ایک عام سے اہم آدمی کا قصہ

کسی نے یہ بھی بتایا کہ سائیں تو انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور ایچ آر سی پی کے کونسل ممبر ہیں

کراچی:
کئی برس پہلے جب میں ان سے پہلی بار حیدرآباد پریس کلب میں اتفاقاً ملا تو ان کی محبت آمیز گفتگو مجھے لگاوٹ آمیز لگی۔درمیانہ سا قد ، بھرے بھرے کلے ، مائل بہ موٹاپا جسم ، گہری سانولی رنگت ، کٹیلی چمکدار سیاہ مونچھیں۔

میں نے ظاہری شخصیت دیکھ کر دل ہی دل میں اندازہ لگایا کہ یا تو یہ کوئی نیم متوسط وڈیرہ ہے جس نے اپنی پندرہ بیس ایکڑ زمین مستاجری پر دے رکھی ہے اور پریس کلب میں وقت گذاری کے لیے آتا جاتا ہے۔یا یہ سرکاری مخبر ہے جس نے پریس کارڈ بھی بنوا رکھا ہو گا تاکہ یہاں کی سرگرمیوں اور سرگرموں پر نظر رکھ سکے۔یا کوئی بھتہ پکڑ دادا گیر ہے جس کا گذارہ چھوٹے موٹے دھندوں پر ہو گا۔ایسے لوگ بوجوہ پولیس سے زیادہ صحافیوں سے سلام دعا رکھتے ہیں۔

کسی نے یہ بھی بتایا کہ سائیں تو انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور ایچ آر سی پی کے کونسل ممبر ہیں۔عاصمہ جہانگیر بھی ان کی خدمات کی بہت قدر کرتی ہیں۔ضیا دور میں جبری مشقت کے خلاف تحریک میں بھی سائیں خود پر جھوٹے مقدمات میں قید بھگت چکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔مگر میں اپنے اندر رسمی گرمجوشی کے سوا سائیں کے لیے کوئی بے ساختہ جذبہ پھر بھی محسوس نہ کر سکا۔

اور پھر میں یہ پہلی ملاقات بھول بھال گیا۔دن مہینے اور مہینے سال بنتے چلے گئے۔ایک روز اچانک کراچی پریس کلب میں پیچھے سے آواز آئی اسلام و علیکم وسعت صاحب۔میں نے مڑ کے دیکھا اور ایک مشینی جملہ منہ سے نکلا '' ارے کب آئے حیدرآباد سے اختر بلوچ صاحب ''۔اختر نے بتایا کہ وہ مستقل کراچی آ گئے ہیں اور اب یہیں کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ ہے۔کیا کرنا ہے یہ نہیں سوچا۔ہم تو مشقتی آدمی ہیں جو سمجھ میں آئے گا کر لیں گے۔وہ بولتے جا رہے تھے اور میں سوچتا جا رہا تھا کہ اچھا تو اب انھیں کراچی پریس کلب کی ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے ؟

پھر میں نے اختر بلوچ کو پرانی و نادر ادبی و تاریخی کتابوں کی کھوج میں کتابی ٹھیلوں پر منڈلاتے دیکھا۔ میرے دل پر چھائی خود ساختہ اندازوں کی دھند بے ساختہ چھٹنے لگی۔پھر میں نے ان کی معمولی سی موٹر سائیکل دیکھی تو خیال آیا کہ یہ آدمی ویسا تو نہیں لگ رہا جو میں نے سوچ رکھا ہے۔

پھر میں نے انھیں پریس کلب کی بالائی منزل پر کارڈ روم میں ایک میز پر بیٹھے دیکھا۔ناک پر آدھی جمی عینک ، ہاتھ میں کوئی کتاب اور پنسل سے کتاب پر حاشیہ کاری ، ایک مشروبی گلاس اور برابر میں اوپر تلے رکھی تین چار پانچ کتابیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔خود ساختہ معمہ اب تک حل نہیں ہو پا رہا تھا۔بس اتنا رشتہ بن پایا کہ کبھی انھوں نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا کر کارڈ روم کو جانے والی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ کبھی میں نے نیچے لان میں بیٹھا دیکھا تو ہاتھ ہلا کر علیک سلیک نبھا لی۔

