معیشت میں بہتری کے امکانات

معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے


Editorial August 07, 2022
معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے اشارے سامنے آرہے ہیں اور یہ بھی نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کررہی ہے اور اس کے اہداف واضع ہیں اور سمت بھی درست ہے۔

یوں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کاتعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو صورتحال خاصی بہتر ہوجائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں گزشتہ روز کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا بھی اہم اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس میں گندم کی درآمد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے روس سے جی ٹو جی کی بنیاد پر گندم کی فراہمی کی سمری پیش کی جس میں بتایا گیا کہ 28 مئی 2022 کو گندم کی درآمد کے لیے وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔

اس کے بعد ٹی سی پی نے جی ٹو جی کی بنیاد پر روس سے گندم کی درآمد کا عمل شروع کیا۔ 8جون2022 کو ایم او یو پر دستخط ہوئے، ابتدائی طور پر روسی حکومت نے گندم کی قیمت 410 ڈالر فی میٹرک ٹن پیش کی، درآمدی گندم کی قیمت کے معاملے پر روسی سفارتخانے کے ساتھ بات چیت کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، دریں اثنا، روسی وفد نے وزیر تجارت سے ملاقات کی اور گندم کی قیمت میں 405 ڈالر فی میٹرک ٹن تک کمی کی پیشکش کی۔

بعد میں قیمت مزید کم کر کے 400 ڈالر فی میٹرک ٹن کر دی گئی، وزارت تجارت کی تجویز پر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے روس کی سرکاری کمپنی کی جانب سے 399.50 ڈالر فی میٹرک ٹن کی قیمت پر ایک لاکھ بیس ہزار مٹرک ٹن گندم کی خریداری کے لیے جی ٹو جی کی بنیاد پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری کے لیے سمری پیش کر دی ہے، ای سی سی کے اجلاس میں دیکھا گیا کہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں کمی کا رجحان ہے جو آنے والے دنوں میں مزید کم ہو سکتا ہے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ روسی فریق کو 390 امریکی ڈالر کی قیمت کی پیشکش کی جا سکتی ہے اور اگر وہ پیشکش قبول نہیں کرتے ہیں تو ٹینڈر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ گزشتہ روز ڈالر کا انٹربینک ریٹ 2.11روپے کم ہو کر 224.04روپے پر بند ہوا جب کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 4روپے کی کمی سے 222روپے کی سطح پر بند ہوئی، کرنسی مارکیٹ ذرایع کے حوالے سے میڈیا کا کہنا ہے آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی باضابطہ منظوری اور قسط کے اجرا کے بعد اور دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالیاتی سپورٹ کے دروازے کھلنے سے ڈالر کی قدر 200روپے سے بھی نیچے آنے کے امکانات ہیں اور انھی خدشات کے پیش نظر ایکسپورٹرز بھی اپنی زرمبادلہ کی برآمدی آمدنی کو مارکیٹ میں بھنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ادھر ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کے بعد یو اے ای نے بھی پاکستانی کمپنیوں میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ ابتدئی طور پر یو اے ای پاکستان کے اقتصادی ومالیاتی اور انویسٹمنٹ سیکٹر کی مختلف کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ دوسرے مرحلے میں مزید سرمایہ کاری ہوگی، اس اقدام سے ملکی اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اور شرح مبادلہ میں استحکام آئے گا، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان بھی فریم ورک معاہدے کے مسودے کی تیاری کے لیے آیندہ ہفتے اہم اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت ڈنمارک پندرہ سال کی مدت کے لیے پاکستان کو 35 فیصد رعایت پر بلا سود قرضہ فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے پاکستان میں ڈنمارک کی سفیر لیز روزن ہولم نے گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور سردار ایاز صادق سے ملاقات کی ہے۔ علاوہ ازیں وزیر اقتصادی امور ایاز صادق اور ایشائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈاریکٹر کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ۔

