منیر نیازی حُسنِ فطرت کا شاعر
اُجلے لباس میں اُن کا ظاہری جسم دوسروں سے نمایاں دکھائی دیتا تھا
کراچی:
منیر نیازی اُردو اور پنجابی غزل کے مقبول ترین شاعر تھے۔ وہ اپنی ذات، شخصیت اور شاعری کی طرح اپنا مزاج بھی الگ رکھتے تھے۔ اُجلے لباس میں اُن کا ظاہری جسم دوسروں سے نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ نفیس اور خوبصورت آدمی تھے۔ معاملاتِ حسن وعشق شروع سے ہی اُردو شعر کا مرغوب موضوع رہے ہیں۔ منیرنیازی بھی اپنے سینے میں دھڑکتا ہُوا دل رکھتے تھے جس میں بہت سی خواہشات اور تمنائیں انگڑائیاں لیتی رہی لہٰذا عشق اور حُسن میں پیش آنے والی کیفیات کو اپنے مخصوص انداز میں شعری پیکر عطا کرتے رہے۔
حُسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہو گیا
منیرنیازی نے عشق و محبت کی نیرنگیوں اور واردات کو نئے انداز سے روشناس کرایا۔ محبت کے اس اظہار میں شگفتگی اور بانکپن قاری کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس پر ایک گہرا تاثر چھوڑ دیتا ہے جو کافی دیر تک قاری کو اپنے آثار میں لیے رکھتا ہے۔ منیر نیازی حُسنِ فطرت کے شاعر تھے۔ کچھ لوگ اُن کی شاعری میں پُراسراریت ڈھونڈتے ہیں ، مگر معصوم لوگوں کی زندگی کوئی پُر اسراریت نہیں ہوتی، جیسے وہ اندر سے ہوتے ہیں ویسے ہی باہر دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسر اعتبار ساجد بتاتے ہیںکہ''منیر نیازی نہایت بذلہ سنج اور بے پناہ قوتِ تخلیق کے شاعر تھے۔
مجھے اُن سے بے شمار مرتبہ ملنے کا موقع میسر آیا اُن کے ساتھ بھارت کے مشاعرے میں شمولیت بھی اختیارکی اور ہمیشہ یہ دیکھا اُن کی شخصیت اور شاعری کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، وہ محبت بھرے آدمی تھے۔ میں اُن کی محبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔''
منیر نیازی کے ہاں خوابوں کی ایک دنیا آراستہ تھی۔ ماضی کی خوشگوار اور تلخ یادیں اُن کا سرمایہ تھی۔ انھیں ناصر کاظمی اور انتظار حسین کی طرح ہجر کی یاد ستائے رکھتی تھی۔ اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر اختر شمار لکھتے ہیں کہ''مجھے بے طرح منیر نیازی یاد آتے ہیں وہ اس شہر میں آباد تھا کہ شہر میں شاعری کی خوشبو آباد ہے۔
وہ بہ نفسِ نفیس موجود تھا تو ایک احساس دل میں روشن رہتا کہ کوئی تو ہے جو اس شہر میں محبت اور زندگی کی تابندہ علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب تو اس شہر میں منیر نیازی کی یاد باقی ہے۔''منیر نیازی کی یاد کو تازہ کرتی ہوئی ان کی تصویر کا دوسرا رُخ صرف ڈاکٹراجمل نیازی تھے جو ہمیںاگربتیوں کے دھوئیں میں خوشبو کی طرح دکھائی دیتے ، وہ منیر کو شاعری کا خانِ اعظم اور اپنے قبیلے کا سردار کہتے۔منیرنیازی اپنے منفرد اسلوب اور جدید اندازِ بیاں کے باعث ہمیشہ ہر دلعزیز رہے۔ دنیا میں جہاں بھی اُردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں منیرنیازی کے نام سے سب ہی بخوبی واقف ہے۔
ان کا شمار بیسوی صدی کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا۔ منیر نیازی اُردو اور پنجابی شاعری کا سرمایہ غزل تھے اور غزل بھی وہ جس میں سلاست اور نغمگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی پنجابی کتب میں چار چپ چیزاں،رستہ دسن والے تارے،سفر دی رات اور ''قصہ دو بھرانواں دا'' شامل ہیں ، جب کہ ان کی اُردو تصانیف میں ''اُس بے وفا کا شہر،جنگل میں دھنک،تیز ہوا اور تنہا پھول،سفید دن کی ہوا،دشمنوں کے درمیان شام،آغاز زمستان میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر،چار رنگیں دروازے اور ''محبت اب نہیں ہو گی'' ودیگر شامل ہیں۔'' قصہ دو بھرانواں دا'' جس کا بعد میں انھوں نے اُردو میں بھی ترجمہ کیا۔
