تنقیدی و تخلیقی ستارے
ڈاکٹر سکندر حیات نے کتاب کا تعارف اور تجزیہ بھرپور طریقے سے کیا ہے۔ مصنف اور تجزیہ داد و تحسین کے مستحق ہیں
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی گیارہویں کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے، اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے تحقیقی اور تنقیدی کاموں کو خلوص دل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ مصنف کی ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے محبت عقیدت اور احترام ان کی تحریروں میں جھلک رہا ہے۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے شاگرد رشید کا حق بخوبی ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر سکندر میکن کی ملاقات ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے اورینٹل کالج لاہور میں اس وقت ہوئی جب وہ پی ایچ ڈی کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے ملتے تھے اور پھر بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں اس کی وجہ ڈاکٹر نیر سکندر حیات کے نگران مقرر ہوئے تھے۔
ڈاکٹر سکندر حیات کی محبت اور قدردانی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے جذبات اور اپنے استاد کے محاسن بیان کرنے کے لیے بہت خوبصورت مضمون لکھا۔ عنوان تھا ''میرے استاد، میرے ناصر'' سکندر حیات نے مضمون کیا لکھا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دلکش الفاظ سے ان کا اسکیچ بنا دیا ہے اور یہ اسکیچ خاکے کی شکل میں قاری کی توجہ مبذول کراتا ہے۔
اپنے استاد کے بارے میں بہت سی معلومات کے در وا کیے ہیں۔ ان کی شخصیت کا پیکر، متانت اور سنجیدگی، تخلیقات محققانہ صلاحیتیں اور تنقیدی و علمی کاوشوں کا احاطہ بھرپور انداز میں کیا ہے، ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی پانچ اہم تنقیدی کتب کا بھی مختصراً تعارف کروایا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعوں کے عنوانات سے بھی آگہی بہم پہنچائی ہے۔
''خاک کی مہک'' کا سن اشاعت 2016 ٹھہرا۔ ''فرشتہ نہیں آیا'' 2017 ، ''راکھ سے لکھی ہوئی کتاب'' 2018، ''ایک زمانہ ختم ہوا''2020 میں شایع ہوئی۔ جس طرح وہ تنقید کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اسی طرح وہ افسانوی ادب میں اپنا مقام اور پہچان بنا چکے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات جیسے بہت سے شاگردوں اور طالبعلموں نے ان کے علم و ہنر سے استفادہ کیا ہے اور ڈاکٹر نیر کے علم و فن کے قدر دان ہیں۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے بڑی تحقیق اور لگن کے ساتھ اپنی کتاب ''تنقیدی و تخلیقی ستارے'' مرتب کی ہے۔ انھوں نے ان آرا کو بھی شامل کتاب کیا ہے جو سکہ بند ادیبوں کی ڈاکٹر نیر کے بارے میں ہیں۔ اردو ادب کی قابل احترام شخصیت گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ ''ناصر عباس نیر کو پاکستان کے نوجوان نقادوں میں خاص اہمیت دیتا ہوں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، ادبی تھیوری پر بالخصوص ان کی نظر بہت اچھی ہے۔'' ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر رشید امجد کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔
''ناصر عباس نیر ہمارے عہد کے ایک اہم نقاد ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی کمی کو پورا کردیا ہے، بلکہ اس سے آگے کے سفر میں ہیں، ڈاکٹر سکندر کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر سکندر حیات کا یہ تجزیاتی مطالعہ اردو تنقید اور تنقید کے طالب علموں کے لیے بڑا گراں قدر تحفہ ہے۔''
کتاب کا حصہ اول ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے لیے مختص ہے ، کتاب کے دوسرے حصے میں ممتاز و معتبر قلم کاروں کی کتابوں پر تجزیاتی مطالعہ شامل ہے۔