وفاقی وزیر نے توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور قدرتی وسائل، مالیاتی پالیسی سازی، سمیت دیگر شعبوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی کوششوں اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک زرعی اجناس میں ویلیو ایڈڈ اور مضبوط کولڈ چین انڈسٹری جیسے دیگر شعبوں میں بھی پاکستان کو تعاون فراہم کرے۔ یہ بھی اچھی پیش رفت ہے کیونکہ ڈنمارک یورپ کا اہم ملک ہے ، اگر وہ پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتاہے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا ہے کہ کیونکہ اس وقت افراط زر کی شرح 25 کے قریب ہے اور اس بات کے خدشات ہیں کہ شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا لیکن حکومت پاکستان محض افراط زر کے تناسب سے شرح سود کا جواز پیش کرنے کے لیے معاشی سست روی کی طرف نہیں جائے گی یعنی فی الحال شرح سود میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہم نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ 3 ہزار روپے فی دکان سے انکم اور سیلزٹیکس عائد کیا جائے لیکن اس معاملے میں کچھ غلطی ہوئی کیونکہ ان دکانوں میں چھوٹے دکاندار بھی شامل کرلیے گئے تھے، پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں گونگ بجاکر کاروبار کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے درآمدات کو کم کیا جس ڈالر کی قیمت کم اور روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا، چین سے قرض رول اوور ہوگئے ہیں دیگر ممالک سے بھی قرضے رول اوور ہورہے ہیں۔

شعبہ زراعت اور برآمدات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں، جلد ہی برآمدی شعبے کے لیے ترغیبی اسکیم متعارف کروا دی جائے گی، رواں سال بجٹ خسارے پر قابو پانے کی حکمت عملی وضح کی گئی ہے کیونکہ پچھلے چار سال میں بجٹ خسارے کی اوسطاً مالیت 3500 ارب روپے رہی ہے، ملک کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب 9.2 فیصد ہے جسے بہتر بنانا ہے۔

بینکوں کے ایڈوانس ٹو ڈپازٹ تناسب پرا سپیشل ٹیکس سسٹم کو درست کر رہے ہیں اور یہ اسپیشل ٹیکس پچھلے سال سے لاگو نہیں ہوگا،وزیر خزانہ نے کہا کہ آیندہ تین ماہ تک درآمدات میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور گاڑیوں سمیت دیگر غیرضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے، پچھلے سال ملک میں 80 ارب ڈالر کی درآمدات اور 40 ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی خسارہ ہوا، کوئی بھی ملک اتنے بڑے جاری کھاتوں کے خسارے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔

ملک کے موجودہ سیاسی 'آئینی اور معاشی صورت حال کو دیکھا جائے تو منظر نامہ زیادہ خوش کن نظر نہیں آتا۔ ملک کے تین صوبوں میں گورنرز تعینات نہیں ہوئے ہیں۔ پنجاب میں سیاسی بحران تا حال موجود ہے۔ گو بظاہر پنجاب میں نیا وزیراعلیٰ آ گیا ہے لیکن سیاسی پنڈولیم ابھی تک جھول رہا ہے ' خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے' جب کہ پی ٹی آئی وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی مہم چلا رہی ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں مکمل سیاسی استحکام ہے۔ بہرحال اس کے باوجود معیشت کے حوالے سے اچھی خبروں کا آنا مستقبل میں بہتری کی نوید ضرور کہی جا سکتی ہے۔پاکستان بتدریج عالمی تنہائی سے باہر نکلتا نظر آ رہا ہے۔

امریکی انتظامیہ کے رویے میں بھی مثبت پہلو نمایاں نظر آ رہے ہیں جب کہ عوامی جمہوریہ چین بھی پراعتماد نظر آتا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے ممالک بھی لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ادھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی معاشی حوالے سے اچھے اشارے آ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی طے پا چکے ہیں اور جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے پاکستان کی معیشت میں مزید بہتری آئے گی اور روپے کی قدر مزید مستحکم ہوتی چلی جائے گی۔

پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مستحکم سیاسی حکومت کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو ترقی کے ٹریک پر لانے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری چیز ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم اسٹیک ہولڈرز پر یہ ذمے داری عائد ہوگی ہے کہ وہ معیشت کو ترجیح دیں اور سیاست کو مستحکم ہونے دیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں