درویش
درویش نے اہتمام سے کہا کہ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کرو۔ ممکن ہے جواب مل جائے
درویش سے گزشتہ دنوں کافی ملاقاتیں رہیں۔ کئی کئی گھنٹوں پر محیط ۔ پوچھا کہ جناب یہ ''مشاہدہ حق'' کیا ہے۔ آم کی قاش چوستے ہوئے رک گئے۔ ڈاکٹر یہ کیا سوال ہے؟
اس کا جواب تو ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے۔ بتاؤ قرآن حکیم پڑھا ہوا ہے۔ طالب علم کا جوا ب تھا کہ بالکل۔ بچپن میں ناظرہ پڑھا تھا۔ اب بھی کبھی کبھی ترجمہ کے ساتھ استفادہ کرتا ہوں۔ درویش انہماک سے آم کھا رہا تھا۔ جیسے اسے کسی قسم کی گفتگو کا علم ہی نہیں ہے۔ عرض کی حضور' آپ بات تو کر ہی نہیں رہے۔
درویش نے اہتمام سے کہا کہ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کرو۔ ممکن ہے جواب مل جائے۔ تذبذب دیکھ کر درویش نے آم کھانا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر ' کشف المحجوب پڑھو اور فوری پڑھو۔ داتا گنج بخش ؒ جیسے ولی نے روحانی معاملات کو حد درجہ آسان طریقے سے لوگوں کی سہولت کے لیے قلم بند کیا ہے۔ کشف المحجوب تو حد درجہ مشکل تحریر ہے۔ سمجھ بھی نہیں آتی۔ اب کیا کروں۔ درویش خاموش ہو گیا۔ پوچھا' کیسے پڑھتے ہو۔ عجیب سا سوال تھا۔ آنکھوں سے بلکہ نظر کی عینک لگا کر۔ ڈاکٹر' اس طرح کے ملفوظات آنکھ سے نہیں ' دل سے پڑھے جاتے ہیں۔
نظر تو صرف ایک ذریعہ ہے۔ درویش کا جواب متاثر کن تھا۔ ڈاکٹر'علم خدا سے ودیعت ہوتا ہے۔ مگر لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ ممکن صرف اور صرف خدا کے اذن سے ہی ہے۔ سب سے پہلے خدا سے توفیق مانگنی چاہیے۔ کہ باری تعالیٰ ' تیری الہامی کتاب پڑھنا چاہتا ہوں۔ اجازت دے۔ وسعت دے اور سمجھنے کی قوت اور بینائی بھی عطا فرما۔ وضو کر کے رب کریم سے منت کرنی چاہیے کہ جو دعا مانگ رہا ہوں' اس کو قبول فرما ۔ درویش کے بقول اکثر لوگ غلطی یہ کرتے ہیں ' کہ خدا کی اجازت اور رحمت کے بغیر ' اپنے بل بوتے پر کلام الٰہی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہی معاملہ صوفیا' ولیوں کی تصنیف شدہ ملفوظات کا ہے۔ ان کو بھی سنجیدگی سے پڑھنا چاہیے۔ پورے ادب سے مطالعہ ہونا چاہیے ۔ جہاں کوئی مشکل آ جائے' کوئی امر سمجھ نہ آئے' تو فوراً خدا کی بارگاہ میں جھک جانا چاہیے۔ کہ مولا' قلب کو روشنی دے تاکہ بات سمجھ میں آ جائے۔ ہر لفظ دلیل سے نہیں ' عشق کی عینک سے پڑھو گے تو معاملہ کچھ آگے بڑھے گا۔ درویش کی بات سن کر مجھے اچنبھا سا ہوا۔ یعنی اتنی محنت کے باوجود معاملہ صرف آگے بڑھے گا۔ پوری سمجھ کب آئے گی؟۔ درویش نے ہنسنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر! یہ خدا کا علم ہے۔ قرآن اسی کے حروف ہیں۔ اکثریت انسانی فہم سے اوپر ہیں۔ ہاں' آسان راستہ عمل کا ہے ۔ قرآن اور آقا ؐ کے احکامات کے تابع ہو جاؤ۔ فہم اور علم کے دروازے خودبخود کھل جائیں گے۔ ورنہ ساری زندگی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو گے۔
ہفتہ دس دن پہلے لاہور میں شدید بارش ہوئی۔ ہمارے ایک باہمی دوست جو کنسٹریکشن کا کام کرتے ہیں۔ ملازمین کی نااہلی سے انھیں حد درجہ نقصان ہوا۔خیر' میری موجودگی میں درویش کے پاس آیا۔ دوست آبدیدہ ہو گیا۔ کہنے لگا کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ درویش نے بڑی تشفی سے کہا۔ کہ مال دیا کس نے تھا۔ جواب تھا میں نے اپنی محنت سے کمایا تھا۔ درویش نے حد درجہ محبت سے کہا کہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ آپ کو اپنے بے کراں خزانے سے چند سکے عطا کر دے۔ اس میں آپ کا کمال حد درجہ ثانوی ہے۔
کہا انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا کرو۔ اور دوبارہ اپنی عمارت پر محنت شروع کر دو۔ خدا نے چاہا تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی۔ درویش نے سارا سارا دن ' باہمی دوست کی تباہ شدہ عمارت پر گزارنا شروع کر دیا۔ مزدوروں کے لیے ٹھنڈے پانی کا انتظام کردیا۔ جو لوگ عمارت گرا رہے تھے' ان کو کچی لسی اور لیموں پانی بنا کر پلانا شروع کر دیا۔ ان حرکات سے مزدوروں میں کرنٹ سا پیدا ہو گیا۔ انھوںنے دوگنا کام کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا کہ پیر والے دن' تمام لوگوں کو حددرجہ سادہ لنگر دینا ہے۔ پیر والے دن کی نسبت صوفیا کے نزدیک آقاؐ کی ولادت سے ہے۔
درویش پلاسٹک کی کرسی پر سارا دن بیٹھتا تھا۔ کام کرنے والے لوگوں سے گپ شپ لگاتا تھا۔ ایک دن' ایک نوجوان مزدور کا پاؤں زخمی ہو گیا۔ درویش میڈیکل اسٹور سے دوائی لایا۔ اپنے ہاتھ سے زخم صاف کیا اور بہترین مرہم پٹی کی۔ بتاتا چلوں کہ درویش ' کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹر ہے۔ حد درجہ کامیاب آئی سرجن ہے۔ مگر آپریشن کے کبھی بھی پیسے نہیں لیتا۔ دس بارہ ہزار میں گزارا کرتا ہے ۔ یہ کیا راز ہے' چالیس سالہ رفاقت کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آیا۔
بہر حال' بات نقصان کی ہو رہی تھی۔ درویش کی موجودگی نے اس جگہ کی کایا پلٹ ڈالی۔ آرکیٹکٹ کے معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ نقصان' ابتدائی اندازے سے قدرے کم تھا۔ درویش کا یہ روپ پہلے نہیں دیکھا تھا۔ دو دن پہلے ہمت کر کے سوال کیا کہ جناب یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ سن کر جواب دیا۔ ''سنگ'' کا مطلب پتہ ہے۔ بالکل' اس کا مطلب ہے'' ساتھ دینا''۔ بس یہی کنجی ہے ہر معاملہ کی۔ اگر میں اپنے سنگی کی تکلیف میں کھڑا نہیں ہونگا اور وہ بھی اذن الٰہی سے۔ تو پھر کون کھڑا ہو گا۔ سنگ ہی اصل چیز ہے۔فرض کرو کہ اگر خدا کے ساتھ سنگت ہو جائے تو معاملہ کتنا بہتر ہو جائے گا۔ یہی حکم ربی ہے کہ اس کے حکم سے لوگوں کے مشکل معاملات میں مدد کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
