کیمپین فنڈنگ کا بلیک ہول وہیں کا وہیں ہے

یہ بلیک ہول سیاست پر خاندانی گرفت اور بیک ڈور راستے ہمیشہ کی طرح کھلے رکھنے کا ضامن ہے

فرض کریں کوئی شخص پہلی بار پاکستان میں وارد ہوا ہو، وہ یہاںکے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو۔ یہاں پہنچ کر وہ اخبارات پڑھے اور میڈیا دیکھے تو یقینا یہ گمان پالنے میں حق بجانب ہوگا کہ اس ملک میں جس قدر آئین اور قانون پر توجہ ہے، فیصلے ہیں، بحثیں ہیں ، یہ ملک قانون کی عملداری میں یقیناً دنیا کے پہلے نمبروں پر ہوگا مگر جب اسے یہ علم ہو کہ دنیا بھر کے جسٹس انڈکس میں 139 میں اس ملک کی رینکنگ 130 ہے تو ایک بار تو چکرا جائے گا۔

ماضی میں سیاسی فیصلے پارلیمان اور سیاسی میدان میں ہوتے تو آج ملکی سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔ مولوی تمیزالدین کیس کا عدالتی فیصلہ اپنی جگہ مگر اصلاً یہ زور زبردستی کی ایک سیاسی مہم جوئی تھی جو وقتی طور پر کامیاب ہوئی مگر انجام سب کے سامنے ہے۔

نظریہ ضرورت کے فیصلوں کے انجام سے کون باخبر نہیں مگر تاریخ سے کون سیکھتا ہے! پھر کچھ فیصلے ایسے بھی ہوئے کہ ان پر عملدرآمد پر پراسرار سکوت طاری ہو گیا۔ سالہاسال تک لٹکنے کے بعد اصغر خان کیس کا فیصلہ سامنے آیا مگر عملدرآمد کی نوبت نہ آئی۔ کیوں؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ حسب ضرورت انجان بن جانے کی خداداد صلاحیت کام آئی۔

تازہ ترین شاہکار پی ٹی آئی کے بارے میں ممنوعہ فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے اور مخالفین کے لیے جو اخلاقی معیارات اور بیانئے ترتیب دیے اور پروموٹ کیے، انھی کی بناء پر اس فیصلے نے اس کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پنجاب حکومت میں تبدیلی کے بعد سیاسی تناؤ اور محاذآرائی کا یہ اگلا میدان ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے محاورتاً فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بقول حکومتی ترجمان پی ٹی آئی فارن ایڈڈ پارٹی ثابت، اس لیے قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک لمحے کے لیے، یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان چھپائے گئے اور ممنوعہ فنڈز کی کل مالیت کیا ہے؟ میڈیا میں فیصلے کی موٹی موٹی تفصیلات آئیں، ان میں دو تین ٹرانزیکشنز چند ملین ڈالرز میں اور بقیہ تین درجن کی انفرادی مالیت چند ہزار ڈالرز ہے۔ 2008 اور 2012 کے دوران شرح مبادلہ کے اعتبار سے کل مالیت چند کروڑ سے زائد نہیں بنتی مگر سیاسی بیانئے کی حد تک الاپ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا چور، اربوں روپے کی ڈکیتی، ثابت ہوگیا ہے پارٹی کا فارن ایجنڈا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر صرف فنڈنگ کی قانونی حیثیت کا ہی ٹنٹا ہے تو امریکا اور دیگر ممالک جہاں الیکشن کیمپین فنڈنگ جمع کرنے، ریکارڈ رکھنے اور ریکارڈ پبلک کرنے کی روایت اور قانونی فریم ورک موجود ہے تو ان کا مروج طریقہ سادہ سا ہے۔ پارٹی علم ہونے پر معذرت کرے، فنڈز واپس کرے اور آیندہ احتیاط کا وعدہ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ ہاں اگر بہت سنگین بدعملی سامنے آئے تو قانونی فورمز موجود ہیں۔


