مذاکراتی کمیٹی وزیرستان پہنچ گئی طالبان شوریٰ سے ملاقاتآئین سے بالاتر کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کرینگے ?

طالبان کے مطالبات پر غورہو رہا ہے، جو افراد عسکری کارروائیوں میں ملوث نہیں انھیں رہا کیا جائیگا، نوازشریف

پروفیسر ابراہیم، یوسف شاہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے میرانشاہ پہنچے، نامعلوم مقام پرمذاکرات، کمیٹی کی واپسی پر واضح ہوگا طالبان براہ راست مذاکرات چاہتے ہیں یا بالواسطہ، عرفان صدیقی فوٹو : فائل

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے تاہم آئین اور قانون سے بالاتر کوئی بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائیگا۔

پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہ ہونے والے افراد کو رہا کیا جائیگا، معاملات حل کرنے کیلیے مشاورت پر یقین رکھتے ہیں، دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم کرنے کیلیے علما کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی کی سربراہی میں وفد سے ملاقات میں انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو درپیش چیلنجوں کے حل کیلیے یکسو ہیں۔ ہم معاملات حل کرنے کیلیے مشاورت پر یقین رکھتے ہیں۔ این این آئی نے بی بی سی کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم نے کہا طالبان کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے جس پر حکومتی کمیٹی بحث کریگی تاہم آئین اور قانون سے بالاتر کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائیگا۔ حکومت ملک میں امن لانے کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ وہ طالبان جو عسکری کارروائیوں میں ملوث نہیں، انھیں رہا کیا جائیگا۔ اس موقع پر علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان کو بحران سے نکالنے کیلیے وزیراعظم کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔

ہم حکومت کی خارجہ پالیسی اور پولیو کے خاتمے کیلیے وزیراعظم کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ نوازشریف خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر امن کیلیے پرعزم ہیں۔ ملاقات کے دوران انھوں نے وزیراعظم سے طالبان کے غیرجنگی قیدی رہا کرنے کی اپیل کی۔ آئی این پی کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں طاہر اشرفی نے کہا کہ وزیراعظم نے بچوں اور خواتین سمیت تمام غیر جنگی قیدیوں کو رہا کرنیکی یقین دہانی کرائی۔ چین کے ''جیزوبا گروپ'' کے صدر نائی کائی کی سربراہی میں وفد سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ حکومت کی اقتصادی اصلاحات اور مسلسل کوششوں سے پاکستان ترقی کی پٹڑی پر گامزن ہوگیا ہے اور ہماری پالیسیوں نے پاکستان کو غیرملکی سرمایہ کاروں کیلیے ایک پرکشش مقام بنا دیا ہے۔ ہماری حکومت سرمایہ کاری دوست پالیسیوں کی حامل ہے اور ہم چاہیں گے کہ چین سمیت دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔

طالبان کی مذاکراتی کمیٹی نے شمالی وزیرستان میں طالبان شوریٰ سے ملاقات کی جس میں سیز فائر میں توسیع اور نئی حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیلیے مقام کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔


قبل ازیں طالبان کمیٹی کے دو ارکان پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ جمعرات کی صبح پشاور ایئرپورٹ پہنچے جہاں سے انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ پہنچایا گیا، جے یو آئی (س) شمالی وزیرستان کے امیر مولانا عبدالحئی بھی وفد کے ہمراہ ہیں۔ شمالی وزیرستان پہنچنے پر وفد طالبان شوریٰ سے مذاکرات کیلیے جنوبی وزیرستان میں نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگیا۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں کمیٹی کے ارکان نے طالبان شوریٰ کو اپنی ایک روز قبل وزیر داخلہ چودھری نثار سے ہونے والی ملاقات ' نئی حکومتی کمیٹی کے قیام سمیت دیگر معاملات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا جبکہ طالبان کی طرف سے اپنے کچھ مطالبات پیش کیے گئے۔ بات چیت میں طالبان کی نمائندگی قاری شکیل کی سربراہی میں مولوی ذاکر، اعظم طارق اور مولوی بشیر نے کی۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بتایا کہ طالبان کمیٹی اور شوریٰ میں مذاکرات شروع ہو گئے ہیں ان میں اہم امور پر پیشرفت کی توقع ہے۔

طالبان کے تمام گروپ امیر کی اطاعت کے پابند ہیں، ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ جنگ بندی میں توسیع شوریٰ اجلاس کے بعد کی جائے گی۔ طالبان کمیٹی ایک دو روز میں واپس پہنچ کر اپنی رپورٹ حکومتی کمیٹی کے حوالے کریگی جسکے بعد مذاکرات کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہو جائے گا۔ وزیرستان روانگی سے قبل پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے کہاکہ پہلا مرحلہ کامیابی سے طے ہوا اور اب فیصلہ سازی کے مرحلے پر بھی وہ کامیابی کیلیے پرامید ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا وہ عوام سے مذاکرات کی کامیابی کیلیے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کے ذاتی معاون احمد شاہ نے بتایا کہ کمیٹی کے اراکین کل طالبان کا پیغام لے کر واپس لوٹیں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ تحریک طالبان کی جانب سے اب تک پابندی اٹھانے کا مطالبہ نہیں کیا گیا اگر ایسا ہوا تو افہام و تفہیم سے فیصلہ کریں گے۔

طالبان سے رابطہ کاری کا پہلا مرحلہ کئی مشکلات کے باوجود طے ہوگیا، ملک دہشت گردی سے پاک نظر آ رہا ہے۔ طالبان کمیٹی کے 2 ارکان طالبان قیادت سے ملاقات کیلیے وزیرستان میں موجود ہیں جو ایک یا دو روز میں واپس آکررپورٹ دیں گے، جس کے بعد واضح ہوگا کہ طالبان براہ راست حکومتی کمیٹی سے بات کریں گے یا پہلے مرحلے کی طرح بالواسطہ مذاکرات کریں گے۔ امید ہے کہ حکومت کے اقدامات کامیاب ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہو گا۔ کچھ مطالبات حکومت کی جانب سے آئیں گے اور کچھ طالبان کی طرف سے جب بساط بچھ جائے گی تو دونوں طرف کے مطالبات دیکھ کر بات آگے بڑھائی جائیگی۔

عرفان صدیقی نے دہشت گردانہ کارروائی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے شہید ہونے والے کارکنوں کے لواحقین کو مالی امداد دلوانے سمیت ملک بھر کے صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلیے وزیر اعظم سے بات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ نئی حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے، حکومت سنجیدگی اور اخلاص کا مظاہرہ کرے تو آپریشن کی نوبت نہیں آئیگی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ مختلف دھڑوں پر تحریک طالبان کا کتنا اثر و رسوخ ہے، تحریک طالبان کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور جو قیدی جنگجو نہیں ہیں کو رہا کرانا ہو گا۔
Load Next Story