آئیے مکران چلیں
سندھ کی شہزادی سسی نے یونہی تو کیچ مکران کے ہوت شہزادے کی راہ میں اپنا آپ نہیں گنوایا تھا۔
ابھی کچھ سال اُدھرکوئٹہ میں ایک روزنامے کے زیر اہتمام منعقدہ مذاکرہ میں ایک بلوچ دانش ور نے جب دورانِ بحث ایک مبصر سے الجھتے ہوئے کہہ دیا کہ 'مکران اِز دی ہول بلوچستان' تو اس پہ خاصی ڈھنڈیا پڑگئی۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اہل الرئے افراد میں سے لگ بھگ سبھی نے اس رائے کو انتہاپسندانہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کر دیا۔حتیٰ کہ خود یہ بیان دینے والے دانش ور کو کچھ ہی دیر میں اپنے مؤقف سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ گوکہ اس رائے سے کلی طور پر اتفاق حقیقتاً ممکن نہیں، لیکن اگر آپ ایک بار 'ہول مکران' گھوم کر دیکھ لیں تو اس رائے سے اختلاف کرنا آپ کے لیے خاصا مشکل ہو جائے گا۔طویل ساحلی پٹی کے خزانے سے معمور ،بیک وقت ایران،افغانستان اور خلیجی ممالک کی سرحدوں سے ملحق مکران کے نام سے جانا جانے والا یہ علاقہ درحقیقت بلوچستان کا حقیقی چہرہ ہے۔اس چہرے سے آشنائی آپ کو بلوچستان کے حسن سے آشنا کروائے گی۔ایک بارآپ مکران آشنا ہو جائیں تو بلوچ آشنا ہو جائیں گے، بلوچستان آشنا ہو جائیں گے۔
یہاں کا حسن،یہاں کی دوستی، یہاں کی فضا میں رچی بسی مدھرتا،اس کا حسین ساحل، اس کی خوبصورتی، یہ سب آپ کو اپنا گرویدہ بنا لیں گے۔اگر آپ ذرا سا بھی ذوقِ طبع رکھتے ہیں توایک بار آشنائی کے بعد یہاں کی فضا سے دوری آپ کے لیے سہل نہ ہو گی۔ سندھ کی شہزادی سسی نے یونہی تو کیچ مکران کے ہوت شہزادے کی راہ میں اپنا آپ نہیں گنوایا تھا۔
مشرقی بلوچستان سے تعلق ہونے اورکوئٹہ میں ایک عمر بِتانے کے باوجود میں جب بھی مکران گیا ہوں، یہ مجھ پہ بالکل یوں منکشف ہوا ہے جیسے دیوانِ غالبؔ بیسیوں بار پڑھنے کے باوجود ہر بار معنی کے نئے لمس سے آشنا کرواتا ہے؛ جیسے محبوبہ سے ہر ملاقات پہلی ملاقات سی لگتی ہے؛ جیسے وصل کا ہر لمحہ آنکھوں میں نئے خواب اگاتا ہے ، جیسے 'وفا باسی نہیں ہوتی' ایسے خیال کے خالق مکران کے عطا شادؔ کا کلام کبھی باسی نہیں ہوتا، یونھی اس دیس کی فضا عشاق کے لیے کبھی باسی نہیں ہوتی۔
ایک اچھی بات اس بار یہ بھی ہوئی کہ ڈھلتی خزاں کے موسم میں اب کے اس دیس کی اَور سفر میں مجھے اسی سرزمین کے اہلِ ذوق کا ساتھ میسر رہا۔پاکستانی ٹیلی وژن کے نوجوان پروڈیوسر حفیظ بلوچ کی مشاق ڈرائیونگ، جامعہ بلوچستان میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے پروفیسر،اعجاز بلوچ کی ہم راہی اور یہیں اسی یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے والے نوجوان نسیم بلوچ کی سنگت۔حفیظ بلوچ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرح ہمہ وقت محوگفت گو رہتے اور رکھتے ہیں، تاکہ سفر میں سہولت رہے۔ اعجاز بلوچ ،قوالی کے استاد کے ہم نواؤں کی طرح مسلسل ان کا ساتھ نبھائے چلے جاتے ہیں، نوجوان نسیم بلوچ بھی اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے وقفے وقفے سے درمیان میں سُر اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں اس خداداد صلاحیت سے محروم سدا کا کم گو، بولنے کی بجائے سننے اور نظاروں سے محظوظ ہونے میں محو رہتا ہوں اور اپنے ہم سفروں کی بوریت کا سامان کرتا رہتا ہوں۔
