مور‘ بچے اور درخت
ہمارا ماتھا تو انھیں دنوں ٹھنکا تھا جب تھرپارکر کے علاقے سے موروں کے مرنے کی خبریں آنی شروع ہوئی تھیں
ہمارا ماتھا تو انھیں دنوں ٹھنکا تھا جب تھرپارکر کے علاقے سے موروں کے مرنے کی خبریں آنی شروع ہوئی تھیں۔ مور ایسے خوبصورت پرند کا اچانک موت کی زد میں آ جانا اور پھر موروں کی مرگ کا عام ہو جانا کوئی اچھا شگن تو نہیں ہے مگر اس علاقہ کے حکام نے ان موروں کے اس مرگ عام کو پرِ کاہ کی اہمیت نہیں دی۔ سوچا ہو گا کہ آخر مور ہی تو ہیں از قسم حیوانات مر رہے ہیں تو ایسا کونسا آسمان ٹوٹ پڑا۔ مگر اس کے بعد غریب ماؤں کی گودوں میں پلتے بچے مرنے لگے۔ متعلقہ حکام نے تو ان اموات پر بھی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ وہ تو یہ کہئے کہ یہ خبر میڈیا تک پہنچ گئی۔ میڈیا تک کسی خبر کے پہنچ جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہونٹوں سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ جو خبر اخباروں میں نکل جائے اور ٹی وی چینلوں سے نشر ہونے لگے وہ تو سمجھئے کہ کوٹھوں چڑھ گئی۔ بچے مرتے جا رہے تھے اور ٹی وی چینلوں پر تبصرہ آرائیاں ہو رہی تھیں کہ کیا اندھیر ہے کہ تھرپارکر میں قحط پڑا ہوا ہے۔ بھوک سے بچے مر رہے ہیں اور جن افسروں کے انتظام میں وہ علاقہ ہے ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ پہلے اس علاقہ سے باہر کی دنیا میں اس واقعہ پر شور پڑا اور امداد کے اعلان ہونے لگے۔ تب سندھ کے حکام بالا بھی شرما حضوری جاگے مگر واجبی واجبی۔ ان کے بیچ کھلبلی اس وقت پڑی جب وزیر اعظم پاکستان نے طے کیا کہ تھرپارکر چل کر دیکھنا تو چاہیے کہ احوال واقعی کیا ہے۔
تو اب وزیر اعلیٰ سے لے کر اعلیٰ ادنیٰ افسران تک سب ہی متحرک نظر آنے لگے۔ مگر پھر انھوں نے کچھ شکایتی لہجہ میں کہا کہ میڈیا نے خبریں بڑھا چڑھا کر ہی پیش کی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ آخر کچھ بچے ہی تو مرے تھے اور یہ مرنے والے بچے بھی کونسے ایسے نازوں کے پلے تھے کہ اتنا شور ڈال دیا۔
ارے اتنا شور ڈالا تب ہی تو آپ کے کانوں تک یہ خبر پہنچی۔ لیجیے اس پر ہمیں سوداؔ کا ایک شعر یاد آ گیا ؎
سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
تو سندھ کے ان چھوٹے بڑے افسران کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جب ان کے کانوں کے پاس لے جا کر ڈھول بجایا جائے تب وہ خواب غفلت سے جاگتے ہیں کہ یہ کس نے ہمارے آرام میں خلل ڈالا۔ اچھا تو تھرپارکر کے علاقے میں اناج کم پڑ گیا ہے۔ اچھا اتنا کم پڑ گیا کہ غریبوں کے گھروں میں روٹیوں کے لالے پڑ گئے اور کچھ بچوں کو بھوک نے اتنا ستایا کہ انھوں نے جان دیدی۔
دیکھئے کتنی عجیب بات ہے کہ قحط زدہ بچوں کی اموات پر دور دور تک ہا ہا کار مچ گئی۔ جن حکام کی یہ ذمے داری تھی کہ خبر ملنے پر وہ جلدی جلدی وہاں اجناس پہنچانے کا انتظام کرتے اور اپنی غفلت پر تھوڑا پشیمان ہوتے۔ وہ تو نہ ہوا۔ کوئی احساس ندامت نہیں۔ اس پر مزاج برہم ہیں کہ میڈیا نے ضرورت سے زیادہ شور مچا دیا۔
خیر تھرپارکر میں حالات کچھ زیادہ ہی سنگین ہو گئے۔ ویسے یوں ہے کہ پورے ملک ہی میں حالات کچھ ایسے خوشگوار نہیں ہیں۔ بچے تھرپارکر سے باہر بھی بہت مشکل میں ہیں۔ تھرپارکر سے باہر پاکستان کے مختلف علاقوں میں صورت یہ ہے کہ بچے پولیو کے ایک ایک قطرے کے لیے ترس رہے ہیں۔ قدغن ہے کہ یہ قطرے بچوں کے حلق میں نہ جائیں جو اس قطرے کو بچے کے حلق میں ڈالنے کا مرتکب ہو گا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ مگر شاباش ہے یہ خدمت انجام دینے والوں پر کہ قطرے ٹپکانے کا فریضہ انجام دیے جا رہے ہیں اور اس کے عوض اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