قانون بھی عجیب شئے ہے جسے طاقتور اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے حسب مفادات سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر کے قانون کی چھترچھاؤں میں محفوظ بھی رہتا ہے اور کاروبار دنیا بھی سکون سے چل جاتا ہے۔ 1991 میں ن لیگ نے فارن کیپیٹل قوانین میں چھوٹ رکھ دی کہ بیرون ملک سے آنے والے سرمائے کے بار ے میں پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔

اس کے بعد بیرون ملک سے ہنڈی یا بینکنگ چینل سے ٹی ٹی لگوانا سبزی ترکاری خریدنے کی سی آسانی سے ہوتا رہا۔ وہ تو بھلا ہو ایف اے ٹی ایف کا کہ یہ فلڈگیٹ کچھ روکنے کی مجبوری آن پڑی۔ بے نامی ٹی ٹیز اور عام ملازمین کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے سکون سے پورے قانونی جاہ حشمت سے منتقل ہوتے رہے مگر پی ٹی آئی کے ان چند کروڑ پر قوانین کے الجھاوے سامنے آرہے ہیں۔

ہمارے ہاں بڑی پارٹیوں کے پارٹی چلانے، الیکشن لڑنے، جلسے جلوسوں، اشتہارات، میڈیا کیمپین اور الیکشن والے دن اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ اربوں روپوں میں ہوتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کو جمع کرائے جانے والے گوشوارے سفید پوشی بلکہ درویشی کا مظہر ہوتے ہیں۔ سیاست کے کھلاڑی سب جانتے ہیں کہ درونِ خانہ کس طرح فنڈز جمع ہوتے ہیں، کہاں کہاں سے اور کس کس انداز میں پارٹی فنڈز اور سرمایہ جمع ہوتا ہے، سب کیش یا بے نامی خرچے، لکھت نہ پڑھت، نہ چیک نہ بینک کی جھنجھٹ، لینے کا ثبوت نہ دینے کی گواہی، یوں کاغذات کی حد تک دودھ کے دھلے دھلائے صاف شفاف، اللہ اللہ خیر صلا۔

عمران خان نے دوسروں کے لیے معیارات کاجو بیانیہ بنایا اب اسی بیانئے کو بنیاد بنا کر انھیں سیاسی میدان سے فارغ کرنے کے لیے قانون کی سیج سجائی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ ہرگز چند ملین ڈالرز کی فنڈنگ نہیں، اصل مسئلہ عمران خان کی ذات ہے جس کے اپوزیشن سے کبھی بھی کسی قسم کی ورکنگ ریلیشن سے انکار نے ان کے مخالفین کے دل میں بھی ان کے لیے وہی جذبات ابھار رکھے ہیں جو ان کے ہیں۔

تخت اور تختے کی اس جنگ میں اصل مسئلہ زیربحث لانے کی کسی کو فرصت ملی نہ ضرورت کہ سیاسی پارٹی چلانے، جلسے جلوسوں اور الیکشن مہم سمیت تمام کاموں کے لیے سرمایہ کاری کا پورا نظام اس ماراماری کے بعد بھی ایک بلیک ہول کی طرح قائم و دائم ہے اور رہے گا۔

یہ بلیک ہول سیاست پر خاندانی گرفت اور بیک ڈور راستے ہمیشہ کی طرح کھلے رکھنے کا ضامن ہے۔ رہی قانونی جنگ سے مخالف فریق کی چھٹی تو یہ تجربہ ایوب خان بھی کر چکے، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف سمیت دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنے دور حکومت میں کر چکیں، تازہ ترین اضافہ تین بار منتخب نواز شریف کی تا حیات نااہلی تھا، ان سب کا نتیجہ ایک سا نکلا۔ ایک قوم کو سیکھنے کے لیے اور کتنی مثالیں اور وقت چاہیے، پھر بھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم ترقی کے معاملے میں دنیا سے کیوں پیچھے ہیں!
Load Next Story