جھوٹ بولےکوا کاٹے
وہ سیاسی جماعتیں جو نہ نظریاتی جماعت ہیں اور نہ سیاسی،بلکہ ناشائستہ غیر سیاسی سوچ کا مجموعہ ہیں
ہماری صحافت میں ذرایع اور پھر باوثوق ذرایع کی اصطلاحات ''خبر ''کی کھوجنا اور اس کی تصدیق کے لیے استعمال کی جاتی ہیں،مگر کبھی کبھی خبر بنانے یا حالات و واقعات کی کڑیاں ملانے کے لیے بھی ذرایع کی مدد لی جاتی ہے تاکہ اصل حقائق تک پہنچا جائے اور کڑیوں کے ملنے پر خبرقاری یا سامع تک پہنچا دی جائے۔
ایسی ہی ایک خبر تصور کے نہاں خانوں میں گردش کرتی ہوئی ہم تک پہنچی،جس کے مطابق چالاک اور شاطر سمجھا جانے والے پرندے ،کوؤں کی ایک میٹنگ میں ملک کے سیاسی حالات کی روشنی میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملکی سیاست میں جھوٹ کے در آنے سے کوؤںکے کاٹنے کی اہمیت و حیثیت پر بہت بڑا داغ لگ رہا ہے،اور کوے کی تیز اور ٹھونگے مارنے کی صلاحیت سے مالا مال چونچ کے زخم یا خوف کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے اور یار لوگ بطور خاص سیاسی دوست ''کوے کے ٹھونگے''مارنے کو نہ خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی جھوٹ بولنے پر کوے کے کاٹنے کا خوف ان تبدیلی پسند سیاستدانوں میں باقی رہا ہے،اس اہم اور کوؤں کی حیثیت کو کم کرنے کے اس رجحان پر کوؤں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے،لہٰذا تمام کوؤں کا اجلاس جنگل کی کھلی فضا میں کرنے اور ''جھوٹ بولنے پر کوے کاٹنے''کو ازسر نو مضبوط کرنے کے لیے رکھا گیا ۔
ایک زمانہ تھا کہ جھوٹ بولنے کو برا عمل گردانتے ہوئے کوے سے ڈرایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ''جھوٹ نہ بولنا ورنہ کوا کاٹ لے گا'' اور اسی خطرے کی بنا پر بچے جھوٹ بولنے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ جب جنگل میں پرندوں نے ایک نئے لیڈر کو لانچ کیا تو جھوٹ بولنے پر کاٹنے والے کوے بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں فریب سے بچتے ہوئے دکھائی دیے اور فیصلہ کیا کہ اپنی تیز چونچوں کو بچا لیا جائے تاکہ کوؤں کی آیندہ نسلوں کو کسی طرح بچایا جا سکے،سو اسی خیال سے کوؤں کے مرکزی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مسلسل جھوٹ کا مقابلہ کرنے سے بہتر ہے کہ کوے اپنی نسل کی صدیوں سے جھوٹ کے خلاف جدوجہد کو بچائیں اور وقتی طور سے وقت اور حالات کو گذرنے دیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
دوسری جانب ہمارے ملک میں سیاسی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے غیر ملکی حضرات سے پارٹی فنڈ لینے والا جو کیس الیکشن کمیشن میں گزشتہ آٹھ برس سے چل رہا تھا،اس کو آخر کار الیکشن کمیشن عوام کے سامنے اپنے طے شدہ قوانین کے تحت لے آیا،جس کے تحت دستاویزات اور حقائق کی روشنی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف ممنوعہ فنڈ لینے کی مرتکب ہوئی ہے اور اس طرح وہ آئین پاکستان کے دو ہزار دو اور الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے قانون کے تحت ممنوعہ فنڈز لینے والی پارٹی ثابت ہو چکی ہے،جس کو آئین و قانون کے تحت نا اہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ کے نتیجے میں پارٹی پر ممنوعہ فنڈز لینے کے ضمن میں پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن نے آگے کی کارروائی کے لیے حکومت کو سفارشات بھیج دی ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھیج کر قانونی تقاضہ پورا کر دیا ہے۔ اس پورے عمل کے نتیجے میں تحریک انصاف اس فیکٹ فائنڈنگ کو الیکشن کمیشن اور حکومت کا گٹھ جوڑ قرار دے رہی ہے اور ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے،اس پوری سیاسی دھمہ چوکڑی میں یہ بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اپنے دفاع کے لیے پروپیگنڈہ کے علاوہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے،مگر پروپیگنڈے پر کمر بستہ تحریک انصاف کی پوری قیادت اپنے ممنوعہ فنڈز کا ریلیف عدالتوں سے لینے پر ہر روز ایک نیا بیانیہ گھڑتی ہے تاکہ کسی طرح آئین کے مخالف ممنوعہ فنڈز لینے کو درست قرار دلوا دیا جائے۔
اس پورے سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف آئین و قانون کے بر خلاف تن و تنہا کھڑی ہے جب کہ دوسری جانب حکومت اور ملکی سیاسی قیادت تحریک انصاف کے بیانیے کو جھوٹ و فریب قرار دے کر اسے سیاست میں زہر قاتل سمجھتی ہے اور تحریک انصاف نے پروپیگنڈے پر مبنی سیاست میں غلط روایات ڈالنے کا جو کام کیا ہے اس سے ملک کی اکثریت اور سیاسی دانش کسی طور مطمئن نہیں بلکہ سیاسی دانش کسی بھی جھوٹ پر مبنی بیانیے کو ملکی سیاست کے لیے وہ خطرناک رجحان سمجھتی ہے کہ جس سے جتنا جلد ممکن ہو جان چھڑائی جائے،مگر کسی بھی سیاستدان کے جھوٹے بیانیے سے جان چھڑانے یا نسل کو سیاسی گمراہی سے الگ تھلگ کرنے کے لیے قوانین سے زیادہ سیاسی سوچ و فکر کو عوام اور نسل تک لے جانا ہوگا۔
جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو ازسر نو اپنے سیاسی بیانیے اور پروپیگنڈے کے وہ ہتھیار استعمال کرنا پڑیں گے جو سیاسی طور سے کارگر ثابت ہوں،سیاست میں سیاسی حریف کو قانون اور آئین کے دائروں میں جکڑ کر جھوٹے بیانیے سے عوام کی جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
تاریخی طور پر نظریاتی جماعتوں پر پابندی سے فکر ختم نہیں ہوتی،جب کہ وہ سیاسی جماعتیں جو نہ نظریاتی جماعت ہیں اور نہ سیاسی،بلکہ ناشائستہ غیر سیاسی سوچ کا مجموعہ ہیں، جو اس ملک کی سیاست، معاشرت، تہذیب اور شائستگی کو نگل رہی ہیں،ملکی سیاست کے اس اہم موڑ پر ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی اپنی جگہ مقدم ہے مگر سیاسی ابتری اور سیاسی شر انگیزی اور جھوٹ کو مضبوط اور سنجیدہ سیاسی رویوں اور بیانییے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے،کیونکہ یاد رکھا جائے کہ جھوٹ بولنے میں ماہر سیاسی قیادت نہ صرف سیاست بلکہ نسل کی بھی مجرم ہے۔
ایسی ہی ایک خبر تصور کے نہاں خانوں میں گردش کرتی ہوئی ہم تک پہنچی،جس کے مطابق چالاک اور شاطر سمجھا جانے والے پرندے ،کوؤں کی ایک میٹنگ میں ملک کے سیاسی حالات کی روشنی میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملکی سیاست میں جھوٹ کے در آنے سے کوؤںکے کاٹنے کی اہمیت و حیثیت پر بہت بڑا داغ لگ رہا ہے،اور کوے کی تیز اور ٹھونگے مارنے کی صلاحیت سے مالا مال چونچ کے زخم یا خوف کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے اور یار لوگ بطور خاص سیاسی دوست ''کوے کے ٹھونگے''مارنے کو نہ خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی جھوٹ بولنے پر کوے کے کاٹنے کا خوف ان تبدیلی پسند سیاستدانوں میں باقی رہا ہے،اس اہم اور کوؤں کی حیثیت کو کم کرنے کے اس رجحان پر کوؤں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے،لہٰذا تمام کوؤں کا اجلاس جنگل کی کھلی فضا میں کرنے اور ''جھوٹ بولنے پر کوے کاٹنے''کو ازسر نو مضبوط کرنے کے لیے رکھا گیا ۔
ایک زمانہ تھا کہ جھوٹ بولنے کو برا عمل گردانتے ہوئے کوے سے ڈرایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ''جھوٹ نہ بولنا ورنہ کوا کاٹ لے گا'' اور اسی خطرے کی بنا پر بچے جھوٹ بولنے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ جب جنگل میں پرندوں نے ایک نئے لیڈر کو لانچ کیا تو جھوٹ بولنے پر کاٹنے والے کوے بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں فریب سے بچتے ہوئے دکھائی دیے اور فیصلہ کیا کہ اپنی تیز چونچوں کو بچا لیا جائے تاکہ کوؤں کی آیندہ نسلوں کو کسی طرح بچایا جا سکے،سو اسی خیال سے کوؤں کے مرکزی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مسلسل جھوٹ کا مقابلہ کرنے سے بہتر ہے کہ کوے اپنی نسل کی صدیوں سے جھوٹ کے خلاف جدوجہد کو بچائیں اور وقتی طور سے وقت اور حالات کو گذرنے دیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
دوسری جانب ہمارے ملک میں سیاسی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کے غیر ملکی حضرات سے پارٹی فنڈ لینے والا جو کیس الیکشن کمیشن میں گزشتہ آٹھ برس سے چل رہا تھا،اس کو آخر کار الیکشن کمیشن عوام کے سامنے اپنے طے شدہ قوانین کے تحت لے آیا،جس کے تحت دستاویزات اور حقائق کی روشنی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف ممنوعہ فنڈ لینے کی مرتکب ہوئی ہے اور اس طرح وہ آئین پاکستان کے دو ہزار دو اور الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے قانون کے تحت ممنوعہ فنڈز لینے والی پارٹی ثابت ہو چکی ہے،جس کو آئین و قانون کے تحت نا اہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ کے نتیجے میں پارٹی پر ممنوعہ فنڈز لینے کے ضمن میں پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن نے آگے کی کارروائی کے لیے حکومت کو سفارشات بھیج دی ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھیج کر قانونی تقاضہ پورا کر دیا ہے۔ اس پورے عمل کے نتیجے میں تحریک انصاف اس فیکٹ فائنڈنگ کو الیکشن کمیشن اور حکومت کا گٹھ جوڑ قرار دے رہی ہے اور ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے،اس پوری سیاسی دھمہ چوکڑی میں یہ بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اپنے دفاع کے لیے پروپیگنڈہ کے علاوہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے،مگر پروپیگنڈے پر کمر بستہ تحریک انصاف کی پوری قیادت اپنے ممنوعہ فنڈز کا ریلیف عدالتوں سے لینے پر ہر روز ایک نیا بیانیہ گھڑتی ہے تاکہ کسی طرح آئین کے مخالف ممنوعہ فنڈز لینے کو درست قرار دلوا دیا جائے۔
اس پورے سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف آئین و قانون کے بر خلاف تن و تنہا کھڑی ہے جب کہ دوسری جانب حکومت اور ملکی سیاسی قیادت تحریک انصاف کے بیانیے کو جھوٹ و فریب قرار دے کر اسے سیاست میں زہر قاتل سمجھتی ہے اور تحریک انصاف نے پروپیگنڈے پر مبنی سیاست میں غلط روایات ڈالنے کا جو کام کیا ہے اس سے ملک کی اکثریت اور سیاسی دانش کسی طور مطمئن نہیں بلکہ سیاسی دانش کسی بھی جھوٹ پر مبنی بیانیے کو ملکی سیاست کے لیے وہ خطرناک رجحان سمجھتی ہے کہ جس سے جتنا جلد ممکن ہو جان چھڑائی جائے،مگر کسی بھی سیاستدان کے جھوٹے بیانیے سے جان چھڑانے یا نسل کو سیاسی گمراہی سے الگ تھلگ کرنے کے لیے قوانین سے زیادہ سیاسی سوچ و فکر کو عوام اور نسل تک لے جانا ہوگا۔
جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو ازسر نو اپنے سیاسی بیانیے اور پروپیگنڈے کے وہ ہتھیار استعمال کرنا پڑیں گے جو سیاسی طور سے کارگر ثابت ہوں،سیاست میں سیاسی حریف کو قانون اور آئین کے دائروں میں جکڑ کر جھوٹے بیانیے سے عوام کی جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
تاریخی طور پر نظریاتی جماعتوں پر پابندی سے فکر ختم نہیں ہوتی،جب کہ وہ سیاسی جماعتیں جو نہ نظریاتی جماعت ہیں اور نہ سیاسی،بلکہ ناشائستہ غیر سیاسی سوچ کا مجموعہ ہیں، جو اس ملک کی سیاست، معاشرت، تہذیب اور شائستگی کو نگل رہی ہیں،ملکی سیاست کے اس اہم موڑ پر ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی اپنی جگہ مقدم ہے مگر سیاسی ابتری اور سیاسی شر انگیزی اور جھوٹ کو مضبوط اور سنجیدہ سیاسی رویوں اور بیانییے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے،کیونکہ یاد رکھا جائے کہ جھوٹ بولنے میں ماہر سیاسی قیادت نہ صرف سیاست بلکہ نسل کی بھی مجرم ہے۔