درویش نے اپنی انا کو ختم کر ڈالا ہے۔ بسوں میں سفر کرتا ہے ۔ موٹر سائیکل کو شاہی سواری کہتا ہے۔ رکشے میں سوار ہو کر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔کئی بار عرض کی کہ حضور' میںگاڑی بھیج دیتا ہوں۔ جواب ہوتاہے کہ میں نے عام مخلوقِ خدا کی طرح ہی رہنا ہے۔ درویش کی داتا گنج بخشؒ سے حد درجہ نسبت ہے ۔ ان کے عرس پر وہ بحیثیت ڈاکٹر' میڈیکل کیمپ لگاتا ہے۔زائرین کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ایمبولینس میں اسپتال چھوڑ کر آتا ہے۔ ہمیں کہتا ہے کہ جناب علی ہجویریؒ کا مرتبہ ولیوں میں حد درجہ بلند ہے۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متعلق بھی ایک دن حد درجہ غیر معمولی باتیں کیں۔ کہنے لگا کہ اللہ کی مرضی ہے کہ سالک کو مشاہدہ کے لیے کتنی قلبی بینائی عطا کرتا ہے۔ لوگ بحث میں پڑ کر خدا کی ذات' دنیا اور کائنات کے وجود اور اس کی شہادت پر بحث کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عطا ہے۔ کسی کو ہر رنگ میں خدا نظر آئے گا۔ اور کسی کو دوری محسوس ہو گی۔ درویش بڑی گہری باتیں ' بڑے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ کہا ہی نہیں۔ لیکن ہر تہہ دار رمز بیان ہوجاتی ہے۔
اکثر لوگوں کا گمان ہوتا ہے کہ فنا کی راہ پر چلنے والے لوگ' جسم پربھبھوت ملے ' لمبے لمبے بال اور گندے کپڑے پہنے مزاروں پر گھوم رہے ہونگے۔ سلفی کے دور چل رہے ہونگے۔ رقص اوردھمالوں کا دور دورہ ہو گا۔ مگر درویش تو کہتا ہے کہ دنیا میں شدید محنت' جائز رزق کی تلاش' تعلیم حاصل کرنا' یعنی تمام دنیاوی کام کرنا عین عبادت ہیں۔ شرط صرف ایک ہے کہ ان تمام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ ان تمام میں خدا کی انسیت مانگی جائے۔ درویش بذات خود حد درجہ صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے۔ دنیا داری کے تمام کام خدا کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ عبادت الٰہی میں گم رہتا ہے۔ شاید آج میں کچھ زیادہ لکھ گیاہوں۔ شاید ابھی سلوک کی منزل یا سفر یا قافلے کا کوئی ادراک ہی نہیں!
اس کا جواب تو ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے۔ بتاؤ قرآن حکیم پڑھا ہوا ہے۔ طالب علم کا جوا ب تھا کہ بالکل۔ بچپن میں ناظرہ پڑھا تھا۔ اب بھی کبھی کبھی ترجمہ کے ساتھ استفادہ کرتا ہوں۔ درویش انہماک سے آم کھا رہا تھا۔ جیسے اسے کسی قسم کی گفتگو کا علم ہی نہیں ہے۔ عرض کی حضور' آپ بات تو کر ہی نہیں رہے۔
درویش نے اہتمام سے کہا کہ قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کرو۔ ممکن ہے جواب مل جائے۔ تذبذب دیکھ کر درویش نے آم کھانا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر ' کشف المحجوب پڑھو اور فوری پڑھو۔ داتا گنج بخش ؒ جیسے ولی نے روحانی معاملات کو حد درجہ آسان طریقے سے لوگوں کی سہولت کے لیے قلم بند کیا ہے۔ کشف المحجوب تو حد درجہ مشکل تحریر ہے۔ سمجھ بھی نہیں آتی۔ اب کیا کروں۔ درویش خاموش ہو گیا۔ پوچھا' کیسے پڑھتے ہو۔ عجیب سا سوال تھا۔ آنکھوں سے بلکہ نظر کی عینک لگا کر۔ ڈاکٹر' اس طرح کے ملفوظات آنکھ سے نہیں ' دل سے پڑھے جاتے ہیں۔