اور پھر ایک دن ڈائننگ ہال میں اختر کو ادبی رسالہ '' آج '' کے مالک و مدیر اجمل کمال کے ساتھ گفتگو کرتے پایا۔اجمل بھی کئی برس پہلے حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔میں نے سوچا کہ اختر اور اجمل کا ایک ساتھ بیٹھنا حیدر آبادی ٹانکے کے علاوہ کچھ نہیں۔

آپ ایک بار اپنی یک رخی سوچ کو رعائت دے سکتے ہیں ، دو بار دے سکتے ہیں ، تیسری بار بھی دے سکتے ہیں۔لیکن جب چوتھی بار دونوں کو گفتگو کرتے پایا تو مزید کنفیوز ہو گیا۔کیونکہ اجمل کمال طبعاً ایک برفانی تودہ ہیں۔وہ ادھار میں بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ تعلقِ مسلسل نہیں رکھتے جس کے خیالات سے وہ کم ازکم جزوی اتفاق نہ رکھتے ہوں۔اس کا مطلب ہے کہ اس اختر بلوچ کے پاس کوئی ایسی موضوعاتی گیدڑ سنگھی ضرور ہے جس کی اجمل کو بھی ضرورت پڑ گئی ہے۔

اور پھر چند ماہ بعد عقدہ حل ہو گیا جب اختر بلوچ نے مجھے اپنی کتاب ''تیسری جنس '' عطا کی۔ یہ کتاب اتنی دلچسپ اور رواں تھی کہ میں نے ایک رات میں ہی اسے نمٹا دیا۔سماج کی سب سے راندہ درگاہ کمیونٹی پر اس قدر عمیق کام۔یہ تو گرینائٹ کی چٹان پر مجسمہ کاڑھنے جیسا ہے۔

اگلے دن میں پہلی بار اختر کی تلاش میں پریس کلب گیا۔وہ نہیں تھے۔قریباً دو گھنٹے کے انتظار کے بعد گیٹ سے داخل ہوتے نظر آئے۔میں '' مہاراج آپ مہان ہو '' کہہ کے گلے ملا۔اختر میرے اس غیر متوقع رویے پر کچھ بھونچکا سے ہوئے۔پھر تادیر تیسری جنس کے تحقیقی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔یہ بذاتِ خود ایک عجیب کہانی ہے جو اختر سے قلم زد ہونے سے رہ گئی۔آیندہ جو بھی '' تیسری جنس '' پر تحقیق کرے گا اسے اختر کے اس غیر معمولی محققانہ کام کے پلِ صراط سے گذرنا ہی پڑے گا۔

اس ٹیڑھے موضوع کو سر کرنے کے بعد اختر نے اس کراچی کی کھوج شروع کی جس کا اب کوئی وجود ہی نہیں۔وہ پرانا اور اصل کراچی جسے رفتہ رفتہ کاروباری لالچ ، سیاسی خود غرضی ، زمین جھپٹ منظم گروہ ( لینڈ مافیا ) اور بدانتظامی نگلتی چلی گئی۔اختر بلوچ کا اس بابت طریقہِ واردات یہ تھا کہ وہ اچانک پریس کلب سے غائب ہو جاتے اور پھر ان کی غیابت ایک دلچسپ تحقیقی مضمون کی شکل میں کھلتی۔


کراچی کی کس تاریخی عمارت کی کیا کہانی ہے، کون کون سے عمارتی فن پارے بلڈروں کے بلڈوزروں کی خوراک بن گئے ، کس سڑک کو کب اصل نام مٹا کے مسلمان کر دیا گیا۔ شہر میں جگہ جگہ نصب تاریخی مجسمے اب کس تہہ خانے میں ٹوٹی گردنیں لیے پڑے ہیں۔قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں جو یہودی کمیونٹی رہتی تھی وہ کب اور کہاں نکل لی ، گوانیز کرسچنز ک اور چینی کمیونٹی کا کیا ہوا۔اس بندرگاہ کو ایک الگ شناختی شہر بنانے والے پارسی کہاں غائب ہو گئے۔جہاں اب فلیٹوں کا جنگل ہے یہاں کون سا ہنستا بستا مندر ہوا کرتا تھا۔

غرض جو کام ایک ادارے کے کرنے کا تھا اختر بلوچ نے بنا کسی گرانٹ اور ستائش کے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور یوں ہمیں '' کرانچی کی کہانی '' تین جلدوں میں نصیب ہوئی۔یہ کام بھی تیسری جنس پر ان کی تحقیق کی طرح آنے والے محققین کے لیے ایک بنیادی ریفرنس کا کام دے گا۔

کراچی سے متعلق اختر کے مضامین ڈان نیوز اردو کی ویب سائٹ پر ایک مدت تا باقاعدگی سے شایع ہوتے رہے پھر اچانک اشاعت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ میں چونکہ ان کے مستقل قارئین میں سے تھا۔ خود ہی پوچھ لیا کہ آج کل مضامین کیوں نہیں چھپ رہے۔کہنے لگے کہ مجھے بتایا گیا کہ آپ کے مضامین پر کم کلک آتے ہیں۔اس لیے ہم نے فی الحال روک دیے ہیں۔

اس کے بعد نہ اختر نے پلٹ کر کبھی ویب سائٹ چالکوں سے کچھ پوچھا اور نہ ہی کلک زدہ روبوٹک ویب سائٹرز کو احساس ہوا کہ انھوں نے اپنے ہی سن دماغ پر کیسی علمی و تحقیقی قمع مار لی۔کچھ برس پہلے تک چوہے کتابیں کتر جاتے تھے۔اب علم و تحقیق کو ماؤس کتر رہا ہے۔

اختر کوئی خشک طبیعت قبض زدہ محقق نہیں تھے بلکہ جب وہ اپنی کتاب خواں عینک اتار کے نیچے آ کر بیٹھتے تھے تو ان سے بہتر قصہ گو ، لطیفے بازی اور مختلف کرداروں کی اداکارانہ و صدا کارانہ مرصع خاکہ کشی محفل میں کوئی اور کر پائے یہ ممکن نا تھا۔ یبوست زدہ ماحول بھی محفل میں ان کی آمد کے ساتھ ہی یکایک '' وہ کہیں اور سنا کرے کوئی '' کی قہقہہ بار روشنی میں نہا جاتا تھا۔

اختر بلوچ نے اس دوران جانے کب چپ چاپ ایک اور دنیا میں قدم رکھا اور اردو ادب میں انسان دوستی کے موضوع پر ایم فل کے بعد اسے مزید بڑھا اور سجا کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی شکل دے دی۔اللہ جانے ڈگری ملی یا نہیں۔ ملی بھی ہو گی تو اختر مرتے مر جاتے مگر نام کے ساتھ ڈاکٹر ہرگز نہ لگاتے۔

ہم سب کو قدرت نے چوبیس گھنٹے مساوی عطا کیے ہیں۔لیکن ان چوبیس گھنٹوں کو اڑتالیس پیداواری گھنٹوں میں کیسے بدلا جا سکتا ہے یہ اختر بلوچ سے سیکھنے کی بات تھی۔

ہمارے مکران کے ایک دوست شبیر شاکر نے بتایا کہ اختر نے جب بہت سی کتابیں جمع کر لیں تو پھر انھیں یہ فکر ستانے لگی کہ ان کے بعد اس ذخیرے کا کیا ہوگا۔پھر خود ہی کہتے کہ میری بیٹی سے ہی امید ہے کہ وہ شاید انھیں سنبھال لے اور دوبارہ سے فٹ پاتھ پر بکنے کے لیے کسی کتب کباڑی کے حوالے نہ کر دے۔( اس بارے میں اگر کراچی آرٹس کونسل کی لائبریری ان کے اہلِ خانہ سے رابطہ کر کے ان کتابوں کا مستقبل محفوظ کرنے میں مدد کرے تو یہ بھی ایک اہم کام ہے )۔

جس طرح اختر کسی نئی دریافت یا اچھوتی تحقیق کی تلاش میں اچانک غائب ہو جاتے تھے بعینہٖ انھوں نے تیس جولائی کی شب بھی یہی حرکت فرمائی۔ اپنی پھٹیچر موٹر سائیکل کو ایڑ لگا کے یہ جا وہ جا۔اگلے دن پتہ چلا کہ اس بار وہ آسمانوں کے یکطرفہ سفر پر روانہ ہو گئے۔

کل شام میں کلب کی اوپری منزل پر کارڈ روم میں گیا۔اختر کی میز وہیں پڑی ہوئی ہے۔ کرسی بھی دھری ہے۔ مگر دونوں نے مجھے پہچاننے سے صاف انکار کر دیا۔مالک موجود نہ ہو تو نوکر بھی کہاں منہ لگاتے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story