اسرائیل کی غزہ پر جارحیت

غزہ کی محصور پٹی میں نظام زندگی معطل ہوچکا ہے، کاروبار زندگی بند ہے اور لوگ گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے ہیں

غزہ کی محصور پٹی میں نظام زندگی معطل ہوچکا ہے، کاروبار زندگی بند ہے اور لوگ گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

ISLAMABAD:
فلسطینی ایک بار پھراسرائیلی فضائی بمباری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔غزہ میں جمعہ کو بمباری کا سلسلہ شروع ہوا جو ہفتے اور اتوار کو بھی جاری رہا ۔ میڈیا میں جو اطلاعات آرہی ہیں، ان کے مطابق معصوم بچے بھی اسرائیلی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بنے ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق چھ فلسطینی بچے شہید ہوئے ہیں جب کہ بیس کے قریب نوجوان مرد وخواتین جاں بحق ہوئے ہیں۔

اسرائیل نے ہفتے کو شمالی شہر جبالیہ میں فلسطینی مہاجر کیمپ کو نشانہ بنایا، اس کیمپ میں بھی خاصا جانی نقصان ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے غزہ میں متعدد سرکاری اور نجی عمارتوں تباہ ہوگئی ہیں۔ ادھر فلسطینیوں کی ایک تنظیم اسلامی جہاد کے جنگجوؤں نے بھی اسرائیلی علاقے میں راکٹ برسائے ہیں، ان راکٹوں سے کتنا نقصان ہوا' اس کے بارے میں اطلاع نہیں ملی۔ اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ اس کا غزہ میں اسلامی جہاد تحریک کے خلاف آپریشن مزید ایک ہفتے تک جاری رہ سکتا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے فی الحال کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ادھر اسلامی جہاد تحریک نے بھی فوری جنگ بندی کا امکان مسترد کردیا ہے اور اسرائیلی حملے کو اعلان جنگ قرار دیا ہے ۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق غزہ میں کشیدگی بڑھنے پر اقوام متحدہ، مصر اور قطر نے ثالثی کی کوششیں شروع کردیں، ادھر روس نے بھی غزہ میں فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

غزہ میں حالیہ جھڑپیں جمعہ کو اس وقت شروع ہوئیں جب اسرائیلی فورسز نے میزائل حملے کرکے اسلامک جہاد تحریک کے اہم اور سینئر کمانڈر کوشہید اور درجنوں گھروں کو تباہ کردیا۔ اسرائیلی فوج نے اپنی اس جارحانہ کارروائی کو آپریشن ''بریکنگ ڈان'' کا نام دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی اس جارحیت کے بعد اسلامک جہاد تحریک نے جوابی راکٹ بازی کی ، یوں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں بمباری شروع کردی جس میں عام فلسطینی شہری اور بچے جاں بحق ہوئے۔

اتوار کو بھی اسرائیل کی کارروائیاں جاری رہیں۔ غزہ کی محصور پٹی میں نظام زندگی معطل ہوچکا ہے، کاروبار زندگی بند ہے اور لوگ گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے ہیں۔ غزہ کا واحد بجلی گھر بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے غزہ تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ آیندہ چند گھنٹے انتہائی مشکل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی عدم فراہمی کے باعث اسپتالوں میں اہم سروسز آیندہ 72 گھنٹوں میں بند کی جاسکتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ میں حالات کس قدر خراب ہیں۔

پاکستان نے غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کی تازہ ترین لہر بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ ہفتے کو ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ فضائی حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔

پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر زور دے کہ وہ طاقت کے بے دریغ استعمال کو روکے۔ انھوںنے کہا کہ پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کو فوری طور پر بند کرے۔انھوںنے کہا کہ جارحیت کو فوری طور پر روکنا ناگزیر ہے، ہم اقوام متحدہ اور او آئی سی قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک قابل عمل، خودمختار، فلسطینی ریاست کے لیے اپنے مطالبے کی تجدید کرتے ہیں۔

اس ایشو پر امریکی وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکا' اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اسی طرح کھڑا رہے گا' اسرائیلی اور فلسطینی جنگی ماحول میں مزید شدت لانے سے گریز کریں۔امریکا کے ایوان صدر کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کو امریکا کی جوبائیڈن انتظامیہ کی تائید حاصل ہے ۔امریکا اگر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتا تو اسرائیل کی حکومت پر دباؤ بڑھ سکتا تھا اور وہ جنگ بندی پر تیار ہوجاتا۔امریکا کی پالیسی کی وجہ سے ہی اسرائیل کی حکومت جارحیت پر عمل پیرا ہے۔ادھر سعودی عرب نے اسرائیلی فوج کے غزہ پرحملوں کی سخت مذمت کی ہے۔

سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ عالمی برادری دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی کوختم کرانے کے لیے اپنی کاوشیں بروئے کارلائے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریوں کو تشدد سے بچانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب پارلیمنٹ نے اسرائیلی قابض اتھارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی لوگوں کے خلاف خطرناک جنگ دیکھ رہے ہیں۔