ان بچوں ہی کی صف میں درختوں اور پرندوں کو بھی شمار کر لو' درخت پہلے بھی کٹ رہے تھے لیکن لگتا ہے کہ یہ عمل اب زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ آئے دن ایسی خبریں اخباروں میں آ رہی ہیں کہ کس تیزی سے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک تجزئیے میں تو یہاں تک پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگر درختوں کے کٹنے کا یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو چالیس پچاس برس تک پاکستان سے جنگلات کا سرے سے صفایا ہو جائے گا۔
اور پرندے۔ وہ غریب بھی بہت مشکل میں ہیں۔ تھرپارکر کے مور تو مشکل میں ہیں ہی۔ کتنے دنوں سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد خبریں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ تھرپارکر کے موروں کو فلاں موذی مرض نے آ لیا ہے اور وہ مر رہے ہیں۔ اب کے وہ قحط کی زد میں آ گئے اس باعث ان کی اموات ہو رہی ہیں۔ ادھر بہاولپور کے نواح میں جو دور پار سے پرندے اپنے علاقے کی سردی سے بچ کر اڑ کر ادھر آتے ہیں تو ان مہمانوں کی قیمت پر یہاں کے حکام عرب مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ یعنی ادھر سے یہ پرندے اڑ کر ادھر آئے اور ادھر سے ہمارے مہمان عرب شکاری آنا شروع ہو گئے۔ تو مختلف علاقوں میں مختلف حوالوں سے پرندے مصیبت میں گرفتار ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ پاکستانی قوم ہی اس وقت ایک بڑے آشوب سے دوچار نہیں ہے۔ اس ملک میں پرندے بھی اور درخت بھی ایک آشوب سے دوچار ہیں۔ ہم نے اپنے کرتوتوں سے ان کے لیے بھی ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ ان کی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اور جیسے تھرپارکر کے حکام نے اس علاقے کے غریب بچوں کے معاملہ میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی بے حسی ہم نے مختلف علاقوں میں اپنے درختوں کے لیے بھی اور اپنے پرندوں کے لیے بھی روا رکھی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں اپنے ہم جنسوں کے جینے مرنے کی پروا نہیں ہے تو پھر دوسری مخلوقات کیا بیچتی ہیں لیکن وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے کہ ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فطرت اس معاملہ میں بہت حساس ہے۔ فطرت کو اتنا مت چھیڑو کہ اس کا مزاج برہم ہو جائے۔ فطرت کا مزاج جب برہم ہوتا ہے تو پھر وہ زیادتی کرنے والوں سے پورا ہی بدلہ لیتی ہے۔ اقبالؔ نے صحیح کہا۔ فطرت کی تعزیریں سخت ہوتی ہیں۔
تو اب وزیر اعلیٰ سے لے کر اعلیٰ ادنیٰ افسران تک سب ہی متحرک نظر آنے لگے۔ مگر پھر انھوں نے کچھ شکایتی لہجہ میں کہا کہ میڈیا نے خبریں بڑھا چڑھا کر ہی پیش کی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ آخر کچھ بچے ہی تو مرے تھے اور یہ مرنے والے بچے بھی کونسے ایسے نازوں کے پلے تھے کہ اتنا شور ڈال دیا۔
ارے اتنا شور ڈالا تب ہی تو آپ کے کانوں تک یہ خبر پہنچی۔ لیجیے اس پر ہمیں سوداؔ کا ایک شعر یاد آ گیا ؎
سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
تو سندھ کے ان چھوٹے بڑے افسران کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جب ان کے کانوں کے پاس لے جا کر ڈھول بجایا جائے تب وہ خواب غفلت سے جاگتے ہیں کہ یہ کس نے ہمارے آرام میں خلل ڈالا۔ اچھا تو تھرپارکر کے علاقے میں اناج کم پڑ گیا ہے۔ اچھا اتنا کم پڑ گیا کہ غریبوں کے گھروں میں روٹیوں کے لالے پڑ گئے اور کچھ بچوں کو بھوک نے اتنا ستایا کہ انھوں نے جان دیدی۔
