یوم استحصال کشمیر
مظلوم کشمیری ظلم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں
کراچی:
پوری قوم نے یوم استحصال کشمیر بھرپور طریقے سے منایا،پانچ اگست کو قوم نے یک زبان ہو کر کشمیریوں کے اس استحصال کے خلاف آواز اٹھائی اور اس آواز کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی، کیونکہ کشمیری اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
اس روز بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا اور مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اس کے گرد عسکری محاصرہ سخت کر دیا، یہ دن اقوام عالم کے لیے یاد دہانی ہے کہ آج بھی کشمیر کو آزادی میسر نہیں۔کشمیر کے لالہ زار اپنی قدرتی سرخیاں کھو رہے اور شہداء کے خون سے لال ہو رہے ہیں۔
مظلوم کشمیری ظلم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، اگرچہ یہ سارا منظر دل دہلا دینے والا ہے، لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ آزادی کے طلوع ہونے کا پہلا پیش خیمہ ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کی انتہا پسند ہندوتوا سوچ سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس سوچ کے تدارک کے لیے بھارت کو بے نقاب کرنا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ سوچ صرف بھارتی یا کشمیری مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
بھارتی کرفیو لاک ڈاؤن کو تین سال بیت گئے،بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی شناخت ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور شق 35 Aکاخاتمہ کیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں مسلمانوں کی شناخت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے اپنے مظالم ڈھانے کے لیے کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاون کرتے ہوئے غریب بچوں،بزرگوں،خواتین اور نوجوانوں کا استحصال کیا اس ظلم و بربریت کے خلاف حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرف سے عالمی برادری کو پیغام دینے کے سلسلہ میں یوم استحصال منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فورم پر موجود مسئلہ کشمیر تاحال حل طلب ہے، بلاشبہ یہ کرہ ارض پر ہمارے وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے، گو کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔5 اگست 2019 کوکشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
آئین ہند میں کشمیر پر دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے۔ آرٹیکل 370 جو مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا،اور آرٹیکل 35 اے کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ کون مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔اس کے ختم ہونے کے بعد سے تب سے وہاں بدترین مظالم شروع ہو گئے۔ کشمیری عوام بیرونی دنیا سے کٹ گئے اور وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔
بھارت نے 5اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد حریت پسند کشمیری عوام کے رد عمل کے خوف سے وادی میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ عوام اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے کشمیر میں پہلے سے لاکھوں کی تعداد میں موجود فوج میں مزید اضافہ کر دیا یوں وادی میں کرفیو سخت ہو گیا اور نہ ختم ہونے والا لاک ڈاؤن شرو ع ہو گیا۔
کشمیری اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت جبراً کشمیر پر تسلط چاہتا ہے لیکن کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارت کے قبضہ سے اپنی وادی کی رہائی چاہتے ہیں، جس کی پاداش میں وہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کشمیریوں کے اس لاک ڈاؤن سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان نے بھی اس کے خلاف بہت آواز بلند کی۔ عالمی برادری کو پکارا، کشمیریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ میڈیا اور دیگر ذرایع سے بھی عالمی برادری تک کشمیریوں کے خلاف انسانیت سوز بھارتی رویے کی خبریں پہنچتی رہیں یہاں تک کہ خود بھارت کے اندر سے اس لاک ڈاؤن کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن دنیا کے تمام طاقت ور ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ سبھی اس سے نظریں چرائے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی رسمی سا بیان دے دیتے ہیں، جس سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکا رکھی وہیں کشمیری عوام کا جذبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ہمت اور بہادری کے نشان، آج کشمیر کا ہر گھر محاذ جنگ کی کیفیت میں، ہر گلی میدان جنگ ہے۔ کشمیر کا ہر گھر شہیدوں کے خون سے روشن ہو رہا ہے۔ کشمیری عوام بغیر کسی بیرونی مدد کے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کے ارادے عظیم ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب رہے ہیں اور کشمیر کی آزادی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں، اگرچہ بھارتی قاتل طاقتیں کشمیر پر اپنے خونی پنجے بچھا رہی ہیں، لیکن آزادی کشمیر کے ہر سانس سے ''کشمیر بنے گا پاکستان''کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
1948 کی جنگ آزادی میں جب ہندو سامراج نے کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کا رخ کیا۔ 1948 اور پھر 1949 کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے واضح کیا کہ کشمیری عوام سے آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے طلب کی جائے گی کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