اسی طرح اور بھی بہت سی غزلوں ، نظموں کا انھوں نے اپنی زندگی میں ہی ترجمہ کیا۔منیر نیازی کا اصل نام منیر احمد تھا لیکن قلمی نام سے ہی شہرت پائی۔ انھوں نے بھارت کے شہر ضلع ہوشیار پورکے قصبہ خانپور میں 19 اپریل 1928 کو آنکھ کھولی۔ تاریخِ ادب کی کتابوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُس زمانے میں تحریکِ آزادی پورے زور وشور سے ہندوستان کے کونے کونے میں رواں دواں تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سری نگر سے حاصل کی پھر منٹگمری چلے گئے جہاں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور جب علم کی پیاس بھری تو لاہورکا رخ اختیار کیا اُس وقت لاہور علم وادب کا مرکز تھا جو آج بھی ہے۔ انھوں نے لاہور آکرگورنمنٹ دیال سنگھ کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ انھوں نے زمانہ طالبِ علمی سے ہی ادبی محفلوں میں حصہ لینا اور اپنا کلام سنانا شروع کر دیا تھا۔
منیر نیازی بلاشبہ عہدِ حاضر کے بہترین شاعر تھے۔ انھوں نے متعدد فلمی گیت بھی لکھے جنھیں ملک کے شہرہ آفاق گلوکاروں نے گا کر ہمیشہ کے لیے انھیں امر کر دیا۔اس حوالے سے سعد اللہ شاہ بتاتے ہیں کہ'' منیر نیازی نے زندگی بھر زبردستی کی شاعری نہیں کی،کافیہ بندی نہیں کی، ان کے کلام میں ایک انفرادیت تھی،ہجرت کا خوف بھی اور تصویر کشی کا بہت خوبصورت کہکشاں تھی۔ جس میں حیرت بہت زیادہ ہے۔ وہ ایک فقرہ باز تھے وہ کوئی بھی جملہ کہتے تو مشہور ہو جاتا وہ بہت پڑھے لکھے اور مطالعہ خیز آدمی تھے۔
انھوں نے انگلش ڈرامے بھی پڑھے۔ امجد مجید کے ساتھ ساہیوال میں ان کے بہت قریب رہے۔ بہت سے دوست ان کے دشمنوں کے طرح ان کے قریب تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ایک کتاب کا نام''دشمنوں کے درمیان ایک شام'' رکھا۔ میں اُن کے بہت قریب رہا اور میں نے اُن میں جو محسوس کیا وہ یہی ہے کہ اُن کے کلام میں ایک نرگسیت تھی جب کہ شخصیت میں معصومیت تھی اُن میں چکر بازی والی کوئی بات نہیں تھی۔''
کل دیکھا ایک آدمی عطا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
منیر نیازی اپنے دور میں ادبی گروپ بندیوں کے موسم میں بھی شہر کے ایک کونے میں ایک روشن مینار کی طرح تھے۔ جنھیں لوگ گھر سے اُٹھا کر اپنی تقریبات اور مشاعروں میں لے جاتے اور پھر گھر تک چھوڑ دیتے۔ ایک وقت میں انھیں لے جانے اور آنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک ڈرائیور سمیت گاڑی کا بندوبست بھی کیا۔
انھیں ان کی ادبی خدمات پر 1992 ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2005 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کے لیے بہت لکھا۔منیر نیازی دکھوں، غموں اور المیوں کو سینے میں چھپاکر اپنی شاعری میں دکھ درد کا احساس اور ہر کسی میں وفائیں تقسیم کرتے ہوئے 26 دسمبر2006 کو اپنی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔آج بھی جب دسمبر آتا ہے تو منیرنیازی،پروین شاکر سمیت دیگر شخصیات کی یاد شدت سے آتی ہے۔ بقول ان کی مشہورِ زمانہ اس نظم کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں''