ہم نے کوئٹہ سے گوادر اور پھر تربت کی جانب رختِ سفرکرنا تھا۔ کوئٹہ سے صبح سویرے روانگی کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ اوتھل تھا۔ رات یہاں اوتھل یونیورسٹی میں کچھ احباب کے ساتھ گزار کے صبح سویرے پھر ہم نے گوادر کی جانب نکلنا تھا۔اوتھل یونیورسٹی آف میرین سائنسز اب تک باقاعدہ یونیورسٹی بننے کے مراحل میں ہے۔یہاں داخل ہوں تو اندر سے کہیں بھی یہ یونیورسٹی ہونے کا پتہ نہیں دیتی۔ محدود ڈپارٹمنٹس میں محدود طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن معیارکسی صورت پاکستان کی نامور یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ بیشتر اساتذہ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ خاصی تعداد اب بھی اسکالرشپس پہ مختلف یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے زیر تعلیم ہے۔ اور اچھی بات یہ کہ یہاں سے بیرونِ ملک جانے والا کوئی استاد وہیں کا ہو کر نہیں رہ جاتا، بلکہ واپس آکر اپنے پسماندہ دیس کے بچوں میں علم تقسیم کرتا ہے۔
اوتھل یونیورسٹی میں آنا بانصیب ہوا۔ یہاں بلوچ دانش کے اہم ستون سے ملاقات نصیب میں ٹھہری، جن کے ذکر کے بغیر مکران کا ذکر بھی مکمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اب تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نام لیے بغیر مکران کا ذکر شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ اور ہماری نالائقی کا عالم دیکھیے کہ جب ملاقات میں دوستوں نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ 'یہ ڈاکٹر حمید بلوچ ہیں، آپ تو ان سے واقف ہوں گے ہی' تو میں نے شاندار جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دم سے نہ کہہ دیا، جب کہ انھوں نے مجھے محض میرے نام سے ہی پہچان لیا۔ اور پھر جب میری جہالت مٹانے کے لیے کہا گیا 'وہ حمید بلوچ جنھوں نے مکران کی تاریخ لکھی'... تو مجھ پہ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ میں ایک دم سے اٹھا ، ان کے پیر پکڑ لیے اور وہیں زانوئے تلمذ تہہ کر کے بیٹھ گیا۔
آپ کا حمید بلوچ سے تعارف نہیں تو آپ مکران سے متعارف نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان سے متعلق تاریخ کی اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، لگ بھگ سبھی گڈ مڈ سی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ مستشرقین نے جو لکھا، اپنے مفاد کے تحت لکھا۔ مقامی لکھاریوں نے زیادہ تر انھی سے استفادہ کیا اور اس میں بھی اکثر لکھنے والے اپنی 'بلوچیت' کے ہاتھوں مغلوب ہوکر اپنے قبیلے اور علاقے کی تاریخ تک محدود رہے، یا اس کا تذکرہ اتنا رہا کہ باقی بلوچستان پس منظر میں چلا گیا۔ اس لیے حمید بلوچ نے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے اور غلط سلط تاریخِ بلوچستان لکھنے کی بجائے درست تاریخِ مکران لکھ ڈالی۔'مکران، عہد قدیم سے عہد جدید تک' نامی ساڑھے چارسو صفحات پہ پھیلی ان کی کتاب 2009ء میں منظر عام پہ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے منظر نامے پہ چھا گئی۔ اب تک اس کتاب کے دو، چار ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں، جو بلوچستان میں کسی کتاب کے لیے اعزاز ہی نہیں بلکہ شاید ریکارڈ بھی ہے۔اٹھارہ ابواب میں تقسیم یہ علمی و تحقیقی کتاب مکران نامی خطے کا مفصل تعارف پیش کرتی ہے۔ تحقیقی حوالہ جات سے پُر ان کی اس کتاب میں اگر کوئی خامی ہے تو محض زبان کی اغلاط، جسے اب بلوچ لکھاریوں نے اپنا ٹریڈ مارک بنا لیا ہے۔ حالانکہ اسی ادیب نے انگریزی میں بھی بلوچستان سے متعلق کوئی نصف درجن کتب تحریر کی ہیں، لیکن وہاں ان کی زبان خاصی شستہ اور غلطیوں سے پاک ہے۔ کاش اردو کتب میں بھی وہ اس کا اہتمام کر لیتے۔بہرکیف اسی کتاب میں پہلی بار مکران کی طبقاتی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔ وگرنہ ہمارے روشن خیال مکرانی دانش ور یہاں نہایت دھڑلے سے بلوچستان میں طبقات کے عدم وجود کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، جس کی مثال میں وہ مکران کو پیش کرتے ہیں۔ حمید بلوچ کی تحقیق نے اس دعوے کو علمی سطح پر رد کر دیا ہے۔ اس کتاب کے تیسرے باب 'مکران کے سماجی نظام کے خدوخال' کے آغاز میں ہی بتایا گیا ہے کہ مکران کا سماجی نظام تین طبقات میں تقسیم رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ مکران میں غلامی کو ابھی 1926 میں خلافِ قانون قرار دیا گیا، لیکن بقول محقق اس کے باوجود 'غلام طبقے پر اس اعلامیے کا کوئی اثر نہیں پڑا۔وہ (غلام ) طویل عرصے تک انھی(شاہی) خاندانوں میں بطور گھریلو ملازم کام کرتے رہے۔'
