پاکستان میں این جی اوز کا جال
اس طرح خاندان سماجی لحاظ سے تباہ ہو جاتا ہے
لاہور:
این جی اوز یعنی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن کا قیام 19ویں صدی میں عمل میں آیا۔ یہ تنظیمیں ترقی یافتہ ممالک سے فنڈ حاصل کرکے بہبود کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی بہبود کے ساتھ ساتھ بوڑھوں اور معذور افراد کی بہبود شامل ہے۔
نادار لوگوں کی مدد کے ساتھ جیلوں میں قید، قیدیوں کی بہبود، جرائم پیشہ افراد کی اصلاح اور بھکاریوں کی بھلائی جیسے کام بھی کر رہی ہیں۔ طبی سہولتوں کی فراہمی، سماجی تعلیم، تعلیم بالغان، انصاف کی فراہمی بالخصوص اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں اور جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معاملہ صرف فنڈ کے حصول اور اس کی خرد برد تک محدود رہتا تو اسے نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ان این جی اوز کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات کو نہ صرف پھیلایا جاتا ہے بلکہ اسے فروغ بھی دیا جاتا ہے۔
جس کا بنیادی مقصد مشرقی روایات، تہذیبی ورثہ بالخصوص خاندانی نظام کو تباہ کرکے لوگوں کو مذہب سے دور کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی تعلیمات میں ابہام اور فکری انتشار پیدا کرکے دین اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا شامل ہے۔ بیشتر این جی اوز آزادی نسواں کے دل فریب نعرے بلند کرکے مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں کے تحفظ نسواں کے نام پر نہ صرف پشت پناہی کی جاتی ہے بلکہ انھیں مزید خاندان سے بغاوت پر آمادہ بھی کیا جاتا ہے جس سے گھر سے بھاگنے کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
کوئی بھی باعزت خاندان اس متاثرہ خاندان سے رشتہ ناتا کرنے سے گریز کرتا ہے جس سے دونوں جانب کے گھرانے کے دیگر بچے اور بچیوں کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اس طرح خاندان سماجی لحاظ سے تباہ ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم این جی اوز پر لگائے جانے والے الزامات حقائق پر مبنی ہیں یا محض پروپیگنڈا۔ اس کا بہتر جواب سیاست کے طالب علم ہی دے سکتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں این جی اوز جن عوامی مسائل کو اجاگر کرکے ان کے حل کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ دینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ان مسائل کو غیر حقیقی مسائل کا نام دے کر انھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ان مسائل پر غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے ان پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
یہ تنظیمیں صرف بہبود کے کاموں میں ہی مصروف عمل نہیں ہیں بلکہ مفاد عامہ کے کسی بھی مسئلے بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر ظلم پر نہ صرف ردعمل کا اظہار کرتی ہیں بلکہ انھیں چیلنج بھی کرتی ہیں اور اپنی جدوجہد میں با اثر طبقات، وکلا، بیوروکریٹ، صحافی، ججز، اساتذہ اور طلبا جنھیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے انھیں شامل کرکے کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ ان تمام تر خدمات کے باوجود مذہبی، دینی سیاسی جماعتیں ان تنظیموں پر نہ صرف عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہیں بلکہ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کرتی ہیں۔
آپ نے سیو دی چلڈرن این جی او کا نام سنا ہوگا۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان نے انھیں ملک چھوڑنے کا کہا، ان کے دفاتر کو سیل کیا گیا، اس چیریٹی پر سی آئی اے کے لیے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کا الزام تھا۔ پاکستان میں 64,719 این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جب کہ اس وقت 48,737 این جی اوز غیر فعال اور تقریباً 15,982 این جی اوز فعال ہیں۔
مختلف این جی اوز نے رجسٹریشن کے لیے اکنامک افیئر ڈویژن میں 1165 درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان میں سے 614 درخواستیں منظور اور 213 کو مسترد کر دیا گیا تھا جب کہ 338 درخواستیں کلیئرنس کی منتظر ہیں۔وزرات داخلہ کے مطابق پاکستان میں 552 مقامی این جی اوز بیرونی فنڈنگ سے چل رہی ہیں، جن میں 117 این جی اوز امریکا اور 107 دیگر کو برطانیہ کی جانب سے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ 140 میں سے 106 بین الاقوامی این جی اوز پاکستان میں رجسٹرڈ ہوئیں۔نائن الیون کے بعد این جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس عمل میں 2005میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد تیزی دیکھنے میں آئی، پھر 2010 اور 2011 کے سیلابوں جیسے قدرتی آفات نے حکومت کو این جی اوز کا تعاون لینے پر مجبور کیا۔پاکستان میں یو ایس ایڈ بہت فعال این جی او ہے، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے این جی او سیکٹر کو فنڈز فراہم کرتی ہے۔
اس مرحلے پر سرکاری بیوروکریسی بھی شریک عمل ہو جاتی ہے۔ 1990 میں پاکستان پر امریکی پابندیاں لگنے کے بعد یو ایس ایڈ نے یہاں اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں مگر مشرف دور میں دوبارہ فعال ہوگئی۔این جی اوز نے لوگوں کو گھیر لیا ہے، بڑی بڑی باتیں کرکے لوگوں کو اپنی جانب کرنے والے ادارے کے جال نے نہ تو غربت میں کوئی کمی کی، نہ ہی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوسکا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر این جی او بری ہے مگر چھان بین بے حد ضروری ہے، کِسی تقریب میں چلے جائیں تو ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے سارے غریبوں کا درد صرف یہی بانٹ رہے ہیں۔
ہر گزرتا دن غربت اور جہالت میں اضافے کی خبر دیتا ہے۔ ہمیشہ دکھ رہا کہ جس تعداد میں '' این جی اوز'' مصروف عمل ہیں۔ اْس کے مطابق نتائج کبھی نظر نہیں آئے۔ اصل کے علاوہ جعلی تنظیموں کے پاس بھی کم از کم کروڑوں روپے ہیں۔
اب حکومت کا کام ہے کہ وہ گلی محلوں میں کْھلنے والے بیکار اسکولوں مثل اِن جعلی تنظیموں کے خلاف موثر فوری ایکشن لے۔ اس کے علاوہ اْن تمام ''این جی اوز'' کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے جوکام توکر رہی ہیں درجنوں اداروں کے نام پر مگر اْن کی سروسز محدود حد تک ہیں۔اس تحقیق کے نتیجے میں لگے کہ مسائل اگر حقائق پر مبنی ہیں تو اس کے خاتمے کے لیے واضح لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ ان مسائل کا تدارک کیا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو اپنا کر ہی پاکستان میں منفی سرگرمیاں انجام دینے والی این جی اوز کے کردار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔
این جی اوز یعنی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن کا قیام 19ویں صدی میں عمل میں آیا۔ یہ تنظیمیں ترقی یافتہ ممالک سے فنڈ حاصل کرکے بہبود کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی بہبود کے ساتھ ساتھ بوڑھوں اور معذور افراد کی بہبود شامل ہے۔
نادار لوگوں کی مدد کے ساتھ جیلوں میں قید، قیدیوں کی بہبود، جرائم پیشہ افراد کی اصلاح اور بھکاریوں کی بھلائی جیسے کام بھی کر رہی ہیں۔ طبی سہولتوں کی فراہمی، سماجی تعلیم، تعلیم بالغان، انصاف کی فراہمی بالخصوص اقلیتوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں اور جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معاملہ صرف فنڈ کے حصول اور اس کی خرد برد تک محدود رہتا تو اسے نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ان این جی اوز کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات کو نہ صرف پھیلایا جاتا ہے بلکہ اسے فروغ بھی دیا جاتا ہے۔
جس کا بنیادی مقصد مشرقی روایات، تہذیبی ورثہ بالخصوص خاندانی نظام کو تباہ کرکے لوگوں کو مذہب سے دور کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی تعلیمات میں ابہام اور فکری انتشار پیدا کرکے دین اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنا شامل ہے۔ بیشتر این جی اوز آزادی نسواں کے دل فریب نعرے بلند کرکے مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں کے تحفظ نسواں کے نام پر نہ صرف پشت پناہی کی جاتی ہے بلکہ انھیں مزید خاندان سے بغاوت پر آمادہ بھی کیا جاتا ہے جس سے گھر سے بھاگنے کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
کوئی بھی باعزت خاندان اس متاثرہ خاندان سے رشتہ ناتا کرنے سے گریز کرتا ہے جس سے دونوں جانب کے گھرانے کے دیگر بچے اور بچیوں کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اس طرح خاندان سماجی لحاظ سے تباہ ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم این جی اوز پر لگائے جانے والے الزامات حقائق پر مبنی ہیں یا محض پروپیگنڈا۔ اس کا بہتر جواب سیاست کے طالب علم ہی دے سکتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں این جی اوز جن عوامی مسائل کو اجاگر کرکے ان کے حل کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ دینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ان مسائل کو غیر حقیقی مسائل کا نام دے کر انھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ان مسائل پر غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے ان پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
یہ تنظیمیں صرف بہبود کے کاموں میں ہی مصروف عمل نہیں ہیں بلکہ مفاد عامہ کے کسی بھی مسئلے بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر ظلم پر نہ صرف ردعمل کا اظہار کرتی ہیں بلکہ انھیں چیلنج بھی کرتی ہیں اور اپنی جدوجہد میں با اثر طبقات، وکلا، بیوروکریٹ، صحافی، ججز، اساتذہ اور طلبا جنھیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے انھیں شامل کرکے کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ ان تمام تر خدمات کے باوجود مذہبی، دینی سیاسی جماعتیں ان تنظیموں پر نہ صرف عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہیں بلکہ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کرتی ہیں۔
آپ نے سیو دی چلڈرن این جی او کا نام سنا ہوگا۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان نے انھیں ملک چھوڑنے کا کہا، ان کے دفاتر کو سیل کیا گیا، اس چیریٹی پر سی آئی اے کے لیے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کا الزام تھا۔ پاکستان میں 64,719 این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جب کہ اس وقت 48,737 این جی اوز غیر فعال اور تقریباً 15,982 این جی اوز فعال ہیں۔
مختلف این جی اوز نے رجسٹریشن کے لیے اکنامک افیئر ڈویژن میں 1165 درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان میں سے 614 درخواستیں منظور اور 213 کو مسترد کر دیا گیا تھا جب کہ 338 درخواستیں کلیئرنس کی منتظر ہیں۔وزرات داخلہ کے مطابق پاکستان میں 552 مقامی این جی اوز بیرونی فنڈنگ سے چل رہی ہیں، جن میں 117 این جی اوز امریکا اور 107 دیگر کو برطانیہ کی جانب سے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ 140 میں سے 106 بین الاقوامی این جی اوز پاکستان میں رجسٹرڈ ہوئیں۔نائن الیون کے بعد این جی اوز کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس عمل میں 2005میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد تیزی دیکھنے میں آئی، پھر 2010 اور 2011 کے سیلابوں جیسے قدرتی آفات نے حکومت کو این جی اوز کا تعاون لینے پر مجبور کیا۔پاکستان میں یو ایس ایڈ بہت فعال این جی او ہے، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے این جی او سیکٹر کو فنڈز فراہم کرتی ہے۔
اس مرحلے پر سرکاری بیوروکریسی بھی شریک عمل ہو جاتی ہے۔ 1990 میں پاکستان پر امریکی پابندیاں لگنے کے بعد یو ایس ایڈ نے یہاں اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں مگر مشرف دور میں دوبارہ فعال ہوگئی۔این جی اوز نے لوگوں کو گھیر لیا ہے، بڑی بڑی باتیں کرکے لوگوں کو اپنی جانب کرنے والے ادارے کے جال نے نہ تو غربت میں کوئی کمی کی، نہ ہی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوسکا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر این جی او بری ہے مگر چھان بین بے حد ضروری ہے، کِسی تقریب میں چلے جائیں تو ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے سارے غریبوں کا درد صرف یہی بانٹ رہے ہیں۔
ہر گزرتا دن غربت اور جہالت میں اضافے کی خبر دیتا ہے۔ ہمیشہ دکھ رہا کہ جس تعداد میں '' این جی اوز'' مصروف عمل ہیں۔ اْس کے مطابق نتائج کبھی نظر نہیں آئے۔ اصل کے علاوہ جعلی تنظیموں کے پاس بھی کم از کم کروڑوں روپے ہیں۔
اب حکومت کا کام ہے کہ وہ گلی محلوں میں کْھلنے والے بیکار اسکولوں مثل اِن جعلی تنظیموں کے خلاف موثر فوری ایکشن لے۔ اس کے علاوہ اْن تمام ''این جی اوز'' کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے جوکام توکر رہی ہیں درجنوں اداروں کے نام پر مگر اْن کی سروسز محدود حد تک ہیں۔اس تحقیق کے نتیجے میں لگے کہ مسائل اگر حقائق پر مبنی ہیں تو اس کے خاتمے کے لیے واضح لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ ان مسائل کا تدارک کیا جاسکے۔ اس حکمت عملی کو اپنا کر ہی پاکستان میں منفی سرگرمیاں انجام دینے والی این جی اوز کے کردار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