بے اصولی کی سیاست
اقتدار کے لیے ہر سیاستدان نے متعدد بار سیاست میں بے اصولی کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشا
1988 سے 1999 تک ملک میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو بار ایسی حکومتیں رہیں جو اپنی مدت پوری کرنے میں ناکام رہی تھیں اور ان دونوں کی حکومتوں سے قبل اور بعد میں 2008 تک دو غیر سول صدورکی طویل ترین حکومتیں تھیں اور ہر حکومت میں تمام سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان وزیر بنتے رہے اور ہر دور میں سیاستدانوں نے مارشل لا کی حمایت بھی کی اور جمہوری ادوار میں جمہوریت کے چیمپین بھی بنتے رہے اور انھوں نے ہر دور میں سیاسی اور مالی مفادات کے حصول سے گریز نہیں کیا بلکہ ہر دور میں اقتدار میں رہنا اپنا آبائی حق سمجھا ان کے نزدیک ان کی یہ بے اصولی بری نہیں رہی۔
عمران خان نے اپنی جماعت پی ٹی آئی بناتے وقت ایسے اعلانات کیے تھے جس سے متاثر ہو کر اس وقت کے اچھی شہرت اور اصولی سیاست پر یقین رکھنے والوں نے عمران خان کو سیاست میں وارد ایک بااصول شخص سمجھ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی جن میں معراج محمد خان، حامد خان ایڈووکیٹ، اکبر ایس بابر جیسے نامور سیاستدان تھے مگر کچھ عرصے بعد عمران خان نے بھی روایتی سیاست شروع کردی اور جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں اس لیے بھرپور حصہ لیا کہ جنرل پرویز مشرف انھیں 2002 کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بنا دیں گے۔
عمران خان سیاست میں نئے تھے اور ہر سیاستدان کی طرح اقتدار میں آنا چاہتے تھے اور جنرل پرویز مشرف کی چھتری تلے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف نے ایسا نہیں کیا بلکہ چوہدریوں پر اعتماد کرکے مسلم لیگ (ق) بنوائی جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی شامل کر کے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی اور سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو مسلم لیگ (ن) سے الگ کر کے اس کا صدر بنوایا اور 2002 کے عام انتخابات میں میاں اظہر کو الیکشن میں شکست ہوئی اور بعد میں چوہدری شجاعت حسین (ق) لیگ کے صدر اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰبنے اور اس کے بعد چوہدریوں کے نواز شریف سے اختلافات شروع ہوئے۔ اس سے پہلے ان چوہدریوں کے نواز شریف سے بہت قریبی تعلقات تھے یہاں تک کہ نواز شریف کے گجرات آنے پرانھیں گاڑی سمیت کاندھوں پر اٹھوایا تھا۔
مرکز میں بلوچستان کے میر ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا ،بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ان پر جنرل پرویز مشرف کو اعتماد نہ تھا کیونکہ وہ جمہوری آدمی تھے مگر دوسری جانب وہ منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی جنرل مشرف کو اپنا باس قرار دیتے تھے ، اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف اس شریف سیاسی وزیر اعظم سے مطمئن نہیں تھے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے جنرل پرویز مشرف سے بہت گہرے اور اچھے تعلقات رہے اور ان میں کسی قسم کا بظاہر اختلاف نہیں تھا، انھوں نے نہ صرف جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر منتخب کرایا بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ ایک بار کیا دس بار بھی وردی میں انھیں صدر منتخب کرائیں گے۔ پاکستان کی سیاست بھی ہمیشہ بے اصولیوں پر منحصر رہی ہے اور سیاستدانوں نے مفاد پرستانہ سیاست کو ترجیح دی اور ہر موقع پر جھوٹ بولے بلکہ جھوٹ بولنے کے ریکارڈ قائم کیے۔
اقتدار کے لیے ہر سیاستدان نے متعدد بار سیاست میں بے اصولی کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور جو بالاتر انھیں سیاست اور اقتدار میں لائے تھے عوامی طاقت پا کر انھوں نے انھی سے بے وفائی کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد سیاستدان بعدازاں اپنے لانے والوں کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔ ہر سیاستدان نے اقتدار میں آنے کے بعد اندرون و بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنائے جن کے باعث ان پر کرپشن کے مقدمات بھی چلے مگر انھیں کوئی سزا نہیں ہوئی۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف سے انھوں نے دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کیا ۔ بعدازاں وہ ملک واپس آئے اور ایک بار پھر وزیر اعظم بنے۔
کچھ سیاستدانوں کے نزدیک سیاسی بے اصولی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اگر عوام جھوٹ اور یوٹرن کی بے اصولی سیاست ترک کر دینے والوں کے حامی ہوں تو بے اصولی سیاست کرنے والے بھی مجبور ہوں گے اور آیندہ اصولی سیاست کرنے والے ہی کامیاب رہیں گے۔