منیر نیازی اُردو اور پنجابی غزل کے مقبول ترین شاعر تھے۔ وہ اپنی ذات، شخصیت اور شاعری کی طرح اپنا مزاج بھی الگ رکھتے تھے۔ اُجلے لباس میں اُن کا ظاہری جسم دوسروں سے نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ نفیس اور خوبصورت آدمی تھے۔ معاملاتِ حسن وعشق شروع سے ہی اُردو شعر کا مرغوب موضوع رہے ہیں۔ منیرنیازی بھی اپنے سینے میں دھڑکتا ہُوا دل رکھتے تھے جس میں بہت سی خواہشات اور تمنائیں انگڑائیاں لیتی رہی لہٰذا عشق اور حُسن میں پیش آنے والی کیفیات کو اپنے مخصوص انداز میں شعری پیکر عطا کرتے رہے۔
حُسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہو گیا
منیرنیازی نے عشق و محبت کی نیرنگیوں اور واردات کو نئے انداز سے روشناس کرایا۔ محبت کے اس اظہار میں شگفتگی اور بانکپن قاری کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس پر ایک گہرا تاثر چھوڑ دیتا ہے جو کافی دیر تک قاری کو اپنے آثار میں لیے رکھتا ہے۔ منیر نیازی حُسنِ فطرت کے شاعر تھے۔ کچھ لوگ اُن کی شاعری میں پُراسراریت ڈھونڈتے ہیں ، مگر معصوم لوگوں کی زندگی کوئی پُر اسراریت نہیں ہوتی، جیسے وہ اندر سے ہوتے ہیں ویسے ہی باہر دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسر اعتبار ساجد بتاتے ہیںکہ''منیر نیازی نہایت بذلہ سنج اور بے پناہ قوتِ تخلیق کے شاعر تھے۔
مجھے اُن سے بے شمار مرتبہ ملنے کا موقع میسر آیا اُن کے ساتھ بھارت کے مشاعرے میں شمولیت بھی اختیارکی اور ہمیشہ یہ دیکھا اُن کی شخصیت اور شاعری کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، وہ محبت بھرے آدمی تھے۔ میں اُن کی محبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔''
منیر نیازی کے ہاں خوابوں کی ایک دنیا آراستہ تھی۔ ماضی کی خوشگوار اور تلخ یادیں اُن کا سرمایہ تھی۔ انھیں ناصر کاظمی اور انتظار حسین کی طرح ہجر کی یاد ستائے رکھتی تھی۔ اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر اختر شمار لکھتے ہیں کہ''مجھے بے طرح منیر نیازی یاد آتے ہیں وہ اس شہر میں آباد تھا کہ شہر میں شاعری کی خوشبو آباد ہے۔
وہ بہ نفسِ نفیس موجود تھا تو ایک احساس دل میں روشن رہتا کہ کوئی تو ہے جو اس شہر میں محبت اور زندگی کی تابندہ علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب تو اس شہر میں منیر نیازی کی یاد باقی ہے۔''منیر نیازی کی یاد کو تازہ کرتی ہوئی ان کی تصویر کا دوسرا رُخ صرف ڈاکٹراجمل نیازی تھے جو ہمیںاگربتیوں کے دھوئیں میں خوشبو کی طرح دکھائی دیتے ، وہ منیر کو شاعری کا خانِ اعظم اور اپنے قبیلے کا سردار کہتے۔منیرنیازی اپنے منفرد اسلوب اور جدید اندازِ بیاں کے باعث ہمیشہ ہر دلعزیز رہے۔ دنیا میں جہاں بھی اُردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں منیرنیازی کے نام سے سب ہی بخوبی واقف ہے۔
ان کا شمار بیسوی صدی کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا۔ منیر نیازی اُردو اور پنجابی شاعری کا سرمایہ غزل تھے اور غزل بھی وہ جس میں سلاست اور نغمگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی پنجابی کتب میں چار چپ چیزاں،رستہ دسن والے تارے،سفر دی رات اور ''قصہ دو بھرانواں دا'' شامل ہیں ، جب کہ ان کی اُردو تصانیف میں ''اُس بے وفا کا شہر،جنگل میں دھنک،تیز ہوا اور تنہا پھول،سفید دن کی ہوا،دشمنوں کے درمیان شام،آغاز زمستان میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر،چار رنگیں دروازے اور ''محبت اب نہیں ہو گی'' ودیگر شامل ہیں۔'' قصہ دو بھرانواں دا'' جس کا بعد میں انھوں نے اُردو میں بھی ترجمہ کیا۔
