود میں آیا تھا اور یہ کتنی بے دریغ قربانیوں کا ثمر ہے۔ انھیں تو صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ بس علامہ اقبالؒ نے ایک خواب دیکھا جسے بابائے قوم محمد علی جناح نے شرمندہ تعبیر کردیا۔ ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں کیونکہ انھیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کبھی کوئی مشرقی پاکستان بھی ہوا کرتا تھا جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔
ہمارے شعبہ تعلیم کے ذمے داروں نے کبھی یہ زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ یہ وطن عزیز کس طرح سے معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم ہر سال 16 دسمبرکو جب مختلف طبقات کے لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن کیا ہوا تھا تو اکثر لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ کچھ لوگوں سے یہ جواب ملا کہ اس دن سانحہ پشاور پیش آیا تھا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہے اس کا جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا لیکن ہمارے ارباب اختیار نے اس سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھا۔
بقول اقبالؒ:
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن ہمارے لچھن نہیں بدلے اور نہ بدلنے کے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں جس کا ثبوت وہ سیاسی دنگل ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور ہر کوئی ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ تماشہ کب تک جاری رہے گا اور کب ختم ہوگا ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ جسے بھی دیکھیے اس کی نگاہیں کرسی اقتدار پر جمی ہوئی ہیں اور حال یہ ہے کہ جائز و ناجائز یا صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر اصول اقتدار کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ شاید اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمے داروں سے کسی نے بازپرس نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ قدرت نے انھیں قرار واقعی سزا دے دی۔ اب اس تناظر میں ہمارے ارباب اختیار اور سیاسی بازیگروں کا کردار ملاحظہ فرمائیں کہ بات تو تکار تک ہی نہیں بلکہ گالی گفتار اور ہاتھا پائی تک جا پہنچی ہے۔
بقول میرؔ:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
سچ پوچھیے تو یہ صورتحال فری اسٹائل ریسلنگ جیسی ہے جس میں ایک پہلوان اپنے حریف کو پچھاڑنے کے لیے کوئی بھی داؤ استعمال کرسکتا ہے جس میں فاؤل کے علاوہ ریفری کو بھی زد و کوب کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے قارئین کرام بہت سمجھ دار ہیں اور محض اشارہ ہی کافی ہے۔ ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ:
زباں کو حکم ہی کہاں جو داستان غم کہیں
ادا ادا سے تم کہو ، نظر نظر سے ہم کہیں
ہم نے جانوروں کو بھی ایک دوسرے سے بھڑتے ہوئے دیکھا ہے حتیٰ کہ درندوں کو بھی ایک دوسرے سے برسر پیکار دیکھا ہے لیکن ہمارے محترم ارباب سیاست جس طرح سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لڑ رہے ہیں اس نے جانوروں کو بھی مات کردیا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ سب کے سروں پر اقتدار کا نشہ سوار ہے اور کوئی بھی مفاہمت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہے۔ حال یہ ہے کہ:
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد
اس موقع پر نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب (مرحوم) کی کمی محسوس کی جارہی ہے لیکن صورتحال اتنی سنگین ہوتی نظر آرہی ہے کہ اگر نواب صاحب بھی بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کرتے تو انھیں بھی منہ کی کھانا پڑتی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور آکسیجن کیمپ میں جانے کے نزدیک ہے اور کاروبار زندگی سرد سے سرد ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن سیاسی کشمکش میں کمی کے آثار کم ہی نظر آرہے ہیں۔ ہوشربا بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ کردیا ہے اور عوام کا جینا حرام ہوگیا ہے اور حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔
تنگدستی اور بیروزگاری نے عوام کو عاجزکردیا ہے جس کے نتیجہ میں اچھے خاصے لوگ ذہنی مریض ہو رہے ہیں اور خاندانی جھگڑوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اور معاشرتی نظام درہم برہم ہے۔ جرائم میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جس میں عصمت فروشی، گداگری، اغوا کاری اور بردہ فروشی جیسے انسانیت سوز جرائم اور چوری ، ڈاکے کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب بدعنوانی اور رشوت ستانی جیسے غیر اخلاقی جرائم میں تیزی سے اضافہ بھی اس کا ایک ردعمل ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ عوام ان سنگین حالات سے کس قدر پریشان ہیں۔ خدا نہ کرے کہ اس بے حسی کے نتیجہ میں صورتحال اس نہج پر پہنچ جائے کہ وطن عزیزکا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