بہرکیف کچھ بیرونی سازشوں اور کچھ اپنوں کی غفلت کے مارے مکران سے ہی منتخب ہونے والے سیاسی احباب اب موجودہ بلوچستان کے 'مالک' ہیں۔ ان کی 'مالکی 'میں آج کے مکران کا حال کیسا ہے؟ ...یہی جاننے کے لیے آئیے مکران چلتے ہیں۔
یہاں کا حسن،یہاں کی دوستی، یہاں کی فضا میں رچی بسی مدھرتا،اس کا حسین ساحل، اس کی خوبصورتی، یہ سب آپ کو اپنا گرویدہ بنا لیں گے۔اگر آپ ذرا سا بھی ذوقِ طبع رکھتے ہیں توایک بار آشنائی کے بعد یہاں کی فضا سے دوری آپ کے لیے سہل نہ ہو گی۔ سندھ کی شہزادی سسی نے یونہی تو کیچ مکران کے ہوت شہزادے کی راہ میں اپنا آپ نہیں گنوایا تھا۔
مشرقی بلوچستان سے تعلق ہونے اورکوئٹہ میں ایک عمر بِتانے کے باوجود میں جب بھی مکران گیا ہوں، یہ مجھ پہ بالکل یوں منکشف ہوا ہے جیسے دیوانِ غالبؔ بیسیوں بار پڑھنے کے باوجود ہر بار معنی کے نئے لمس سے آشنا کرواتا ہے؛ جیسے محبوبہ سے ہر ملاقات پہلی ملاقات سی لگتی ہے؛ جیسے وصل کا ہر لمحہ آنکھوں میں نئے خواب اگاتا ہے ، جیسے 'وفا باسی نہیں ہوتی' ایسے خیال کے خالق مکران کے عطا شادؔ کا کلام کبھی باسی نہیں ہوتا، یونھی اس دیس کی فضا عشاق کے لیے کبھی باسی نہیں ہوتی۔
ایک اچھی بات اس بار یہ بھی ہوئی کہ ڈھلتی خزاں کے موسم میں اب کے اس دیس کی اَور سفر میں مجھے اسی سرزمین کے اہلِ ذوق کا ساتھ میسر رہا۔پاکستانی ٹیلی وژن کے نوجوان پروڈیوسر حفیظ بلوچ کی مشاق ڈرائیونگ، جامعہ بلوچستان میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے پروفیسر،اعجاز بلوچ کی ہم راہی اور یہیں اسی یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے والے نوجوان نسیم بلوچ کی سنگت۔حفیظ بلوچ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرح ہمہ وقت محوگفت گو رہتے اور رکھتے ہیں، تاکہ سفر میں سہولت رہے۔ اعجاز بلوچ ،قوالی کے استاد کے ہم نواؤں کی طرح مسلسل ان کا ساتھ نبھائے چلے جاتے ہیں، نوجوان نسیم بلوچ بھی اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے وقفے وقفے سے درمیان میں سُر اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں اس خداداد صلاحیت سے محروم سدا کا کم گو، بولنے کی بجائے سننے اور نظاروں سے محظوظ ہونے میں محو رہتا ہوں اور اپنے ہم سفروں کی بوریت کا سامان کرتا رہتا ہوں۔
ہم نے کوئٹہ سے گوادر اور پھر تربت کی جانب رختِ سفرکرنا تھا۔ کوئٹہ سے صبح سویرے روانگی کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ اوتھل تھا۔ رات یہاں اوتھل یونیورسٹی میں کچھ احباب کے ساتھ گزار کے صبح سویرے پھر ہم نے گوادر کی جانب نکلنا تھا۔اوتھل یونیورسٹی آف میرین سائنسز اب تک باقاعدہ یونیورسٹی بننے کے مراحل میں ہے۔یہاں داخل ہوں تو اندر سے کہیں بھی یہ یونیورسٹی ہونے کا پتہ نہیں دیتی۔ محدود ڈپارٹمنٹس میں محدود طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن معیارکسی صورت پاکستان کی نامور یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ بیشتر اساتذہ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ خاصی تعداد اب بھی اسکالرشپس پہ مختلف یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے زیر تعلیم ہے۔ اور اچھی بات یہ کہ یہاں سے بیرونِ ملک جانے والا کوئی استاد وہیں کا ہو کر نہیں رہ جاتا، بلکہ واپس آکر اپنے پسماندہ دیس کے بچوں میں علم تقسیم کرتا ہے۔