نظر تو صرف ایک ذریعہ ہے۔ درویش کا جواب متاثر کن تھا۔ ڈاکٹر'علم خدا سے ودیعت ہوتا ہے۔ مگر لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ ممکن صرف اور صرف خدا کے اذن سے ہی ہے۔ سب سے پہلے خدا سے توفیق مانگنی چاہیے۔ کہ باری تعالیٰ ' تیری الہامی کتاب پڑھنا چاہتا ہوں۔ اجازت دے۔ وسعت دے اور سمجھنے کی قوت اور بینائی بھی عطا فرما۔ وضو کر کے رب کریم سے منت کرنی چاہیے کہ جو دعا مانگ رہا ہوں' اس کو قبول فرما ۔ درویش کے بقول اکثر لوگ غلطی یہ کرتے ہیں ' کہ خدا کی اجازت اور رحمت کے بغیر ' اپنے بل بوتے پر کلام الٰہی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہی معاملہ صوفیا' ولیوں کی تصنیف شدہ ملفوظات کا ہے۔ ان کو بھی سنجیدگی سے پڑھنا چاہیے۔ پورے ادب سے مطالعہ ہونا چاہیے ۔ جہاں کوئی مشکل آ جائے' کوئی امر سمجھ نہ آئے' تو فوراً خدا کی بارگاہ میں جھک جانا چاہیے۔ کہ مولا' قلب کو روشنی دے تاکہ بات سمجھ میں آ جائے۔ ہر لفظ دلیل سے نہیں ' عشق کی عینک سے پڑھو گے تو معاملہ کچھ آگے بڑھے گا۔ درویش کی بات سن کر مجھے اچنبھا سا ہوا۔ یعنی اتنی محنت کے باوجود معاملہ صرف آگے بڑھے گا۔ پوری سمجھ کب آئے گی؟۔ درویش نے ہنسنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر! یہ خدا کا علم ہے۔ قرآن اسی کے حروف ہیں۔ اکثریت انسانی فہم سے اوپر ہیں۔ ہاں' آسان راستہ عمل کا ہے ۔ قرآن اور آقا ؐ کے احکامات کے تابع ہو جاؤ۔ فہم اور علم کے دروازے خودبخود کھل جائیں گے۔ ورنہ ساری زندگی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو گے۔
ہفتہ دس دن پہلے لاہور میں شدید بارش ہوئی۔ ہمارے ایک باہمی دوست جو کنسٹریکشن کا کام کرتے ہیں۔ ملازمین کی نااہلی سے انھیں حد درجہ نقصان ہوا۔خیر' میری موجودگی میں درویش کے پاس آیا۔ دوست آبدیدہ ہو گیا۔ کہنے لگا کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ درویش نے بڑی تشفی سے کہا۔ کہ مال دیا کس نے تھا۔ جواب تھا میں نے اپنی محنت سے کمایا تھا۔ درویش نے حد درجہ محبت سے کہا کہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ آپ کو اپنے بے کراں خزانے سے چند سکے عطا کر دے۔ اس میں آپ کا کمال حد درجہ ثانوی ہے۔
کہا انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا کرو۔ اور دوبارہ اپنی عمارت پر محنت شروع کر دو۔ خدا نے چاہا تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی۔ درویش نے سارا سارا دن ' باہمی دوست کی تباہ شدہ عمارت پر گزارنا شروع کر دیا۔ مزدوروں کے لیے ٹھنڈے پانی کا انتظام کردیا۔ جو لوگ عمارت گرا رہے تھے' ان کو کچی لسی اور لیموں پانی بنا کر پلانا شروع کر دیا۔ ان حرکات سے مزدوروں میں کرنٹ سا پیدا ہو گیا۔ انھوںنے دوگنا کام کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا کہ پیر والے دن' تمام لوگوں کو حددرجہ سادہ لنگر دینا ہے۔ پیر والے دن کی نسبت صوفیا کے نزدیک آقاؐ کی ولادت سے ہے۔
درویش پلاسٹک کی کرسی پر سارا دن بیٹھتا تھا۔ کام کرنے والے لوگوں سے گپ شپ لگاتا تھا۔ ایک دن' ایک نوجوان مزدور کا پاؤں زخمی ہو گیا۔ درویش میڈیکل اسٹور سے دوائی لایا۔ اپنے ہاتھ سے زخم صاف کیا اور بہترین مرہم پٹی کی۔ بتاتا چلوں کہ درویش ' کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹر ہے۔ حد درجہ کامیاب آئی سرجن ہے۔ مگر آپریشن کے کبھی بھی پیسے نہیں لیتا۔ دس بارہ ہزار میں گزارا کرتا ہے ۔ یہ کیا راز ہے' چالیس سالہ رفاقت کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آیا۔
