خواتین کا عالمی دن اور عافیہ صدیقی
خواتین کےعالمی دن کےموقعےپرانسانی حقوق کےسرگرم علمبردارمعروف امریکی وکیل، شاعر اور اسکالر ‘ بھی پاکستان میں موجود تھے
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی جد و جہد تیز کرنے، ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے، انھیں سماجی انصاف فراہم کرنے، سیاسی سماجی طور پر مستحکم بنانے، اہم ملکی امور میں شامل کرانے کی جد و جہد عزم کا اظہار کیا گیا۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، امتیازی سلوک، عدم مساوات اور استحصال کو ختم کرنے اور ان کے حقوق و مسائل کو اجاگر کرنے کی باتیں اور وعدے ہوئے۔ ان سے متعلق گیت، رقص، ٹیبلو اور ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان تقریبات میں دہشت گردی کا شکار ہونے والی خاتون وکیل کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ کائنات سومرو، ملالہ یوسف زئی اور پروین بی بی کی زندگی کی مشکلات اور داستانیں سنائی گئیں۔ لیکن خواتین کے عالمی دن کے اس موقعے پر قومی اہمیت کے حامل سب سے اہم مسئلے کو پس پشت رکھا گیا۔ البتہ پاسبان خواتین کے سیمینار میں عافیہ صدیقی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پریس کلب کے سامنے عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے کے دوران علامتی طور پر ہتھکڑیوں میں جکڑی عافیہ اور امریکی صدر کو دکھایا گیا۔ خواتین اور بچوں کی کچھ تعداد اس مظاہرے میں شریک تھی۔
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انسانی حقوق کے سرگرم علمبردار معروف امریکی وکیل، شاعر اور اسکالر ' بھی پاکستان میں موجود تھے جو عالمی سطح پر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جد و جہد کررہے ہیں جن کا کہناہے کہ عالمی امن کے لیے عافیہ کی رہائی ضروری ہے۔ موری سلا ،ترکی، ملائیشیا، ساؤتھ افریقہ، مصر، برطانیہ، زیمبیا، فرانس، جرمنی سمیت درجنوں ممالک کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبا، وکلا اور صحافیوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر دنیا بھر کی 40 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرے اور عافیہ کی رہائی کے لیے اپنا بنیادی کردار ادا کرے۔ عافیہ کے خلاف فیصلہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ گرفتاری اور امریکی عدالت سے 86 سال کی سزا انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے جب کہ تمام ثبوت عافیہ کے حق میں تھے۔ ٹرائل کے موقع پر وہ خود کمرہ ٔ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ کونسل آف یورپ کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے عافیہ رہائی کیس جنوری 2014 میں واپس لے لیا ہے ایک طرف حکومتی اراکین عافیہ کی واپسی کی تسلیاں دے رہے ہیں، دوسری جانب عافیہ رہائی موومنٹ ختم کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ وہ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں تمام اکابرین کے دروازے کھٹکھٹا چکی ہیں سب جانب سے صرف تسلیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن عمل نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ نگراں حکومت کو شامل کرلیا جائے تو 7 حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں تمام وزرائے اعظم نے وعدے کیے لیکن کسی جانب سے وعدوں پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ 11 سال سے امریکی قید میں پابند سلاسل ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ پچھلے ایک عشرے سے اپنی بہن کے ساتھ انصاف اور اس کی رہائی کے لیے جس طرح ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوم رہی ہیں اقتدار کے ایوانوں، بار کونسلوں، پریس کلبوں میں انصاف کے لیے دہائی دے رہی ہیں۔ مختلف فورم اور عوامی اجتماعات سے خطاب کررہی ہیں۔ سیاسی و سماجی مذہبی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور قومی اکابرین اور قوم کی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اور ان کے خاندان کی استقامت اور قومی غیرت و حمیت کا جو رویہ سامنے آیا ہے وہ بلاشبہ انتہائی قابل رشک اور قابل تحسین ہے۔ دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار نے اس سلسلے میں بے حسی کا جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس سلسلے میں ملکی، انسانی اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں اور شخصیات کا رویہ بھی بڑا افسوس ناک اور دہرے معیار کا حامل نظر آتاہے۔
دنیا کے سامنے جوں جوں عافیہ صدیقی کے کیس کی حقیقت سامنے آتی جارہی ہے وہ اس کی رہائی کے لیے سرگرم اور منظم ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں دنیا کی انسانی حقوق سے متعلق 40 سے زائد تنظیموں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بین الاقوامی طور پر جد وجہد کا اعلان کیا ہے۔ عافیہ کا قیدی نمبر 650 کا انکشاف کرکے اس کی رہائی کی جد وجہد کا آغاز کرنے والی ایوان مریم ریڈلے بھی ایک برطانوی صحافی ہیں۔ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلرک بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ رمزے کلرک تو باقاعدہ جدوجہد کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور عوام کی توجہ اس انسانی مسئلے پر مرکوز کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومت اور عدلیہ کے ارکان سے ملاقاتیں اور بارکونسلز سے خطاب کرکے حکومتی سطح پر کوششیں کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے پاکستان کے ایک لیڈر (بھٹو) کو بچانے پاکستان آئے تھے۔ اس مرتبہ پاکستان کی بیٹی (عافیہ) کو بچانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکی سینیٹر اور صدارتی امیدوار مائیک گرپول بھی عافیہ کو معصوم شہری اور اس کو دی جانے والی ذہنی و جسمانی سزا اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر بھی عافیہ کو بے گناہ تسلیم کرکے اس کی رہائی کے لیے کوششوں کا آغاز کرچکی ہیں۔
انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں، شخصیات اور ارباب اقتدار و اختیار، روشن خیالی اور لبرل ازم کے دعویداروں کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر پر سرد مہری بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ایک عورت بچوں سمیت اغوا کرکے بین الاقوامی زندانوں میں قید کرکے بد نیتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر 86 سال قید کی سزا وار قرار دے دی جاتی ہے، اس وقت ان لوگوں کی زبانیں قوت گویائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ عافیہ کے معاملے میں بھی معاملہ فہمی کے بعد عافیہ کی رہائی کے لیے بھی عوامی دباؤ بڑھتا نظر آرہا ہے جس کے لیے باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے جس میں سابقہ امریکی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اگر یہ سلسلہ پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت شروع کردیا جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ عوامی و سیاسی رد عمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکومتیں عافیہ کے معاملے میں غفلت، مصلحت و منافقت کا شکار یا خود اس میں ملوث رہی ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں، فورم، بار کونسلز، ملکی و بین الاقوامی اداروں، حکومتوں کو یاد داشتیں ارسال کریں، قرار دادیں پاس کریں تاکہ حکومت اس بات پر مجبور ہوجائے اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرے اور مسئلے کے حل کی مخلصانہ کوششیں کرے اور خاص طورپر امریکا یہ بات محسوس کرلے کہ اب ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس عالمی اہمیت کے حامل انسانی مسئلے سے فرار ممکن نہیں ہے یہی خواتین کے عالمی دن کا تقاضا بھی ہے۔