بس ہم ہی برے ہیں… باقی
احتساب کرنے والا اپنی غلط حرکتوں پر بھی محفوظ رہتا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہیے
ISLAMABAD:
ملک کے تین اہم اداروں میں مقننہ وہ واحد ادارہ ہے جو جمہوریت کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور سیاستدانوں کی شمولیت سے پارلیمنٹ کے ارکان منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوتے ہیں اور بہت سوں کو بالا ہی بالا بالاتر منتخب کرالیتے ہیں۔
یہ لوگ عوامی ووٹوں کی اکثریت کے بجائے آر ٹی ایس سسٹم فیل کرا کر بھی منتخب کرائے جاتے ہیں اور دن میں زیادہ ووٹ لینے والے رات کے اندھیرے میں ہار جاتے ہیں اور رات کو جاری ہونے والے نتائج میں بعض وہ بدنصیب بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں جیتا ہوا بتایا جاتا ہے مگر صبح اٹھنے کے بعد انھیں پتا چلتا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور منتخب قرار دے دیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ سینیٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی جس کے نصف سینیٹر ہر تین سال بعد اپنے صوبے یا کسی اور صوبے کی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ سینیٹ کے ارکان اپنی پارٹی کے ٹکٹوں سے کم خرچ پر اور امیر لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے غیر متوقع طور پر منتخب ہو جاتے ہیں اور ان پر صوبائی قید نہیں ہوتی اور وہ قومی اسمبلی کی طرح ملک بھر میں کہیں سے بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کو بالاتر تو کہا جاتا ہے مگر قانون سازی میں وہ سب پر بالاتر ہوتے نہیں اور بس برائے نام پارلیمنٹ بالاتر کہلاتی ہے۔ قومی اسمبلی وزیر اعظم کو منتخب کرکے حکومت بنواتی ہے اور منتخب ہوکر وزیر اعظم اکثر بعد میں قومی اسمبلی میں آنا بھول جاتے ہیں اور وہ اپنی کابینہ کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ ملک و قوم کے لیے قانون سازی کرتی ہے مگر وزیر اعظم کی طرح ارکان پارلیمنٹ کی ایک تعداد بھی اپنے ایوانوں میں کم ہی آتی ہے مگر وہ غیر حاضری کے باوجود مقررہ الاؤنسز اور مراعات مکمل وصول کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مقررہ پالیسی کے تحت بعض دفعہ ارکان قومی اسمبلی استعفوں کے ڈرامے رچاتے ہوئے مہینوں ایوان میں نہیں آتے اور گھر بیٹھے ساری مراعات وصول کرتے ہیں۔ کسی اور پارٹی میں ایسا نہیں ہوتا مگر پی ٹی آئی نے کبھی سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے اور وہ مہینوں بعد بھی قومی اسمبلی میں واپس آنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں مگر وہ ایسا صرف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔
بالاتروں اور عدلیہ کے لیے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ضرور ہے مگر پارلیمنٹ اپنی مرضی سے کم اور بالاتروں اور عدلیہ کے حکم پر قانون سازی زیادہ کرنے پر ہمیشہ مجبور رہی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں نے خود ہی پارلیمنٹ کو کمزور کیا ہے اور ہر دور میں بعض سیاسی جماعتیں بالاتروں کی آلہ کار رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اور ارکان اسمبلی کی ہر دور میں غیر حاضری پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ بجٹ ہو یا قانون سازی دونوں کی منظوری کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے ان کی معاونت کی اور وہ اسی لیے دعویٰ کیا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ سیاستدانوں نے کبھی قانون سازی کرانے میں بالاتروں کو انکار نہیں کیا۔
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اس کی مدت پوری کرنے نہیں دی جاتی ۔ قیام پاکستان کے بعد عدلیہ اور بیورو کریسی ملک کی طاقت ہوا کرتے تھے اور پارلیمنٹ اتنی کمزور کردی گئی تھی کہ اس کے ذریعے منتخب ہونے والے کرپشن اور من مانی نہ کرنے والے وزرائے اعظم بھی بیورو کریسی کو پسند نہیں آتے تھے اور انھیں برطرف کردیا جاتا تھا کیونکہ وہ سیاستدان تھے جو شروع سے کمزور اور بالاتروں کے محتاج رہے اور جس نے طاقتور بننا اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہا وہ گھر بھیج دیے گئے۔