پہلا مضمون بعنوان ایک درویش شاعر کا ''عاجزانہ'' مجموعہ زیر بحث آیا ہے۔ مصنف نے بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''ڈاکٹر اختر شمار کا شمار بھی درویش شعرا میں ہوتا ہے، وہ عصر حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شعری تخلیقات کی کائنات خاصی وسیع و عریض ہے۔ شاعری کے ساتھ ڈاکٹر اختر شمار نے اردو تحقیق میں بھی اپنا خوب حصہ ڈالا ہے۔ ان کی تصنیف ''جی بسم اللہ'' خاصی شہرت سمیٹ چکی ہے۔ زیر نظر مجموعہ ''عاجزانہ'' میں ان کی شاعری ایک درویش انسان کی کتھا ہے۔ اختر شمار کا اسلوب سادہ اور دل نشیں ہے۔
کہیں میری کہانی تو نہیں تھی
وہ دریا کی روانی تو نہیں تھی
بہت اونچا تھا بھاؤ چاہتوں کا
مگر ایسی گرانی تو نہیں تھی
''کراچی میں اردو غزل اور نظم ، باکمال تصنیف'' شاہد کمال کی تصنیف کا عنوان ہے۔ شاہد کمال نامور ادیب، محقق اور نقاد ہیں، ان کے مضمون سے ایک شعر:
زمانہ یوں تو کسی پر نظر نہیں کرتا
قلم کی بے ادبی درگزر نہیں کرتا
ڈاکٹر سکندر حیات نے کتاب کا تعارف اور تجزیہ بھرپور طریقے سے کیا ہے۔ مصنف اور تجزیہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا شمار مزاحیہ ادب لکھنے والوں میں نمایاں ہے۔ ان کی شناخت طنزیہ و مزاحیہ ادب ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ''نوعیت'' جس میں سترہ مضامین شامل ہیں، بقول مصنف کے ''نوعیت'' کے ہر مضمون میں تحقیقی ، تنقیدی رنگ نمایاں ہے، ڈاکٹر ورک نے غالب کی دشنام طرازی سے ابتدا کی ہے۔ یہ مضمون مرزا غالب کے مزاج اور شخصیت کا عکاس ہے، انھوں نے سرسید، ڈاکٹر علامہ اقبال، ممتاز مفتی، مشتاق یوسفی جیسی ادب کی قدآور شخصیات کو ایک محقق اور مدبر کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے۔
پروفیسر غازی علم الدین کی تازہ تصنیف ''میثاق عمرانی'' ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شایع ہوئی۔ پروفیسر غازی علم الدین اپنی علمیت، وسیع مطالعہ کے حوالے سے اپنی خصوصی پہچان رکھتے ہیں ادبی حلقوں میں ان کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ منتظمین جلسہ اور ناقدین ان کی قدر و منزلت سے بخوبی واقف ہیں۔
ان کے مضامین سنجیدگی سے سنے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات نے بہت توجہ کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور مطالعہ کرنے کے بعد جو عرق اس کتاب سے کشید کیا ہے اسے قاری تک پہنچا کر علم دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مضمون پڑھنے کے بعد بحیثیت قاری اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ پروفیسر صاحب کو عمرانیات جیسے اہم موضوع سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اپنی تصنیف میں لفظ ''عمرانی'' کی تشریح سلیس انداز بیان میں پیش کی ہے۔ انھوں نے تین جید شخصیات کا تقابلی مطالعہ اور ان کی حکیمانہ فکر کا جائزہ لیا ہے۔
پروفیسر علم الدین غازی کو اسلام سے محبت ہے اور معاشرے کی تنزلی کا بھی احساس شدت سے ہے اس کتاب کا محرک یہی تین اسلامی مفکر ہیں۔ڈاکٹر خالد ندیم کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کی یہ خوبی قاری کو مطالعے پر مجبور کرتی ہے کہ بہت آسان الفاظ کا استعمال، اسلوب بیان سادہ اور دلکش ہے۔ شخصیات اور ان کی خدمات کا تذکرہ بے حد موثر اور مدلل انداز میں کرتے ہیں کہ تشنگی باقی نہیں رہتی۔ ان کی ہر کتاب کا یہی خاصہ ہے۔
''شبلی کی آپ بیتی، ایک تحقیقی کارنامہ'' ڈاکٹر سکندر حیات نے مذکورہ عنوان کے تحت اس طرح خامہ فرسائی کی ہے۔''افسوس کی بات یہ ہے کہ سوانح نگار شبلی کی زندگی پر جم کر کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ سید سلیمان ندوی نے ''حیات شبلی'' میں ان کے شخصی گوشوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ''شبلی کی حیات معاشقہ'' لکھ کر ان کی شخصیت کے نفسیاتی گوشوں کو ابھارا، غنیمت ہے کہ ان کی وفات پر سو سال گزرنے کے بعد ''شبلی شناسی'' میں جو گراں قدر خراج تحسین ڈاکٹر خالد ندیم نے پیش کیا ہے اسے ایک قابل تحقیقی قدر کا رنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کا یہ کارنامہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کے تمام مضامین جو ڈاکٹر سکندر کی تنقیدی بصیرت و بصارت کا ثمر ہیں سب ہی قابل تحسین ہیں چند کے نام گرامی یہ ہیں۔ راقم الحروف کی کتاب فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ، اذن سفر دیا تھا کیوں، ایک سفر نامہ ایران، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیرکی کتاب کا نام بھی ڈاکٹر سکندر حیات نے بامعنی اور دلاویز تجویز کیا ہے ، مبارکباد پیش کرتی ہوںکہ وہ ایک بہترین، باصلاحیت ادیب اور نقاد ہیں۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے شاگرد رشید کا حق بخوبی ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر سکندر میکن کی ملاقات ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے اورینٹل کالج لاہور میں اس وقت ہوئی جب وہ پی ایچ ڈی کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے ملتے تھے اور پھر بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں اس کی وجہ ڈاکٹر نیر سکندر حیات کے نگران مقرر ہوئے تھے۔
ڈاکٹر سکندر حیات کی محبت اور قدردانی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے جذبات اور اپنے استاد کے محاسن بیان کرنے کے لیے بہت خوبصورت مضمون لکھا۔ عنوان تھا ''میرے استاد، میرے ناصر'' سکندر حیات نے مضمون کیا لکھا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دلکش الفاظ سے ان کا اسکیچ بنا دیا ہے اور یہ اسکیچ خاکے کی شکل میں قاری کی توجہ مبذول کراتا ہے۔
اپنے استاد کے بارے میں بہت سی معلومات کے در وا کیے ہیں۔ ان کی شخصیت کا پیکر، متانت اور سنجیدگی، تخلیقات محققانہ صلاحیتیں اور تنقیدی و علمی کاوشوں کا احاطہ بھرپور انداز میں کیا ہے، ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی پانچ اہم تنقیدی کتب کا بھی مختصراً تعارف کروایا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعوں کے عنوانات سے بھی آگہی بہم پہنچائی ہے۔
''خاک کی مہک'' کا سن اشاعت 2016 ٹھہرا۔ ''فرشتہ نہیں آیا'' 2017 ، ''راکھ سے لکھی ہوئی کتاب'' 2018، ''ایک زمانہ ختم ہوا''2020 میں شایع ہوئی۔ جس طرح وہ تنقید کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اسی طرح وہ افسانوی ادب میں اپنا مقام اور پہچان بنا چکے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات جیسے بہت سے شاگردوں اور طالبعلموں نے ان کے علم و ہنر سے استفادہ کیا ہے اور ڈاکٹر نیر کے علم و فن کے قدر دان ہیں۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے بڑی تحقیق اور لگن کے ساتھ اپنی کتاب ''تنقیدی و تخلیقی ستارے'' مرتب کی ہے۔ انھوں نے ان آرا کو بھی شامل کتاب کیا ہے جو سکہ بند ادیبوں کی ڈاکٹر نیر کے بارے میں ہیں۔ اردو ادب کی قابل احترام شخصیت گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ ''ناصر عباس نیر کو پاکستان کے نوجوان نقادوں میں خاص اہمیت دیتا ہوں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، ادبی تھیوری پر بالخصوص ان کی نظر بہت اچھی ہے۔'' ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر رشید امجد کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔
''ناصر عباس نیر ہمارے عہد کے ایک اہم نقاد ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی کمی کو پورا کردیا ہے، بلکہ اس سے آگے کے سفر میں ہیں، ڈاکٹر سکندر کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر سکندر حیات کا یہ تجزیاتی مطالعہ اردو تنقید اور تنقید کے طالب علموں کے لیے بڑا گراں قدر تحفہ ہے۔''
کتاب کا حصہ اول ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے لیے مختص ہے ، کتاب کے دوسرے حصے میں ممتاز و معتبر قلم کاروں کی کتابوں پر تجزیاتی مطالعہ شامل ہے۔
پہلا مضمون بعنوان ایک درویش شاعر کا ''عاجزانہ'' مجموعہ زیر بحث آیا ہے۔ مصنف نے بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''ڈاکٹر اختر شمار کا شمار بھی درویش شعرا میں ہوتا ہے، وہ عصر حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شعری تخلیقات کی کائنات خاصی وسیع و عریض ہے۔ شاعری کے ساتھ ڈاکٹر اختر شمار نے اردو تحقیق میں بھی اپنا خوب حصہ ڈالا ہے۔ ان کی تصنیف ''جی بسم اللہ'' خاصی شہرت سمیٹ چکی ہے۔ زیر نظر مجموعہ ''عاجزانہ'' میں ان کی شاعری ایک درویش انسان کی کتھا ہے۔ اختر شمار کا اسلوب سادہ اور دل نشیں ہے۔
کہیں میری کہانی تو نہیں تھی
وہ دریا کی روانی تو نہیں تھی
بہت اونچا تھا بھاؤ چاہتوں کا
مگر ایسی گرانی تو نہیں تھی
''کراچی میں اردو غزل اور نظم ، باکمال تصنیف'' شاہد کمال کی تصنیف کا عنوان ہے۔ شاہد کمال نامور ادیب، محقق اور نقاد ہیں، ان کے مضمون سے ایک شعر:
زمانہ یوں تو کسی پر نظر نہیں کرتا
قلم کی بے ادبی درگزر نہیں کرتا
ڈاکٹر سکندر حیات نے کتاب کا تعارف اور تجزیہ بھرپور طریقے سے کیا ہے۔ مصنف اور تجزیہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا شمار مزاحیہ ادب لکھنے والوں میں نمایاں ہے۔ ان کی شناخت طنزیہ و مزاحیہ ادب ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ''نوعیت'' جس میں سترہ مضامین شامل ہیں، بقول مصنف کے ''نوعیت'' کے ہر مضمون میں تحقیقی ، تنقیدی رنگ نمایاں ہے، ڈاکٹر ورک نے غالب کی دشنام طرازی سے ابتدا کی ہے۔ یہ مضمون مرزا غالب کے مزاج اور شخصیت کا عکاس ہے، انھوں نے سرسید، ڈاکٹر علامہ اقبال، ممتاز مفتی، مشتاق یوسفی جیسی ادب کی قدآور شخصیات کو ایک محقق اور مدبر کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے۔
پروفیسر غازی علم الدین کی تازہ تصنیف ''میثاق عمرانی'' ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شایع ہوئی۔ پروفیسر غازی علم الدین اپنی علمیت، وسیع مطالعہ کے حوالے سے اپنی خصوصی پہچان رکھتے ہیں ادبی حلقوں میں ان کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ منتظمین جلسہ اور ناقدین ان کی قدر و منزلت سے بخوبی واقف ہیں۔
ان کے مضامین سنجیدگی سے سنے اور پڑھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سکندر حیات نے بہت توجہ کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور مطالعہ کرنے کے بعد جو عرق اس کتاب سے کشید کیا ہے اسے قاری تک پہنچا کر علم دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مضمون پڑھنے کے بعد بحیثیت قاری اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ پروفیسر صاحب کو عمرانیات جیسے اہم موضوع سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اپنی تصنیف میں لفظ ''عمرانی'' کی تشریح سلیس انداز بیان میں پیش کی ہے۔ انھوں نے تین جید شخصیات کا تقابلی مطالعہ اور ان کی حکیمانہ فکر کا جائزہ لیا ہے۔
پروفیسر علم الدین غازی کو اسلام سے محبت ہے اور معاشرے کی تنزلی کا بھی احساس شدت سے ہے اس کتاب کا محرک یہی تین اسلامی مفکر ہیں۔ڈاکٹر خالد ندیم کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کی یہ خوبی قاری کو مطالعے پر مجبور کرتی ہے کہ بہت آسان الفاظ کا استعمال، اسلوب بیان سادہ اور دلکش ہے۔ شخصیات اور ان کی خدمات کا تذکرہ بے حد موثر اور مدلل انداز میں کرتے ہیں کہ تشنگی باقی نہیں رہتی۔ ان کی ہر کتاب کا یہی خاصہ ہے۔
''شبلی کی آپ بیتی، ایک تحقیقی کارنامہ'' ڈاکٹر سکندر حیات نے مذکورہ عنوان کے تحت اس طرح خامہ فرسائی کی ہے۔''افسوس کی بات یہ ہے کہ سوانح نگار شبلی کی زندگی پر جم کر کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ سید سلیمان ندوی نے ''حیات شبلی'' میں ان کے شخصی گوشوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے ''شبلی کی حیات معاشقہ'' لکھ کر ان کی شخصیت کے نفسیاتی گوشوں کو ابھارا، غنیمت ہے کہ ان کی وفات پر سو سال گزرنے کے بعد ''شبلی شناسی'' میں جو گراں قدر خراج تحسین ڈاکٹر خالد ندیم نے پیش کیا ہے اسے ایک قابل تحقیقی قدر کا رنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کا یہ کارنامہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کے تمام مضامین جو ڈاکٹر سکندر کی تنقیدی بصیرت و بصارت کا ثمر ہیں سب ہی قابل تحسین ہیں چند کے نام گرامی یہ ہیں۔ راقم الحروف کی کتاب فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ، اذن سفر دیا تھا کیوں، ایک سفر نامہ ایران، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیرکی کتاب کا نام بھی ڈاکٹر سکندر حیات نے بامعنی اور دلاویز تجویز کیا ہے ، مبارکباد پیش کرتی ہوںکہ وہ ایک بہترین، باصلاحیت ادیب اور نقاد ہیں۔