بھارت کتنا بھی تندہی سے کام کرے، وہ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو نے خود اپنی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ''اگر کشمیری آزادانہ حق رائے دہی کے معاملے میں ہمارے خلاف فیصلہ کریں گے تو ہم اسے قبول کریں گے۔''لیکن آج کے دن تک ہندوستان بے شرمی سے کشمیریوں پر مظالم جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیری عوام کے لیے صدیوں سے ہر لمحہ بھاری ہے،ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔یہ عمل کیا ہے؟ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، حوا زادیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے، کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر آتش فشاں کی بارش کی جاتی ہے۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے مظالم کو شرما رہے ہیں جانداروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے ہاتھ ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں، ناخن نکالے جاتے ہیں، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔
کشمیریوں کی مدد دہشت گردی نہیں بلکہ بین الاقوامی بھائی چارہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو جنگ کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل سمجھتے ہیں، وہ دھوکے کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ جدید ریاستیں ایسے تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا مطلب پورے خطے کو آگ اور گولہ بارود کا ذریعہ بنانا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان جنگ سے گریز کر رہا ہے، بلکہ یہ کہ پاکستان کسی غیر ذمے دار ریاست کی طرح غصے میں جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا۔
دوسری جانب بھارت سرکار کو بھی ہندوتوا کی منفی سوچ سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی غرض سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا ، مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان وبھارت مل کر بات چیت کے ذریعے نکال سکتے ہیں ، اگر مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہوجاتا ہے تو یہ عمل خطے کی سلامتی اور امن کے لیے دیرپا ثابت ہوگا ، دونوں ممالک کی معیشت مضبوط ہوگی اور دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کی خوشحالی اور فلاح وبہبود کے لیے بہتر طور پر کام کرسکیں گے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں پوری طرح متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو واضح ہدایات دینی چاہئیں کہ وہ اپنے اپنے ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کر کے انھیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ کریں اور ان کی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
یوں ہم کم از کم عالمی برادری کی توجہ تو اس مسئلہ کی طرف دلا سکیں گے جو کسی بھی عالمی فورم پر ہمارے کام آسکتی ہے۔ہمیں ہر محاذ پر موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان جو ڈیڈلاک ہے، اسے فوری طور پر ختم کیا جائے اور پہلے مرحلے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھا جاسکے۔پاکستان اور بھارت کو سردجنگ سے نکل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے ، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
پوری قوم نے یوم استحصال کشمیر بھرپور طریقے سے منایا،پانچ اگست کو قوم نے یک زبان ہو کر کشمیریوں کے اس استحصال کے خلاف آواز اٹھائی اور اس آواز کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی، کیونکہ کشمیری اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
اس روز بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا اور مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اس کے گرد عسکری محاصرہ سخت کر دیا، یہ دن اقوام عالم کے لیے یاد دہانی ہے کہ آج بھی کشمیر کو آزادی میسر نہیں۔کشمیر کے لالہ زار اپنی قدرتی سرخیاں کھو رہے اور شہداء کے خون سے لال ہو رہے ہیں۔
مظلوم کشمیری ظلم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، اگرچہ یہ سارا منظر دل دہلا دینے والا ہے، لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ آزادی کے طلوع ہونے کا پہلا پیش خیمہ ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کی انتہا پسند ہندوتوا سوچ سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس سوچ کے تدارک کے لیے بھارت کو بے نقاب کرنا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ سوچ صرف بھارتی یا کشمیری مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
بھارتی کرفیو لاک ڈاؤن کو تین سال بیت گئے،بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی شناخت ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور شق 35 Aکاخاتمہ کیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں مسلمانوں کی شناخت ختم کر کے اس کو ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے اپنے مظالم ڈھانے کے لیے کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاون کرتے ہوئے غریب بچوں،بزرگوں،خواتین اور نوجوانوں کا استحصال کیا اس ظلم و بربریت کے خلاف حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرف سے عالمی برادری کو پیغام دینے کے سلسلہ میں یوم استحصال منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فورم پر موجود مسئلہ کشمیر تاحال حل طلب ہے، بلاشبہ یہ کرہ ارض پر ہمارے وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے، گو کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔5 اگست 2019 کوکشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
آئین ہند میں کشمیر پر دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے۔ آرٹیکل 370 جو مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا،اور آرٹیکل 35 اے کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ کون مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔اس کے ختم ہونے کے بعد سے تب سے وہاں بدترین مظالم شروع ہو گئے۔ کشمیری عوام بیرونی دنیا سے کٹ گئے اور وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔
بھارت نے 5اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد حریت پسند کشمیری عوام کے رد عمل کے خوف سے وادی میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ عوام اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے کشمیر میں پہلے سے لاکھوں کی تعداد میں موجود فوج میں مزید اضافہ کر دیا یوں وادی میں کرفیو سخت ہو گیا اور نہ ختم ہونے والا لاک ڈاؤن شرو ع ہو گیا۔
کشمیری اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت جبراً کشمیر پر تسلط چاہتا ہے لیکن کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارت کے قبضہ سے اپنی وادی کی رہائی چاہتے ہیں، جس کی پاداش میں وہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کشمیریوں کے اس لاک ڈاؤن سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان نے بھی اس کے خلاف بہت آواز بلند کی۔ عالمی برادری کو پکارا، کشمیریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ میڈیا اور دیگر ذرایع سے بھی عالمی برادری تک کشمیریوں کے خلاف انسانیت سوز بھارتی رویے کی خبریں پہنچتی رہیں یہاں تک کہ خود بھارت کے اندر سے اس لاک ڈاؤن کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن دنیا کے تمام طاقت ور ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ سبھی اس سے نظریں چرائے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی رسمی سا بیان دے دیتے ہیں، جس سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکا رکھی وہیں کشمیری عوام کا جذبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ہمت اور بہادری کے نشان، آج کشمیر کا ہر گھر محاذ جنگ کی کیفیت میں، ہر گلی میدان جنگ ہے۔ کشمیر کا ہر گھر شہیدوں کے خون سے روشن ہو رہا ہے۔ کشمیری عوام بغیر کسی بیرونی مدد کے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کے ارادے عظیم ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب رہے ہیں اور کشمیر کی آزادی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں، اگرچہ بھارتی قاتل طاقتیں کشمیر پر اپنے خونی پنجے بچھا رہی ہیں، لیکن آزادی کشمیر کے ہر سانس سے ''کشمیر بنے گا پاکستان''کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
1948 کی جنگ آزادی میں جب ہندو سامراج نے کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کا رخ کیا۔ 1948 اور پھر 1949 کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے واضح کیا کہ کشمیری عوام سے آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے طلب کی جائے گی کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
بھارت کتنا بھی تندہی سے کام کرے، وہ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو نے خود اپنی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ''اگر کشمیری آزادانہ حق رائے دہی کے معاملے میں ہمارے خلاف فیصلہ کریں گے تو ہم اسے قبول کریں گے۔''لیکن آج کے دن تک ہندوستان بے شرمی سے کشمیریوں پر مظالم جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیری عوام کے لیے صدیوں سے ہر لمحہ بھاری ہے،ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔یہ عمل کیا ہے؟ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، حوا زادیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے، کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر آتش فشاں کی بارش کی جاتی ہے۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے مظالم کو شرما رہے ہیں جانداروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے ہاتھ ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں، ناخن نکالے جاتے ہیں، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔
کشمیریوں کی مدد دہشت گردی نہیں بلکہ بین الاقوامی بھائی چارہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو جنگ کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل سمجھتے ہیں، وہ دھوکے کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ جدید ریاستیں ایسے تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا مطلب پورے خطے کو آگ اور گولہ بارود کا ذریعہ بنانا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان جنگ سے گریز کر رہا ہے، بلکہ یہ کہ پاکستان کسی غیر ذمے دار ریاست کی طرح غصے میں جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا۔
دوسری جانب بھارت سرکار کو بھی ہندوتوا کی منفی سوچ سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی غرض سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا ، مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان وبھارت مل کر بات چیت کے ذریعے نکال سکتے ہیں ، اگر مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہوجاتا ہے تو یہ عمل خطے کی سلامتی اور امن کے لیے دیرپا ثابت ہوگا ، دونوں ممالک کی معیشت مضبوط ہوگی اور دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کی خوشحالی اور فلاح وبہبود کے لیے بہتر طور پر کام کرسکیں گے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں پوری طرح متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو واضح ہدایات دینی چاہئیں کہ وہ اپنے اپنے ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کر کے انھیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ کریں اور ان کی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
یوں ہم کم از کم عالمی برادری کی توجہ تو اس مسئلہ کی طرف دلا سکیں گے جو کسی بھی عالمی فورم پر ہمارے کام آسکتی ہے۔ہمیں ہر محاذ پر موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان جو ڈیڈلاک ہے، اسے فوری طور پر ختم کیا جائے اور پہلے مرحلے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بڑھا جاسکے۔پاکستان اور بھارت کو سردجنگ سے نکل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے ، یہی وقت کا تقاضا ہے۔