عرب پارلیمنٹ نے غزہ پر بمباری کو بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جب کہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے خلاف مقبوضہ مغربی کنارے کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ غرب اردن میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکاء نے غزہ کی پٹی پر صہیونی دشمن کی ننگی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی حمایت کی ہے۔

غرب اردن کے وسطی شہر راملہ میں سیکڑوں فلسطینیوں نے قابض فوج کی غزہ کی پٹی پر چڑھائی کے خلاف نعرے بازی کی۔ ادھر الخلیل شہر میں بھی فلسطینی شہریوں کی بڑی تعداد نے غزہ کی پٹی پر جارحیت کے خلاف نعرے بازی کی۔ عوامی مزاحمتی قوتوں اور نوجوانوں کی ریلیوں میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔

اسرائیلی ڈرون نے غزہ شہر میں واقع برج فلسطین نامی عمارت پر میزائل حملہ کیا۔ اسرائیلی حملے میں تحریک جہاد اسلامی کا کمانڈر شہید ہو گیا' ڈرون حملے سے پہلے اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کی سرحدوں پر ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔ دریں اثناء مقبوضہ بیت المقدس اتھارٹی نے یہودی آباد کاروں کے لیے 1400سے زائد نئے رہائشی یونٹس تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے۔

یہ نئے رہائشی یونٹس مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں پہلے سے قائم ناجائز یہودی بستیوں طسور اور رمات راحیل کے درمیان قائم کیے جائیںگے۔ فلسطین نے اسرائیلی بستیوں کی توسیع کو روکنے اور دو ریاستی حل کے تحفظ کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔فلسطینی وزارت تعلیم نے خبردار کیا ہے کہ 36فلسطینی اسکولز کو قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے مسماری کا خطرہ ہے۔ فلسطینی اسکولوں میں سے 6اسکول مقبوضہ بیت المقدس میں واقع ہیں۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام کیسے عمل میں آیا' اس کے پس پردہ کن ممالک اور قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا اور اسرائیل کو قائم کرنے کے مقاصد اور اہداف کیا تھے اور کیا ہیں' یہ سب کچھ اب راز نہیں رہا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل دانشور' تاریخ دان اور مختلف ریاستوں کی اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات حقائق سے آگاہ تھیں اور انھوں نے اس حوالے سے اپنی مختلف مواقعے پر تقریروں اور تحریروں میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ جزیرہ نما عرب کی حکومتیں کن مسائل اور مجبوریوں کا شکار ہیں' اس کے بارے میں بھی سب کو پتہ ہے۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کے قیام کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔

آغاز میں فلسطینیوں کی جدوجہد قوم پرستی کے نعر ے پر استوار رہی۔ اس جدوجہد میں مذہبی عنصر یا تقسیم موجود نہیں تھی اور سب فلسطینی بلا امتیاز مذہب اور مسلک کے مشترکہ جدوجہد کر رہے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی تحریک آزادی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔

یوں فلسطینیوں کی تحریک کمزوری کا شکار ہوئی اور فلسطینی مسلمان عربوں کی تحریک بن گئی جب کہ مسیحی اور دیگر چھوٹے چھوٹے گروہ الگ ہو کر اپنی جدوجہد کرنے لگے جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی' پھر صورت حال میں مزید تبدیلی آئی اور فلسطینی مسلمانوں میں بھی تقسیم شروع ہو گئی' یاسر عرفات کی الفتح اور پی ایل او کے علاوہ حماس اور شامی حمایت یافتہ عمل ملیشیا وجود پذیر ہو گئیں۔ اس تقسیم نے فلسطینیوں کی آزادی کی منزل کو بہت دور کر دیا جب کہ اسرائیل اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا گیا ہے۔

آج فلسطین کا تنازع انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل کا رقبہ بڑھ چکا ہے اور اس علاقے میں یہودی آبادی میں بھی اضافہ ہو چکا ہے' وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت دنیا بھر سے آنے والے یہودی آباد کاروں کو اب بھی خوش آمدید کہتی ہے۔

افغانستان میں بھی کبھی یہودی بستیاں موجود تھیں لیکن آج تمام افغان یہودی اسرائیل میں آباد ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی جو تھوڑے بہت یہودی موجود تھے وہ بھی نقل مکانی کرکے اسرائیل پہنچ چکے ہیں' ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں جو انقلاب برپا ہوا' اس کے بعد ایران میں مقیم یہودی بھی نقل مکانی کر گئے۔ روس سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل آئے اور اب بھی آ رہے ہیں' یوکرین میں جنگ کے باعث بھی یہودی گھرانے اسرائیل میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔

یہ سب حقائق بتا رہے ہیں کہ اسرائیل کی آبادی میں غیر معمولی طور پر یہودیوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل شام کے علاقے گولان ہائیٹس پر قابض ہو چکا ہے۔ لہٰذا بلاشبہ فلسطینیوں کی جدوجہد حق پر مبنی ہے لیکن اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو بھی متحد ہونا پڑے گا۔
Load Next Story