ہمیں زیادہ سے زیادہ چیزیں جمع کرنے کی خواہش کیوں ہوتی ہے
محققین کے مطابق جب ہم اعلیٰ معیارِ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں تو ہم زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی جانب جاتے ہیں
ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کمپیوٹر ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ چیزیں جمع کرنے کی خواہش کیوں ہوتی ہے۔
امریکی ریاست نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی کے نفسیات کے شعبے کے محققین کی رہنمائی میں کی جانے والی اس نئی تحقیق میں حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق جب ہم اعلیٰ معیارِ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں تو ہم زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی جانب جاتے ہیں۔
اپنے مقالے میں محققین کا کہنا تھا کہ قدیم سے لے کر جدید لٹریچر تک انسان کی تاریخ ہمیشہ کی خوشی حاصل کرنے کی مشقت کی کہانیوں سے بھری نظر آتی ہے۔ اس کے متضاد خوشی ایک ایسا جزبہ ہے جس کی تلاش میں انسان سب سے زیادہ تگ و دو کرتا ہے لیکن پھر بھی کئی لوگوں کے لیے اس مقصد کا حصول مبہم رہتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان کے نتائج نے انہیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہم کیوں خواہشات کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسے ہوتے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ تحقیق ذہنی امراض جیسے کہ ڈپریشن، مادیت پرستی اور ضرورت سے زیادہ کھپت، کے علاج پر روشنی ڈالے گی۔
ماہرین کے مطابق دو نفسیاتی وقوعات ہمارے دماغ کو مسلسل مادی اشیاء کے حصول کے لیے کوشاں رکھتے ہیں۔
پہلا مظہر نسبتی موازنہ ہے یعنی یہ دیکھنا کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا مظہر ہماری ترجیحی امیدیں ہوتی ہیں جن پر ہماری خوشی کا انحصار ہوتا ہے لیکن یہ امیدیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔
اپنے تجربات میں محققین کی ٹیم نے ایسے کمپیوٹر ایجنٹ بنائے جو انسان کی سوچ سکتے تھے اور ان کو 'ری انفورسمنٹ لرننگ' سِکھائی۔
امریکی ریاست نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی کے نفسیات کے شعبے کے محققین کی رہنمائی میں کی جانے والی اس نئی تحقیق میں حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق جب ہم اعلیٰ معیارِ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں تو ہم زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی جانب جاتے ہیں۔
اپنے مقالے میں محققین کا کہنا تھا کہ قدیم سے لے کر جدید لٹریچر تک انسان کی تاریخ ہمیشہ کی خوشی حاصل کرنے کی مشقت کی کہانیوں سے بھری نظر آتی ہے۔ اس کے متضاد خوشی ایک ایسا جزبہ ہے جس کی تلاش میں انسان سب سے زیادہ تگ و دو کرتا ہے لیکن پھر بھی کئی لوگوں کے لیے اس مقصد کا حصول مبہم رہتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان کے نتائج نے انہیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہم کیوں خواہشات کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسے ہوتے ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ تحقیق ذہنی امراض جیسے کہ ڈپریشن، مادیت پرستی اور ضرورت سے زیادہ کھپت، کے علاج پر روشنی ڈالے گی۔
ماہرین کے مطابق دو نفسیاتی وقوعات ہمارے دماغ کو مسلسل مادی اشیاء کے حصول کے لیے کوشاں رکھتے ہیں۔
پہلا مظہر نسبتی موازنہ ہے یعنی یہ دیکھنا کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا مظہر ہماری ترجیحی امیدیں ہوتی ہیں جن پر ہماری خوشی کا انحصار ہوتا ہے لیکن یہ امیدیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔
اپنے تجربات میں محققین کی ٹیم نے ایسے کمپیوٹر ایجنٹ بنائے جو انسان کی سوچ سکتے تھے اور ان کو 'ری انفورسمنٹ لرننگ' سِکھائی۔