متحدہ کارکن قتل کیس ایم ایل او نے موبائل پیغام میں رینجرز کے تشدد کا ذکر کیا پولیس
وفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے جواب داخل نہیں کیا گیا ، سندھ ہائیکورٹ کا دوبارہ نوٹس
پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے ایک اور کارکن کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تشدد اور ہلاکت کے الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قراردیا جبکہ متحدہ نے کارکن کی ہلاکت کے الزام میں اے آئی جی کراچی شاہد حیات سمیت متعدد افسران کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی استدعا کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد عادل کی پولیس تشدد سے ہلاکت کے خلاف دائر درخواست پروفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز سندھ کو سیشن جج کے ذریعے نوٹس کی تعمیل کرانے کی ہدایت کی ہے، جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے جواب داخل نہیں کیاگیا،عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے، پولیس کی جانب سے ایس ایچ او خواجہ اجمیر نگری اسلم جاکھرانی اور ایس پی نیو کراچی نے اپنے بیان میں کہاکہ انہیں ایم ایل او عباسی شہید اسپتال نے موبائل فون پرپیغام کے ذریعے نیوکراچی کے رہائشی کے زخمی حالت میں اسپتال پہنچنے اور3دن بعد ہلاکت کی اطلاع دی۔
موبائل فون پیغام میں ایم ایل او نے رینجرز کے تشدد کا ذکر کیا ہے ، پولیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تاہم پولیس کے رابطہ کرنے کے باوجود مرحوم کے اہل خانہ میں سے کسی شخص نے پولیس اسٹیشن سے رابطہ نہیں کیا ، انھوںنے کہا تھاکہ وہ آخری رسومات کے بعد پولیس سے رابطہ کرینگے ، مگر اہل خانہ نے پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کیا،عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے محمد عادل کو گرفتار نہیں کیا جبکہ درخواست گزاروں نے بھی گرفتاری کا الزام رینجرز پر عائد کیا ہے پولیس کو اس حوالے سے کوئی علم نہیں،سینیٹر نسرین جلیل اور عبدالصمدکی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد عادل کو نارتھ کراچی میں واقع اس کے گھر کے قریب سے حراست میں لیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، عادل نجی اسپتال میں دوران علاج چل بسا، عدالت نے 8اپریل کیلیے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز پاکستان کو سیشن جج اسلام آباد کے ذریعے نوٹس کی تعمیل کرانے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد عادل کی پولیس تشدد سے ہلاکت کے خلاف دائر درخواست پروفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز سندھ کو سیشن جج کے ذریعے نوٹس کی تعمیل کرانے کی ہدایت کی ہے، جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے جواب داخل نہیں کیاگیا،عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے، پولیس کی جانب سے ایس ایچ او خواجہ اجمیر نگری اسلم جاکھرانی اور ایس پی نیو کراچی نے اپنے بیان میں کہاکہ انہیں ایم ایل او عباسی شہید اسپتال نے موبائل فون پرپیغام کے ذریعے نیوکراچی کے رہائشی کے زخمی حالت میں اسپتال پہنچنے اور3دن بعد ہلاکت کی اطلاع دی۔
موبائل فون پیغام میں ایم ایل او نے رینجرز کے تشدد کا ذکر کیا ہے ، پولیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تاہم پولیس کے رابطہ کرنے کے باوجود مرحوم کے اہل خانہ میں سے کسی شخص نے پولیس اسٹیشن سے رابطہ نہیں کیا ، انھوںنے کہا تھاکہ وہ آخری رسومات کے بعد پولیس سے رابطہ کرینگے ، مگر اہل خانہ نے پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کیا،عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے محمد عادل کو گرفتار نہیں کیا جبکہ درخواست گزاروں نے بھی گرفتاری کا الزام رینجرز پر عائد کیا ہے پولیس کو اس حوالے سے کوئی علم نہیں،سینیٹر نسرین جلیل اور عبدالصمدکی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد عادل کو نارتھ کراچی میں واقع اس کے گھر کے قریب سے حراست میں لیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، عادل نجی اسپتال میں دوران علاج چل بسا، عدالت نے 8اپریل کیلیے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز پاکستان کو سیشن جج اسلام آباد کے ذریعے نوٹس کی تعمیل کرانے کی ہدایت کی ہے۔