اوتھل یونیورسٹی میں آنا بانصیب ہوا۔ یہاں بلوچ دانش کے اہم ستون سے ملاقات نصیب میں ٹھہری، جن کے ذکر کے بغیر مکران کا ذکر بھی مکمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اب تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نام لیے بغیر مکران کا ذکر شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ اور ہماری نالائقی کا عالم دیکھیے کہ جب ملاقات میں دوستوں نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ 'یہ ڈاکٹر حمید بلوچ ہیں، آپ تو ان سے واقف ہوں گے ہی' تو میں نے شاندار جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دم سے نہ کہہ دیا، جب کہ انھوں نے مجھے محض میرے نام سے ہی پہچان لیا۔ اور پھر جب میری جہالت مٹانے کے لیے کہا گیا 'وہ حمید بلوچ جنھوں نے مکران کی تاریخ لکھی'... تو مجھ پہ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ میں ایک دم سے اٹھا ، ان کے پیر پکڑ لیے اور وہیں زانوئے تلمذ تہہ کر کے بیٹھ گیا۔
آپ کا حمید بلوچ سے تعارف نہیں تو آپ مکران سے متعارف نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان سے متعلق تاریخ کی اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، لگ بھگ سبھی گڈ مڈ سی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ مستشرقین نے جو لکھا، اپنے مفاد کے تحت لکھا۔ مقامی لکھاریوں نے زیادہ تر انھی سے استفادہ کیا اور اس میں بھی اکثر لکھنے والے اپنی 'بلوچیت' کے ہاتھوں مغلوب ہوکر اپنے قبیلے اور علاقے کی تاریخ تک محدود رہے، یا اس کا تذکرہ اتنا رہا کہ باقی بلوچستان پس منظر میں چلا گیا۔ اس لیے حمید بلوچ نے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے اور غلط سلط تاریخِ بلوچستان لکھنے کی بجائے درست تاریخِ مکران لکھ ڈالی۔'مکران، عہد قدیم سے عہد جدید تک' نامی ساڑھے چارسو صفحات پہ پھیلی ان کی کتاب 2009ء میں منظر عام پہ آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے منظر نامے پہ چھا گئی۔ اب تک اس کتاب کے دو، چار ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں، جو بلوچستان میں کسی کتاب کے لیے اعزاز ہی نہیں بلکہ شاید ریکارڈ بھی ہے۔اٹھارہ ابواب میں تقسیم یہ علمی و تحقیقی کتاب مکران نامی خطے کا مفصل تعارف پیش کرتی ہے۔ تحقیقی حوالہ جات سے پُر ان کی اس کتاب میں اگر کوئی خامی ہے تو محض زبان کی اغلاط، جسے اب بلوچ لکھاریوں نے اپنا ٹریڈ مارک بنا لیا ہے۔ حالانکہ اسی ادیب نے انگریزی میں بھی بلوچستان سے متعلق کوئی نصف درجن کتب تحریر کی ہیں، لیکن وہاں ان کی زبان خاصی شستہ اور غلطیوں سے پاک ہے۔ کاش اردو کتب میں بھی وہ اس کا اہتمام کر لیتے۔بہرکیف اسی کتاب میں پہلی بار مکران کی طبقاتی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔ وگرنہ ہمارے روشن خیال مکرانی دانش ور یہاں نہایت دھڑلے سے بلوچستان میں طبقات کے عدم وجود کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، جس کی مثال میں وہ مکران کو پیش کرتے ہیں۔ حمید بلوچ کی تحقیق نے اس دعوے کو علمی سطح پر رد کر دیا ہے۔ اس کتاب کے تیسرے باب 'مکران کے سماجی نظام کے خدوخال' کے آغاز میں ہی بتایا گیا ہے کہ مکران کا سماجی نظام تین طبقات میں تقسیم رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ مکران میں غلامی کو ابھی 1926 میں خلافِ قانون قرار دیا گیا، لیکن بقول محقق اس کے باوجود 'غلام طبقے پر اس اعلامیے کا کوئی اثر نہیں پڑا۔وہ (غلام ) طویل عرصے تک انھی(شاہی) خاندانوں میں بطور گھریلو ملازم کام کرتے رہے۔'
بہرکیف کچھ بیرونی سازشوں اور کچھ اپنوں کی غفلت کے مارے مکران سے ہی منتخب ہونے والے سیاسی احباب اب موجودہ بلوچستان کے 'مالک' ہیں۔ ان کی 'مالکی 'میں آج کے مکران کا حال کیسا ہے؟ ...یہی جاننے کے لیے آئیے مکران چلتے ہیں۔