بہر حال' بات نقصان کی ہو رہی تھی۔ درویش کی موجودگی نے اس جگہ کی کایا پلٹ ڈالی۔ آرکیٹکٹ کے معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ نقصان' ابتدائی اندازے سے قدرے کم تھا۔ درویش کا یہ روپ پہلے نہیں دیکھا تھا۔ دو دن پہلے ہمت کر کے سوال کیا کہ جناب یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ سن کر جواب دیا۔ ''سنگ'' کا مطلب پتہ ہے۔ بالکل' اس کا مطلب ہے'' ساتھ دینا''۔ بس یہی کنجی ہے ہر معاملہ کی۔ اگر میں اپنے سنگی کی تکلیف میں کھڑا نہیں ہونگا اور وہ بھی اذن الٰہی سے۔ تو پھر کون کھڑا ہو گا۔ سنگ ہی اصل چیز ہے۔فرض کرو کہ اگر خدا کے ساتھ سنگت ہو جائے تو معاملہ کتنا بہتر ہو جائے گا۔ یہی حکم ربی ہے کہ اس کے حکم سے لوگوں کے مشکل معاملات میں مدد کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
درویش نے اپنی انا کو ختم کر ڈالا ہے۔ بسوں میں سفر کرتا ہے ۔ موٹر سائیکل کو شاہی سواری کہتا ہے۔ رکشے میں سوار ہو کر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔کئی بار عرض کی کہ حضور' میںگاڑی بھیج دیتا ہوں۔ جواب ہوتاہے کہ میں نے عام مخلوقِ خدا کی طرح ہی رہنا ہے۔ درویش کی داتا گنج بخشؒ سے حد درجہ نسبت ہے ۔ ان کے عرس پر وہ بحیثیت ڈاکٹر' میڈیکل کیمپ لگاتا ہے۔زائرین کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ایمبولینس میں اسپتال چھوڑ کر آتا ہے۔ ہمیں کہتا ہے کہ جناب علی ہجویریؒ کا مرتبہ ولیوں میں حد درجہ بلند ہے۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متعلق بھی ایک دن حد درجہ غیر معمولی باتیں کیں۔ کہنے لگا کہ اللہ کی مرضی ہے کہ سالک کو مشاہدہ کے لیے کتنی قلبی بینائی عطا کرتا ہے۔ لوگ بحث میں پڑ کر خدا کی ذات' دنیا اور کائنات کے وجود اور اس کی شہادت پر بحث کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عطا ہے۔ کسی کو ہر رنگ میں خدا نظر آئے گا۔ اور کسی کو دوری محسوس ہو گی۔ درویش بڑی گہری باتیں ' بڑے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ کہا ہی نہیں۔ لیکن ہر تہہ دار رمز بیان ہوجاتی ہے۔
اکثر لوگوں کا گمان ہوتا ہے کہ فنا کی راہ پر چلنے والے لوگ' جسم پربھبھوت ملے ' لمبے لمبے بال اور گندے کپڑے پہنے مزاروں پر گھوم رہے ہونگے۔ سلفی کے دور چل رہے ہونگے۔ رقص اوردھمالوں کا دور دورہ ہو گا۔ مگر درویش تو کہتا ہے کہ دنیا میں شدید محنت' جائز رزق کی تلاش' تعلیم حاصل کرنا' یعنی تمام دنیاوی کام کرنا عین عبادت ہیں۔ شرط صرف ایک ہے کہ ان تمام کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے۔ ان تمام میں خدا کی انسیت مانگی جائے۔ درویش بذات خود حد درجہ صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے۔ دنیا داری کے تمام کام خدا کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ عبادت الٰہی میں گم رہتا ہے۔ شاید آج میں کچھ زیادہ لکھ گیاہوں۔ شاید ابھی سلوک کی منزل یا سفر یا قافلے کا کوئی ادراک ہی نہیں!