معیشت کی بہتری کیسے ممکن ہے

موجودہ حالات میں ملک سدھارنے کی سب سے بڑی ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے


Muhammad Saeed Arain August 07, 2022
[email protected]

سابق پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی پر احتجاج اور مارچ کرنے والے موجودہ حکومت کے اتحادی ،جب اپوزیشن میں تھے تو انھیں مہنگائی کا پتھر پہاڑ نظر آتا تھا۔

(ق) لیگ کے صدر سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ اقتدار میں آ کر اختیارات رکھنے والے معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے سوچ و بچار کریں اور غریبوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سبق نہ سکھائیں بلکہ ان کی بہتری کے لیے کام کریں۔

موجودہ حالات میں ملک سدھارنے کی سب سے بڑی ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے اختلافات بھولنا نہیں چاہتے تو بے شک نہ بھولیں مگر انھیں پس پشت ڈال دیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کی سیاسی وجوہات ہیں اس لیے سیاستدانوں کو اس سلسلے میں فوری طور پر کچھ کرنا چاہیے تاکہ بہتری لائی جاسکے۔

راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے وفد سے ملاقات میں سابق وزیر اعظم عمران خان میثاق معیشت پر دستخط کرنے کے لیے دن میں تو رضامند نظر آئے مگر رات کو قوم سے خطاب میں انھوں نے پھر اپنا پرانا موقف دہرایا کہ نیا الیکشن کمیشن اور شفاف انتخابات چاہئیں ورنہ انتشار بڑھے گا۔ میں سب سے مذاکرات کرسکتا ہوں مگر چوروں سے بات نہیں کروں گا اور نہ ان سے ڈیل کروں گا، ڈیل سے معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ملک معیشت کی تباہی سے بربادہو رہا ہے مگر عمران خان کے نزدیک انھیں معاشرہ تباہ ہو جانے کی زیادہ فکر ہے، جب کہ موجودہ حکومت کے نزدیک عمران حکومت کی وجہ سے ہی ملک میں بے روزگاری و مہنگائی عروج پر اور ملکی معیشت تباہی کا شکار ہے۔

چوہدری شجاعت کے مشورے کو عمران خان نے مسترد کرکے اپنے پرانے موقف پر برقرار رہنے کا پھر عزم کرلیا ہے کیونکہ وہ موجودہ حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہیں جب کہ عمران خان جنھیں سالوں سے کرپٹ قرار دیتے آ رہے ہیں انھیں کسی بھی عدالت نے کرپٹ قرار دیا نہ عمران حکومت انھیں کہیں کرپٹ ثابت کرسکی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی پر جلسے جلوس کرنے والوں کی موجودہ سیاسی پارٹیوں کی حکومت نے مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کر دکھایا ہے، جس کا ذمے دار وہ سو دن گزارنے کے بعد سابق حکومت کو قرار دے رہے ہیں کہ جس نے آئی ایم ایف سے مہنگائی بڑھانے کا معاہدہ کیا تھا جس پر عمل کرکے اتحادی حکومت نے عوام پر مہنگائی کے پتھر نہیں پہاڑ گرانے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا ہوا ہے اور پٹرول سو روپے مہنگا اور گیس و بجلی بے انتہا مہنگی کرکے بھی حکومت کو چین نہیں آیا اور وزرا سنگدلی اور ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ بجلی تین روپے پچاس پیسے فی یونٹ مہنگی اور آیندہ مزید ساڑھے تین روپے اضافہ ہوگا۔ حکومتی مظالم بڑھانے کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے اور اکتوبر میں بھی بجلی مہنگی کی جائے گی اور گیس کے نرخ بھی بڑھائے جائیں گے۔

حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد بجلی کے نرخوں میں ظالمانہ اضافہ کیا تھا اور جون کے بلوں میں مارچ کے مہینے کے فیول ایڈجسٹمنٹ کرکے چارجز لگائے تھے اور جولائی کے بل میں یکدم دو ماہ اپریل و مئی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز لگوا دیے جو ایک ایک ماہ کے حساب سے بھی لگوائے جاسکتے تھے۔ نئے بجٹ کی منظوری کے بعد ہر چھوٹی بڑی ریٹیل دکان کے بجلی کے بلوں میں ایک دم چھ ہزار روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جولائی کے بل بھیجے گئے ہیں۔

جس پر ملک بھر کے تاجر احتجاج کر رہے ہیں اور وہ عدلیہ سے رجوع کرچکے ہیں کہ چھوٹے تاجر اس زمرے میں نہیں آتے حکومت کا فیصلہ غیر قانونی ہے اور انھوں نے فکسڈ سیلز ٹیکس مسترد کرتے ہوئے بل ادا کرنے اور میٹر منقطع کرنے کی صورت میں مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ اب تک کسی حکومت میں ایسا نہیں ہوا کہ بجٹ میں نان فائلرز کے لیے انکم ٹیکس تین سے دس ہزار روپے سالانہ نافذ کرنے کا کہا گیا جب کہ ایس آر او میں سالانہ کے بجائے ماہانہ کرکے حکومت نے بددیانتی کی ہے۔

آل پاکستان انجمن تاجران اور ٹریڈرز ایکشن کمیٹی نے فکسڈ سیلز ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ تاجروں اور بجلی کے گھریلو صارفین کا کہنا ہے کہ گزرے ہوئے مہینوں میں استعمال کی جانے والی بجلی پر کئی ماہ بعد فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز پہلے سے وصول کیے جاتے ہیں مگر بجلی مہنگی کرکے یہ چارجز ماہانہ ہزاروں روپے کردیے گئے ہیں اور ہر ماہ وصول کرنے کے بجائے جولائی کے بلوں میں دو ماہ کے ڈبل فیول چارجز وصول کیے جا رہے ہیں جس سے بجلی کے بل ڈبل ہو گئے ہیں۔

حکومت بجلی کے بے انتہا نرخ بڑھا رہی ہے اور پہلے استعمال کی گئی بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ڈبل دو ماہ کے وصول کرنے کے بجائے ہر ماہ بھی وصول کیے جاسکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا جس سے گھریلو صارفین پر ماہانہ ہزاروں روپے کا بوجھ بڑھ گیا ہے جو سراسر ظلم ہے۔

تاجروں پر ایک دم 6 ہزار روپے سیلز ٹیکس بجٹ اعلان کے مطابق ماہانہ کے حساب سے قسطوں میں وصول کیا جاسکتا تھا مگر سالانہ کا اعلان کرکے ماہانہ کردینا اور ہر دکان پر ماہانہ چھ ہزار روپے بجلی بلوں میں لگوا دینا سراسر ظلم کے مترادف ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری، بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات میں بے پناہ اضافے سے کاروبار بری طرح متاثر ہیں مگر ملک کے صنعتکار وزیر خزانہ کو کوئی احساس نہیں ہے۔

دکانوں سے سیلز ٹیکس سالانہ اگر 6 ہزار ہی لینا ہے تو وہ بجلی کے بلوں میں پانچ سو روپے ماہانہ لیا جاسکتا تھا اور گھریلو صارفین سے فیول چارجز ماہانہ لیے جاسکتے ہیں تاکہ ان پر یکدم بوجھ نہ پڑے۔ مہنگائی بجلی و گیس کے یہ حکومتی مظالم حکومت آسان قسطوں میں کرکے بھی وصول کرسکتی ہے اور تاجروں اور گھریلو صارفین کوریلیف دیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