اسی طرح اور بھی بہت سی غزلوں ، نظموں کا انھوں نے اپنی زندگی میں ہی ترجمہ کیا۔منیر نیازی کا اصل نام منیر احمد تھا لیکن قلمی نام سے ہی شہرت پائی۔ انھوں نے بھارت کے شہر ضلع ہوشیار پورکے قصبہ خانپور میں 19 اپریل 1928 کو آنکھ کھولی۔ تاریخِ ادب کی کتابوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُس زمانے میں تحریکِ آزادی پورے زور وشور سے ہندوستان کے کونے کونے میں رواں دواں تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سری نگر سے حاصل کی پھر منٹگمری چلے گئے جہاں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور جب علم کی پیاس بھری تو لاہورکا رخ اختیار کیا اُس وقت لاہور علم وادب کا مرکز تھا جو آج بھی ہے۔ انھوں نے لاہور آکرگورنمنٹ دیال سنگھ کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ انھوں نے زمانہ طالبِ علمی سے ہی ادبی محفلوں میں حصہ لینا اور اپنا کلام سنانا شروع کر دیا تھا۔
منیر نیازی بلاشبہ عہدِ حاضر کے بہترین شاعر تھے۔ انھوں نے متعدد فلمی گیت بھی لکھے جنھیں ملک کے شہرہ آفاق گلوکاروں نے گا کر ہمیشہ کے لیے انھیں امر کر دیا۔اس حوالے سے سعد اللہ شاہ بتاتے ہیں کہ'' منیر نیازی نے زندگی بھر زبردستی کی شاعری نہیں کی،کافیہ بندی نہیں کی، ان کے کلام میں ایک انفرادیت تھی،ہجرت کا خوف بھی اور تصویر کشی کا بہت خوبصورت کہکشاں تھی۔ جس میں حیرت بہت زیادہ ہے۔ وہ ایک فقرہ باز تھے وہ کوئی بھی جملہ کہتے تو مشہور ہو جاتا وہ بہت پڑھے لکھے اور مطالعہ خیز آدمی تھے۔
انھوں نے انگلش ڈرامے بھی پڑھے۔ امجد مجید کے ساتھ ساہیوال میں ان کے بہت قریب رہے۔ بہت سے دوست ان کے دشمنوں کے طرح ان کے قریب تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ایک کتاب کا نام''دشمنوں کے درمیان ایک شام'' رکھا۔ میں اُن کے بہت قریب رہا اور میں نے اُن میں جو محسوس کیا وہ یہی ہے کہ اُن کے کلام میں ایک نرگسیت تھی جب کہ شخصیت میں معصومیت تھی اُن میں چکر بازی والی کوئی بات نہیں تھی۔''
کل دیکھا ایک آدمی عطا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
منیر نیازی اپنے دور میں ادبی گروپ بندیوں کے موسم میں بھی شہر کے ایک کونے میں ایک روشن مینار کی طرح تھے۔ جنھیں لوگ گھر سے اُٹھا کر اپنی تقریبات اور مشاعروں میں لے جاتے اور پھر گھر تک چھوڑ دیتے۔ ایک وقت میں انھیں لے جانے اور آنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک ڈرائیور سمیت گاڑی کا بندوبست بھی کیا۔
انھیں ان کی ادبی خدمات پر 1992 ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2005 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کے لیے بہت لکھا۔منیر نیازی دکھوں، غموں اور المیوں کو سینے میں چھپاکر اپنی شاعری میں دکھ درد کا احساس اور ہر کسی میں وفائیں تقسیم کرتے ہوئے 26 دسمبر2006 کو اپنی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔آج بھی جب دسمبر آتا ہے تو منیرنیازی،پروین شاکر سمیت دیگر شخصیات کی یاد شدت سے آتی ہے۔ بقول ان کی مشہورِ زمانہ اس نظم کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں''