آج کی روٹی کی فریاد
آج کا قحط زدہ تھر ان دنوں ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ مجھے بھی اس کے بارے میں سیاپا فروشی کرتے رہنا چاہیے
اپنا ہر کالم لکھنے سے پہلے مجھے ہمیشہ بڑی پریشانی اور بے چینی بھگتنا پڑتی ہے۔ پہلے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس موضوع پر لکھا جائے۔ وہ طے بھی ہو جائے تو یہ خیال ستانا شروع ہو جاتا ہے کہ اس موضوع کے حوالے سے کوئی نئی بات کیسے کہی جائے۔ میں اپنے بہت سارے کالم نگار دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ ان کی تحریروں کو گزشتہ دو تین روز سے بڑے غور سے پڑھنے کے بعد بالآخر میں نے دریافت کر ہی لیا کہ کامیاب فلموں کی طرح کالم نگاری کا بھی ایک مجرب فارمولا ہے۔ اس پر دسترس حاصل کر لینے کے بعد کالم نگار کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔
آج کا قحط زدہ تھر ان دنوں ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ مجھے بھی اس کے بارے میں سیاپا فروشی کرتے رہنا چاہیے۔ تو ابتداء کرتے ہیں حضرت عمرؓ کے اس مشہور قول سے جس میں انھوں نے فرات کے کنارے کسی جانور کے مرنے کا ذمے دار بھی اپنی ذات کو قرار دیا تھا۔ اس فقرے سے ابتداء کرنے کے بعد مگر میرے شیطان کے دیے وسوسوں سے بھرے ذہن میں فوراََ خیال آیا کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے حضرت عمرؓ اقتدار مطلق کے حامل تھے۔ ان کی رعایا کی بے پناہ اکثریت اسلام کی بدولت اُجاگر ہوئے انقلابی اور حب انسانی کے جذبات سے پوری سرشار تھی۔ ہمارے ہاں کا سیاسی نظام بنیادی طور پر برطانیہ کا دیا ہوا ہے۔ کئی برس تک ہم طے ہی نہ کر پائے کہ پاکستان میں ''اصل اقتدار'' کس کے پاس ہے۔ بالآخر جب یہ طے ہو گیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا ہے تو اس کی اصل ''اوقات'' ہمیں افتخار چوہدری صاحب کے سپریم کورٹ نے ہر روز دکھانا شروع کر دی۔ غالباََ اسی ''عذاب'' سے بچنے کے لیے تمام سیاستدانوں نے دن رات محنت کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم ڈالی اور بہت سارا اقتدار صوبوں کو منتقل کر دیا۔ مکمل صوبائی خود مختاری کے بعد نواز شریف صاحب کو تھر کی قحط سالی کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو ساری تنقید کا سامنا کرنا چاہیے۔ شاہ صاحب اپنی کوتاہی کا اعتراف تو فرما رہے ہیں مگر دوش سرکاری افسروں کو بھی دے رہے ہیں جنہوں نے انھیں ''بروقت'' آگاہ نہ کیا اور سرکاری گوداموں میں پڑی گندم ضرورت مندوں تک نہ پہنچ پائی۔ قائم علی شاہ کو اس اعتراف کے بعد پوری طرح معاف تو نہیں کیا گیا مگر بتدریج ہمیں یاد آنا شروع ہو گیا ہے کہ تھر کی انتظامیہ کے اصل سرخیل تو مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے تھے۔ امین فہیم سیاسی کے ساتھ ہی ساتھ روحانی رہنما بھی ہوا کرتے ہیں۔ تھر میں ان کے بے تحاشہ مرید ہیں جو اپنے سائیں کو نوٹ بھی دیتے ہیں اور ووٹ بھی۔ پیری مریدی کے حوالے سے مخدوم امین فہیم کا مقابلہ اس علاقے میں شاہ محمود قریشی اور پیر پگاڑا سے ہے۔ امین فہیم اور ان کی اولاد تھر میں پھیلتی بھوک سے لاتعلق رہے تو شاہ محمود قریشی کو کسی نہ کسی صورت میدان میں آنا چاہیے تھا۔
چند ہی ہفتے پہلے وہ عمران خان کو لے کر عمر کوٹ تشریف لے گئے تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ غوثیہ تحریک کے پیروکاروں نے انھیں بتایا ہو گا کہ تھر میں اس سال معمول سے کہیں کم بارش ہوئی ہے۔ شاہ محمود قریشی کو چاہیے تھا کہ وہ محض ''اللہ خیر کریسی'' سے کام نہ لیتے۔ عمران خان کو خبردار کرتے جو لوگوں کی مصیبتوں کو نوجوانوں کی لگن، رقم اور تنظیم سے حل کرنے کی مایہ ناز شہرت رکھتے ہیں۔ پیر پگاڑا ایسے معاملات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ویسے بھی سنا ہے کہ ان کے مریدوں کی زیادہ تعداد پاک بھارت سرحد کے اِس طرف نہیں اُس طرف ہے۔
تھر میں قحط سالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم لکھنے والے یقینا اس ''شاندار لنچ'' کا حوالہ دینے پر بھی مجبور ہیں جس میں ''ملائی کباب'' اور بریانی وغیرہ بھی تھالوں میں بھر کر رکھے گئے تھے۔ قائم علی شاہ صاحب اور ان کے حواریوں نے بھوک سے مرے بچوں کی ماؤں کو ملنے کے بعد بڑی سفاکی سے ان تھالوں کو بڑی وحشت کے ساتھ خالی کیا۔ شاہ صاحب کی اس سفاکی کا نواز شریف کے اس غصے سے تقابل کرنا بھی بہت ضروری ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نے اس وقت فرمایا جب انھیں اطلاع دی گئی کہ کھانا تیار ہے۔
حضرت عمرؓ کے حوالے، شاہ صاحب کا لنچ اور مخدوم امین فہیم کی خاندانی بے حسی کا بار بار ذکر مگر کالموں کو بور بنا رہا ہے۔ اسی لیے تو میرے کچھ Big Picture پر نظر رکھنے والے ساتھیوں نے اس امر پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے باقی رائے دہندگان کی طرح تھر والے بھی پیپلز پارٹی جیسی نکمّی، بدعنوان اور عوام کی بنیادی ضروریات سے ظالمانہ حد تک بے خبر سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کی عادت میں کیوں مبتلا ہیں۔ یہ سوال کرتے ہوئے میرے بہت ہی دانشور دوست یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ 1988ء سے نام نہاد ''شہری سندھ'' بھی تو ہمیشہ MQM کو منتخب کرتا چلا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو 1990ء کی دہائی میں پھر بھی دو مرتبہ اقتدار سے دور رکھا گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف نے سندھ کو پہلے مہر خاندان اور پھر تھر ہی کے ارباب غلام رحیم کے حوالے کر دیا۔ ارباب رحیم صاحب کی محبت میں تھر کے لوگوں نے ایک اُردو بولنے والے شوکت عزیز کو جو معاشی معجزہ آرائی کی صلاحیتوں سے مالامال تھے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے تاریخی اکثریت کے ساتھ کامیاب بھی کرایا تھا۔ تھر میں قحط سالی ارباب رحیم اور شوکت عزیز کے دورِ اقتدار میں بھی آئی تھی۔ اس کے اثرات ان دنوں کے قحط سے کہیں زیادہ خطرناک تھے۔ مگر میڈیا ابھی اتنا مستعد اور چوکس نہ ہوا تھا۔ کوئی خاص خبر نہ بن پائی۔
تاریخ اور تفصیلات میں لیکن الجھ جائیں تو سیاپا نہیں غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہمیں تو قائم علی شاہ سے استعفیٰ لینا ہے۔ انھیں سرکاری حکام نے تھر کی صورت حال کے بارے میں پوری طرح آگاہ کر دیا تھا۔ وہ مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ قائم علی شاہ کا استعفیٰ مانگتے ہوئے لیکن میرے شیطان کے دیے وسوسوں سے بھرے ذہن میں یہ خیال آ گیا کہ ایک سیاستدان چوہدری نثار علی خان بھی تو ہیں۔ وہ 1985ء سے قومی اسمبلی کے لیے ہونے والے ہر انتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ شاہ صاحب کی طرح ان کا ''آثارِ قدیمہ'' میں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے فضل سے دائمی جوان نظر آتے ہیں اور اپنی وزارت کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات کے بارے میں بھی باخبر ہونے کے دعوے دار۔
چند ہفتے پہلے ان کے ایک ماتحت افسر نے پارلیمان کے اراکین کو بتایا تھا کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے زیادہ ''غیر محفوظ'' شہر بن چکا ہے۔ یہاں چاروں طرف کالعدم تنظیموں کے Sleepers Cells پھیل چکے ہیں۔ اپنے ماتحت افسر کی دی ہوئی اس بریفنگ کے عین دوسرے روز چوہدری صاحب غصے سے تلملاتے ہوئے ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئے اور بڑے فخر سے یہ دعویٰ کر دیا کہ اُن کی محنت شاقہ کی بدولت اسلام آباد امن و امان کے حوالے سے ایک ناقابل تسخیر قلعہ بن چکا ہے۔ ان کے اس دعویٰ کے چند ہی روز بعد مگر اسلام آباد کی عدالتوں پر حملہ ہو گیا۔ میں نے ابھی تک کسی کالم نگار کو اس بات پر حیرت زدہ نہیں پایا کہ ٹیکسلا اور راولپنڈی کے ووٹر 1985ء سے چوہدری نثار علی خان کو منتخب کیوں کیے جا رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ انھوں نے کوئی ''پوٹھوہار فیسٹیول'' کرانے کے نام پر وقت ضایع نہیں کیا تھا۔ اصل وجہ مگر کچھ اور ہے جو میں خوفِ فسادِ خلق کے باعث لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ میرا مقصد تو صرف ایک روز کا کالم لکھ کر خدا سے ہمیں آج کی روٹی آج دے کی فریاد کرنا تھا۔ وہ فریاد میں نے کر ڈالی۔ آگے اللہ کرم کرے گا۔
آج کا قحط زدہ تھر ان دنوں ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ مجھے بھی اس کے بارے میں سیاپا فروشی کرتے رہنا چاہیے۔ تو ابتداء کرتے ہیں حضرت عمرؓ کے اس مشہور قول سے جس میں انھوں نے فرات کے کنارے کسی جانور کے مرنے کا ذمے دار بھی اپنی ذات کو قرار دیا تھا۔ اس فقرے سے ابتداء کرنے کے بعد مگر میرے شیطان کے دیے وسوسوں سے بھرے ذہن میں فوراََ خیال آیا کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے حضرت عمرؓ اقتدار مطلق کے حامل تھے۔ ان کی رعایا کی بے پناہ اکثریت اسلام کی بدولت اُجاگر ہوئے انقلابی اور حب انسانی کے جذبات سے پوری سرشار تھی۔ ہمارے ہاں کا سیاسی نظام بنیادی طور پر برطانیہ کا دیا ہوا ہے۔ کئی برس تک ہم طے ہی نہ کر پائے کہ پاکستان میں ''اصل اقتدار'' کس کے پاس ہے۔ بالآخر جب یہ طے ہو گیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا ہے تو اس کی اصل ''اوقات'' ہمیں افتخار چوہدری صاحب کے سپریم کورٹ نے ہر روز دکھانا شروع کر دی۔ غالباََ اسی ''عذاب'' سے بچنے کے لیے تمام سیاستدانوں نے دن رات محنت کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم ڈالی اور بہت سارا اقتدار صوبوں کو منتقل کر دیا۔ مکمل صوبائی خود مختاری کے بعد نواز شریف صاحب کو تھر کی قحط سالی کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو ساری تنقید کا سامنا کرنا چاہیے۔ شاہ صاحب اپنی کوتاہی کا اعتراف تو فرما رہے ہیں مگر دوش سرکاری افسروں کو بھی دے رہے ہیں جنہوں نے انھیں ''بروقت'' آگاہ نہ کیا اور سرکاری گوداموں میں پڑی گندم ضرورت مندوں تک نہ پہنچ پائی۔ قائم علی شاہ کو اس اعتراف کے بعد پوری طرح معاف تو نہیں کیا گیا مگر بتدریج ہمیں یاد آنا شروع ہو گیا ہے کہ تھر کی انتظامیہ کے اصل سرخیل تو مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے تھے۔ امین فہیم سیاسی کے ساتھ ہی ساتھ روحانی رہنما بھی ہوا کرتے ہیں۔ تھر میں ان کے بے تحاشہ مرید ہیں جو اپنے سائیں کو نوٹ بھی دیتے ہیں اور ووٹ بھی۔ پیری مریدی کے حوالے سے مخدوم امین فہیم کا مقابلہ اس علاقے میں شاہ محمود قریشی اور پیر پگاڑا سے ہے۔ امین فہیم اور ان کی اولاد تھر میں پھیلتی بھوک سے لاتعلق رہے تو شاہ محمود قریشی کو کسی نہ کسی صورت میدان میں آنا چاہیے تھا۔
چند ہی ہفتے پہلے وہ عمران خان کو لے کر عمر کوٹ تشریف لے گئے تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ غوثیہ تحریک کے پیروکاروں نے انھیں بتایا ہو گا کہ تھر میں اس سال معمول سے کہیں کم بارش ہوئی ہے۔ شاہ محمود قریشی کو چاہیے تھا کہ وہ محض ''اللہ خیر کریسی'' سے کام نہ لیتے۔ عمران خان کو خبردار کرتے جو لوگوں کی مصیبتوں کو نوجوانوں کی لگن، رقم اور تنظیم سے حل کرنے کی مایہ ناز شہرت رکھتے ہیں۔ پیر پگاڑا ایسے معاملات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ویسے بھی سنا ہے کہ ان کے مریدوں کی زیادہ تعداد پاک بھارت سرحد کے اِس طرف نہیں اُس طرف ہے۔
تھر میں قحط سالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم لکھنے والے یقینا اس ''شاندار لنچ'' کا حوالہ دینے پر بھی مجبور ہیں جس میں ''ملائی کباب'' اور بریانی وغیرہ بھی تھالوں میں بھر کر رکھے گئے تھے۔ قائم علی شاہ صاحب اور ان کے حواریوں نے بھوک سے مرے بچوں کی ماؤں کو ملنے کے بعد بڑی سفاکی سے ان تھالوں کو بڑی وحشت کے ساتھ خالی کیا۔ شاہ صاحب کی اس سفاکی کا نواز شریف کے اس غصے سے تقابل کرنا بھی بہت ضروری ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نے اس وقت فرمایا جب انھیں اطلاع دی گئی کہ کھانا تیار ہے۔
حضرت عمرؓ کے حوالے، شاہ صاحب کا لنچ اور مخدوم امین فہیم کی خاندانی بے حسی کا بار بار ذکر مگر کالموں کو بور بنا رہا ہے۔ اسی لیے تو میرے کچھ Big Picture پر نظر رکھنے والے ساتھیوں نے اس امر پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے باقی رائے دہندگان کی طرح تھر والے بھی پیپلز پارٹی جیسی نکمّی، بدعنوان اور عوام کی بنیادی ضروریات سے ظالمانہ حد تک بے خبر سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کی عادت میں کیوں مبتلا ہیں۔ یہ سوال کرتے ہوئے میرے بہت ہی دانشور دوست یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ 1988ء سے نام نہاد ''شہری سندھ'' بھی تو ہمیشہ MQM کو منتخب کرتا چلا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو 1990ء کی دہائی میں پھر بھی دو مرتبہ اقتدار سے دور رکھا گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف نے سندھ کو پہلے مہر خاندان اور پھر تھر ہی کے ارباب غلام رحیم کے حوالے کر دیا۔ ارباب رحیم صاحب کی محبت میں تھر کے لوگوں نے ایک اُردو بولنے والے شوکت عزیز کو جو معاشی معجزہ آرائی کی صلاحیتوں سے مالامال تھے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے تاریخی اکثریت کے ساتھ کامیاب بھی کرایا تھا۔ تھر میں قحط سالی ارباب رحیم اور شوکت عزیز کے دورِ اقتدار میں بھی آئی تھی۔ اس کے اثرات ان دنوں کے قحط سے کہیں زیادہ خطرناک تھے۔ مگر میڈیا ابھی اتنا مستعد اور چوکس نہ ہوا تھا۔ کوئی خاص خبر نہ بن پائی۔
تاریخ اور تفصیلات میں لیکن الجھ جائیں تو سیاپا نہیں غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہمیں تو قائم علی شاہ سے استعفیٰ لینا ہے۔ انھیں سرکاری حکام نے تھر کی صورت حال کے بارے میں پوری طرح آگاہ کر دیا تھا۔ وہ مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ قائم علی شاہ کا استعفیٰ مانگتے ہوئے لیکن میرے شیطان کے دیے وسوسوں سے بھرے ذہن میں یہ خیال آ گیا کہ ایک سیاستدان چوہدری نثار علی خان بھی تو ہیں۔ وہ 1985ء سے قومی اسمبلی کے لیے ہونے والے ہر انتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ شاہ صاحب کی طرح ان کا ''آثارِ قدیمہ'' میں شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے فضل سے دائمی جوان نظر آتے ہیں اور اپنی وزارت کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات کے بارے میں بھی باخبر ہونے کے دعوے دار۔
چند ہفتے پہلے ان کے ایک ماتحت افسر نے پارلیمان کے اراکین کو بتایا تھا کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے زیادہ ''غیر محفوظ'' شہر بن چکا ہے۔ یہاں چاروں طرف کالعدم تنظیموں کے Sleepers Cells پھیل چکے ہیں۔ اپنے ماتحت افسر کی دی ہوئی اس بریفنگ کے عین دوسرے روز چوہدری صاحب غصے سے تلملاتے ہوئے ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئے اور بڑے فخر سے یہ دعویٰ کر دیا کہ اُن کی محنت شاقہ کی بدولت اسلام آباد امن و امان کے حوالے سے ایک ناقابل تسخیر قلعہ بن چکا ہے۔ ان کے اس دعویٰ کے چند ہی روز بعد مگر اسلام آباد کی عدالتوں پر حملہ ہو گیا۔ میں نے ابھی تک کسی کالم نگار کو اس بات پر حیرت زدہ نہیں پایا کہ ٹیکسلا اور راولپنڈی کے ووٹر 1985ء سے چوہدری نثار علی خان کو منتخب کیوں کیے جا رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ انھوں نے کوئی ''پوٹھوہار فیسٹیول'' کرانے کے نام پر وقت ضایع نہیں کیا تھا۔ اصل وجہ مگر کچھ اور ہے جو میں خوفِ فسادِ خلق کے باعث لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ میرا مقصد تو صرف ایک روز کا کالم لکھ کر خدا سے ہمیں آج کی روٹی آج دے کی فریاد کرنا تھا۔ وہ فریاد میں نے کر ڈالی۔ آگے اللہ کرم کرے گا۔