دیکھئے کتنی عجیب بات ہے کہ قحط زدہ بچوں کی اموات پر دور دور تک ہا ہا کار مچ گئی۔ جن حکام کی یہ ذمے داری تھی کہ خبر ملنے پر وہ جلدی جلدی وہاں اجناس پہنچانے کا انتظام کرتے اور اپنی غفلت پر تھوڑا پشیمان ہوتے۔ وہ تو نہ ہوا۔ کوئی احساس ندامت نہیں۔ اس پر مزاج برہم ہیں کہ میڈیا نے ضرورت سے زیادہ شور مچا دیا۔
خیر تھرپارکر میں حالات کچھ زیادہ ہی سنگین ہو گئے۔ ویسے یوں ہے کہ پورے ملک ہی میں حالات کچھ ایسے خوشگوار نہیں ہیں۔ بچے تھرپارکر سے باہر بھی بہت مشکل میں ہیں۔ تھرپارکر سے باہر پاکستان کے مختلف علاقوں میں صورت یہ ہے کہ بچے پولیو کے ایک ایک قطرے کے لیے ترس رہے ہیں۔ قدغن ہے کہ یہ قطرے بچوں کے حلق میں نہ جائیں جو اس قطرے کو بچے کے حلق میں ڈالنے کا مرتکب ہو گا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ مگر شاباش ہے یہ خدمت انجام دینے والوں پر کہ قطرے ٹپکانے کا فریضہ انجام دیے جا رہے ہیں اور اس کے عوض اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
ان بچوں ہی کی صف میں درختوں اور پرندوں کو بھی شمار کر لو' درخت پہلے بھی کٹ رہے تھے لیکن لگتا ہے کہ یہ عمل اب زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ آئے دن ایسی خبریں اخباروں میں آ رہی ہیں کہ کس تیزی سے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ایک تجزئیے میں تو یہاں تک پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگر درختوں کے کٹنے کا یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو چالیس پچاس برس تک پاکستان سے جنگلات کا سرے سے صفایا ہو جائے گا۔
اور پرندے۔ وہ غریب بھی بہت مشکل میں ہیں۔ تھرپارکر کے مور تو مشکل میں ہیں ہی۔ کتنے دنوں سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد خبریں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ تھرپارکر کے موروں کو فلاں موذی مرض نے آ لیا ہے اور وہ مر رہے ہیں۔ اب کے وہ قحط کی زد میں آ گئے اس باعث ان کی اموات ہو رہی ہیں۔ ادھر بہاولپور کے نواح میں جو دور پار سے پرندے اپنے علاقے کی سردی سے بچ کر اڑ کر ادھر آتے ہیں تو ان مہمانوں کی قیمت پر یہاں کے حکام عرب مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ یعنی ادھر سے یہ پرندے اڑ کر ادھر آئے اور ادھر سے ہمارے مہمان عرب شکاری آنا شروع ہو گئے۔ تو مختلف علاقوں میں مختلف حوالوں سے پرندے مصیبت میں گرفتار ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ پاکستانی قوم ہی اس وقت ایک بڑے آشوب سے دوچار نہیں ہے۔ اس ملک میں پرندے بھی اور درخت بھی ایک آشوب سے دوچار ہیں۔ ہم نے اپنے کرتوتوں سے ان کے لیے بھی ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ ان کی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اور جیسے تھرپارکر کے حکام نے اس علاقے کے غریب بچوں کے معاملہ میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی بے حسی ہم نے مختلف علاقوں میں اپنے درختوں کے لیے بھی اور اپنے پرندوں کے لیے بھی روا رکھی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں اپنے ہم جنسوں کے جینے مرنے کی پروا نہیں ہے تو پھر دوسری مخلوقات کیا بیچتی ہیں لیکن وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے کہ ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
فطرت اس معاملہ میں بہت حساس ہے۔ فطرت کو اتنا مت چھیڑو کہ اس کا مزاج برہم ہو جائے۔ فطرت کا مزاج جب برہم ہوتا ہے تو پھر وہ زیادتی کرنے والوں سے پورا ہی بدلہ لیتی ہے۔ اقبالؔ نے صحیح کہا۔ فطرت کی تعزیریں سخت ہوتی ہیں۔