ملک میں طویل ترین مارشل لاؤں میں تو حکومتی سربراہ ہی مکمل بااختیار تھے اور انھوں نے مختلف دھمکیوں کے ذریعے سیاستدانوں کو اپنے ساتھ شریک اقتدار رکھا اور باقی ادوار کی سیاسی حکومتیں بھی بالاتروں کی مرضی سے بنیں اور برطرف کی جاتی رہیں جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں کمزور اور سیاستدان بدنام ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جمہوری حکومتوں کے خلاف بعض قوتوں کی ملی بھگت ہمیشہ سے جاری رہی۔ بعض اداروں نے غیر جمہوری قوتوں کا ہمیشہ ساتھ دیا اور خود کو مضبوط کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد سے عدلیہ نے خود کو طاقتور کرلیا۔ آمروں کو آئینی ترامیم کا غیر قانونی اختیار تک دیا گیا اور اب تو پارلیمنٹ بھی کمزور دکھائی دینے لگی ہے۔
سیاسی حکومتوں میں سیاستدانوں کو بیورو کریسی نے اپنے اشاروں پر نچایا۔ من مانے غلط فیصلے کرائے انھیں کرپشن میں ملوث کرایا جب کہ بالاتروں کے ہاتھوں بھی وہ استعمال ہوتے رہے جس کے نتیجے میں ہر دور میں بدنام سیاستدان ہوئے۔ انھیں مبینہ کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال پر برطرف بھی ہونا پڑا۔ بے گناہ ہوتے ہوئے وہ گرفتار اور قید رہے مگر انھیں عدلیہ سے بھی کوئی مدد نہ ملی۔
سیاستدانوں پر مقدمات بنوانے میں خود سیاستدان بھی شریک رہے جس کے نتیجے میں آج ملک میں صرف سیاستدان ہی برے بنے ہوئے ہیں اورباقی سب اچھے ہیں۔ بیورو کریسی صرف مال بنانے اور غیر ملکی شہریت لینے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
احتساب کرنے والا اپنی غلط حرکتوں پر بھی محفوظ رہتا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو ،ثبوت نہ ملنے پر وہ غیر قانونی کام کرکے بھی سزا سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ ملک میں اکثر مقدمات میں صرف سیاستدانوں کو ہی پھنسایا جاتا رہا ہے۔ پسندیدہ سیاستدان بھی مقدمات سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ انھیں غیبی مدد حاصل رہتی ہے جو محدود ہیں اور ناپسندیدہ سیاستدان مخالف سیاسی حکومت سمیت بالاتروں اور عدلیہ کے نزدیک برے ہی رہتے ہیں جب کہ باقی اچھے اور محفوظ رہتے ہیں مگر ان سیاسی برائیوں کے ذمے دار خود سیاستدان بھی ہوتے ہیں۔
ملک کے تین اہم اداروں میں مقننہ وہ واحد ادارہ ہے جو جمہوریت کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور سیاستدانوں کی شمولیت سے پارلیمنٹ کے ارکان منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوتے ہیں اور بہت سوں کو بالا ہی بالا بالاتر منتخب کرالیتے ہیں۔
یہ لوگ عوامی ووٹوں کی اکثریت کے بجائے آر ٹی ایس سسٹم فیل کرا کر بھی منتخب کرائے جاتے ہیں اور دن میں زیادہ ووٹ لینے والے رات کے اندھیرے میں ہار جاتے ہیں اور رات کو جاری ہونے والے نتائج میں بعض وہ بدنصیب بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں جیتا ہوا بتایا جاتا ہے مگر صبح اٹھنے کے بعد انھیں پتا چلتا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور منتخب قرار دے دیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ سینیٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی جس کے نصف سینیٹر ہر تین سال بعد اپنے صوبے یا کسی اور صوبے کی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ سینیٹ کے ارکان اپنی پارٹی کے ٹکٹوں سے کم خرچ پر اور امیر لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے غیر متوقع طور پر منتخب ہو جاتے ہیں اور ان پر صوبائی قید نہیں ہوتی اور وہ قومی اسمبلی کی طرح ملک بھر میں کہیں سے بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کو بالاتر تو کہا جاتا ہے مگر قانون سازی میں وہ سب پر بالاتر ہوتے نہیں اور بس برائے نام پارلیمنٹ بالاتر کہلاتی ہے۔ قومی اسمبلی وزیر اعظم کو منتخب کرکے حکومت بنواتی ہے اور منتخب ہوکر وزیر اعظم اکثر بعد میں قومی اسمبلی میں آنا بھول جاتے ہیں اور وہ اپنی کابینہ کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ ملک و قوم کے لیے قانون سازی کرتی ہے مگر وزیر اعظم کی طرح ارکان پارلیمنٹ کی ایک تعداد بھی اپنے ایوانوں میں کم ہی آتی ہے مگر وہ غیر حاضری کے باوجود مقررہ الاؤنسز اور مراعات مکمل وصول کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مقررہ پالیسی کے تحت بعض دفعہ ارکان قومی اسمبلی استعفوں کے ڈرامے رچاتے ہوئے مہینوں ایوان میں نہیں آتے اور گھر بیٹھے ساری مراعات وصول کرتے ہیں۔ کسی اور پارٹی میں ایسا نہیں ہوتا مگر پی ٹی آئی نے کبھی سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے اور وہ مہینوں بعد بھی قومی اسمبلی میں واپس آنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں مگر وہ ایسا صرف اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔
بالاتروں اور عدلیہ کے لیے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ضرور ہے مگر پارلیمنٹ اپنی مرضی سے کم اور بالاتروں اور عدلیہ کے حکم پر قانون سازی زیادہ کرنے پر ہمیشہ مجبور رہی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں نے خود ہی پارلیمنٹ کو کمزور کیا ہے اور ہر دور میں بعض سیاسی جماعتیں بالاتروں کی آلہ کار رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اور ارکان اسمبلی کی ہر دور میں غیر حاضری پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ بجٹ ہو یا قانون سازی دونوں کی منظوری کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے ان کی معاونت کی اور وہ اسی لیے دعویٰ کیا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ سیاستدانوں نے کبھی قانون سازی کرانے میں بالاتروں کو انکار نہیں کیا۔
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اس کی مدت پوری کرنے نہیں دی جاتی ۔ قیام پاکستان کے بعد عدلیہ اور بیورو کریسی ملک کی طاقت ہوا کرتے تھے اور پارلیمنٹ اتنی کمزور کردی گئی تھی کہ اس کے ذریعے منتخب ہونے والے کرپشن اور من مانی نہ کرنے والے وزرائے اعظم بھی بیورو کریسی کو پسند نہیں آتے تھے اور انھیں برطرف کردیا جاتا تھا کیونکہ وہ سیاستدان تھے جو شروع سے کمزور اور بالاتروں کے محتاج رہے اور جس نے طاقتور بننا اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہا وہ گھر بھیج دیے گئے۔
ملک میں طویل ترین مارشل لاؤں میں تو حکومتی سربراہ ہی مکمل بااختیار تھے اور انھوں نے مختلف دھمکیوں کے ذریعے سیاستدانوں کو اپنے ساتھ شریک اقتدار رکھا اور باقی ادوار کی سیاسی حکومتیں بھی بالاتروں کی مرضی سے بنیں اور برطرف کی جاتی رہیں جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں کمزور اور سیاستدان بدنام ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جمہوری حکومتوں کے خلاف بعض قوتوں کی ملی بھگت ہمیشہ سے جاری رہی۔ بعض اداروں نے غیر جمہوری قوتوں کا ہمیشہ ساتھ دیا اور خود کو مضبوط کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد سے عدلیہ نے خود کو طاقتور کرلیا۔ آمروں کو آئینی ترامیم کا غیر قانونی اختیار تک دیا گیا اور اب تو پارلیمنٹ بھی کمزور دکھائی دینے لگی ہے۔
سیاسی حکومتوں میں سیاستدانوں کو بیورو کریسی نے اپنے اشاروں پر نچایا۔ من مانے غلط فیصلے کرائے انھیں کرپشن میں ملوث کرایا جب کہ بالاتروں کے ہاتھوں بھی وہ استعمال ہوتے رہے جس کے نتیجے میں ہر دور میں بدنام سیاستدان ہوئے۔ انھیں مبینہ کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال پر برطرف بھی ہونا پڑا۔ بے گناہ ہوتے ہوئے وہ گرفتار اور قید رہے مگر انھیں عدلیہ سے بھی کوئی مدد نہ ملی۔
سیاستدانوں پر مقدمات بنوانے میں خود سیاستدان بھی شریک رہے جس کے نتیجے میں آج ملک میں صرف سیاستدان ہی برے بنے ہوئے ہیں اورباقی سب اچھے ہیں۔ بیورو کریسی صرف مال بنانے اور غیر ملکی شہریت لینے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
احتساب کرنے والا اپنی غلط حرکتوں پر بھی محفوظ رہتا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو ،ثبوت نہ ملنے پر وہ غیر قانونی کام کرکے بھی سزا سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ ملک میں اکثر مقدمات میں صرف سیاستدانوں کو ہی پھنسایا جاتا رہا ہے۔ پسندیدہ سیاستدان بھی مقدمات سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ انھیں غیبی مدد حاصل رہتی ہے جو محدود ہیں اور ناپسندیدہ سیاستدان مخالف سیاسی حکومت سمیت بالاتروں اور عدلیہ کے نزدیک برے ہی رہتے ہیں جب کہ باقی اچھے اور محفوظ رہتے ہیں مگر ان سیاسی برائیوں کے ذمے دار خود سیاستدان بھی ہوتے ہیں۔